اتوار، 28 جون، 2015

تھا وہ اک یعقوب آسی ۔ (4) ۔


تھا وہ اک یعقوب آسی



تین چار پانچ سال کی عمر کے واقعات کسی کو بھی یاد نہیں ہوا کرتے اور وہ بھی جب انسان ساٹھ سے نکل چکا ہو! مجھے یہ باتیں کچھ تو اماں سے معلوم ہوئیں اور کچھ بڑی بہنوں سے، کہ میں چونکہ سب سے چھوٹا تھا تو سب کی توجہ میری طرف رہا کرتی ہو گی۔ کچھ کچھ گونج سی، کچھ ہیولے سے ایسے ہوتے ہیں کہ بندہ ان کو کوئی نام نہیں دے سکتا اور نہ ان سے کوئی واضح یاد داشت ترتیب دے سکتا ہے۔ ایسا ہوتا ضرور ہے کہ ’’کچھ تھا، ایسا‘‘! کچھ چہرے جیسے ذہن کے کسی کونے سے ابھر کر سامنے آتے ہیں، کچھ آوازیں، ان کی گونج اور اس کے ساتھ انسان پر کوئی خاص موڈ کا جھونکا سا آنا، جیسے اداسی، مسرت، خوف، ، اور پھر کچھ بھی نہیں۔ اس کی متعدد مثالیں ہیں۔
مجھے ایک بابا یاد آ رہے ہیں۔ سفید لباس، دونوں ٹانگوں سے معذور، دو بچہ ریڑھی جیسے پہیوں کی مدد سے گھسٹ گھسٹ کر چلتے ہوے، گرج دار آواز میں ناقابلِ اشاعت قسم کی گالیاں دیتے ہوئے، کبھی ہمارے گھر کبھی کسی دوسرے کے آ جا رہے ہیں۔ سب ان کی گالیوں کو برا جانتے ہیں پر، کوئی بھی برا نہیں مناتا۔ وہ ہمارے چھ سات گھروں کے مشترکہ بزرگ تھے، جس گھر میں کھانے کا وقت ہوتا، کھا لیتے، جہاں ان کو رات ہو جاتی اسی گھر میں وہیں بیٹھے بیٹھے سو جاتے اور گھر والے موسم کے مطابق چادر، کھیس، رضائی وغیرہ ان کے گرد لپیٹ دیتے۔ ان کا نام خدا بخش تھا، بابا خدائیا ان کی عرفیت تھی، اور وہ اس سے چِڑتے بھی بہت تھے۔ ایک بڑی اماں ہوتی تھیں۔ کمر مکمل طور پر جھکی ہوئی، ایک چھڑی کے سہارے چلتی پھرتی تھیں۔ وہ بھی مشترکہ بزرگوں میں تھیں، جہاں کھانے کا وقت ہو گیا، اسی گھر سے کھا لیتیں، مگر سوتی اپنے گھر جا کر تھیں۔ ایک اور بزرگ تھے، کسی دوسرے گاؤں میں رہتے تھے۔ کبھی کبھار ہمارے ہاں آیا کرتے، پروقار شخصیت کے حامل تھے، صاف ستھرے لباس میں ہوتے۔ اماں اور بابا دونوں ان کو بہت عزت دیا کرتے۔ ٹکتے کم ہی تھے، آئے چائے لسی وغیرہ پی، کچھ دیر بیٹھے باتیں کیں باتیں سنیں اور چلے گئے۔
۸ جون ۲۰۱۴ء

میرے بزرگ سیدھے سادے کاشت کار تھے۔ کسی نے بھی کبھی سکول کا منہ نہ دیکھا، مسجد کے ملا جی سے نورانی قاعدہ، پکی روٹی، یسرنا القرآن، آخری سیپارہ پڑھ لیا، نماز سیکھ لی، یہی کچھ کافی سمجھا جاتا۔ کوئی مولوی صاحب بہت کرتے تو چیدہ چیدہ بچوں کو تختی لکھنا سکھا دیتے۔ اماں نے بچپن میں قرآن شریف کے علاوہ پنجابی پڑھنا سیکھ لیا تھا، لکھ نہیں سکتی تھیں۔ عصر کے وقت محلے کی چھوٹی بچیاں اماں کے پاس ’’سبق پڑھنے‘‘ آیا کرتی تھیں۔ کوئی نورانی قاعدے پر، کوئی یسرنا القرآن پر اور کوئی پہلے سیپارے پر۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاتا اور اماں مجھے بھی عربی الف بے پڑھانے لگیں۔   گھر پر جب بچیاں سبق یاد کر رہی ہوتیں تو میں ان کے بیچ پھرتا رہتا۔ کہیں کسی بچی نے غلط پڑھ دیا تو میں اپنی عمر کے عین مطابق دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر اچھلتا اور شور مچا دیتا : ’’غلط، غلط، غلط‘‘۔ اماں نے کئی بار مجھے منع کیا کہ یوں نہ کیا کرو بچیاں سبکی محسوس کرتی ہیں، مگر میں باز نہ آتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شعور آتا گیا، میں سکول میں داخل ہو گیا تو میرا یہ انداز ہوتے ہوتے خود ہی ختم ہو گیا۔ 
اللہ تعالیٰ نے ذہن اچھا دیا ہے، مجھے سبق جلدی یاد بھی ہو جاتا اور میں ’’ٹوکویں حرف بھی اٹھا لیتا‘‘۔ یعنی بیچ بیچ میں پوچھا جاتا، جیم کون سا ہے، نون کون سا ہے، شین کون سا ہے یا یہ حرف کیا ہے، یہ کیا ہے وغیرہ تو میں ٹھیک بتا دیا کرتا۔ مجھے بھی دوسرے بچوں کی طرح سکول سے پہلے مسجد بھیجا جانے لگا۔ مولوی صاحب بھی یہی قاعدے پڑھاتے تھے۔ نماز، دعائیں، الحمد شریف، چاروں قل، اور کچھ مزید آخری سورتیں اور دعائیں سب یاد ہو گئیں۔ اور میں کئی ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر پارہ الف لام میم تک پہنچ گیا۔ پہلا سیپارہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ مولوی صاحب نے کہہ دیا کہ تم خود پڑھنے کے قابل ہو چکے ہو، روز اپنا سبق سنا دیا کرو، جتنا درست سنا سکتے ہو۔
پنجابی شاعری کی کچھ کتابیں گھر پر رکھی تھیں، جن میں مولوی عبدالستار کی اکرامِ محمدی اور مجموعہء اشعار، مولوی غلام رسول کی احسن القصص اور قصص الانبیاء، اور خیرالبشر (شاعر کا نام یاد نہیں) قابلِ ذکر ہیں۔ رات کو گھر کے کام کاج سے فارغ ہو جاتے تو کبھی ابا کہہ دیا کرتے، اور کبھی کوئی دوسرا فرد، اور کبھی اپنی مرضی سے وہ انہی کتابوں میں سے کوئی کتاب لے کر بیٹھ جاتیں اور گنگنانے کے انداز میں پڑھا کرتیں۔ میرا تیسرا معمول یہ تھا کہ جب اماں کتاب پڑھ رہی ہوتیں تو میں اُن کے پہلو سے لگ کر بیٹھ جاتا اور پورے غور سے دیکھا کرتا کہ ان کی انگلی کس سطر پر پھر رہی ہے اور وہ کیا پڑھ رہی ہیں۔ پھر وہیں بیٹھا بیٹھا سو جاتا۔ میری سب سے بڑی بہن کے کہنے کے مطابق میں اکثر ضد کیا کرتا کہ مجھے وہ بیان پڑھ کر سنائیں جس میں ایک چھوٹے سے بچے کی ماں مر جاتی ہے۔ (اُمِ رسول سیدہ آمنہ رحمہا اللہ کی رحلت بمقام ابواء)۔ اماں میری خواہش پر وہ پڑھا کرتیں اور میں بلک بلک کر رویا کرتا۔ دوسرے چوتھے روز پھر کہتا کہ وہی سنائیں جس میں ایک بچے کی ماں مر جاتی ہے۔

گھر کے ماحول کا اثر خاص طور پر ان برسوں کا جب آپ کی شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے زندگی بھر رہتا ہے۔ میرے بھائی اور بہنوں کا کہنا ہے کہ مجھ میں ابا کی سی عادات اور مزاج پایا جاتا ہے، وہی اوپر سے سخت اور اندر سے نرم، اخروٹ کی صورت کڑوا میٹھا ملا جُلا۔ اور علم دوستی مجھے اماں سے ملی۔

میں تیسری جماعت میں ہوا تو اماں کی لائبریری کی ساری (سات آٹھ)  کتابوں سے مانوس ہو چکا تھا، روانی سے پنجابی شعر پڑھ لیا کرتا۔ اب کے ’’کتاب سنانے‘‘ کی ذمہ داری کچھ کچھ مجھ پر بھی آن پڑی۔ ادھر سکول کے ہیڈماسٹر فتح محمد صاحب نے مجھے بزمِ ادب کے جمعہ وار اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہونے کا حکم صادر کر دیا۔ میں کبھی تو اپنے نصاب سے اور کبھی چوتھی پانچویں کے نصاب سے کوئی نظم یاد کر کے سنا دیتا، کبھی کوئی لطائف کبھی کچھ۔ بزم میں بھی ظاہر ہے اپنے ہی سکول کے لڑکے اور اساتذہ ہوتے لیکن شاید وہ جسے ’’سٹیج کا خوف‘‘ کہتے ہیں، وہ اپنا کام دکھاتا تھا۔ شروع شروع میں زبان لڑکھڑا جاتی اور کبھی تو ٹانگیں بھی کانپنے لگتیں۔ ہوتے ہوتے یہ خوف جاتا رہا۔ میں اچھا خاصا ذہین تھا مگر میرے نمبر کبھی بھی امتیازی نہیں ہوئے۔ کلاس میں میرا شمار چوٹی کے چار پانچ لڑکوں میں ہوتا تو امتحان میں درمیانے طلباء میں۔ میں اس راز کو کبھی نہیں پا سکا، لکھائی بھی میری اگرچہ خوش خطی نہیں کہلا سکتی، تاہم آسانی سے پڑھی جانے والی ضرور تھی۔

میں نے پانچویں کا امتحان پاس کیا تو ہائی سکول میں داخلے کا مرحلہ آیا۔ ان دنوں داخلے ایسے مشکل نہیں ہوتے تھے، جیسے اب ہیں۔ شہر (رینالہ خورد) میں دو ہائی سکول تھے، ایک گورنمنٹ ہائی سکول جسے عوامی زبان میں ’’وڈا سکول‘‘ کہا جاتا تھا، ایک ملت ہائی سکول (پرائیویٹ) تھا جسے ’’چھوٹا سکول‘‘ کہتے تھے۔ فیسیں دونوں کی برابر تھیں، فرق وردیوں اور دیگر مختلف معاملات میں تھا۔ وڈے سکول میں خاکی پتلون اور سفید شرٹ تھی اور چھوٹے سکول میں ملیشیا کی شلوار قمیض۔ ابا جی نے اپنے حالات کے پیشِ نظر مجھے چھوٹے سکول میں داخلہ دلایا۔
چھٹی سے آٹھویں تک لازمی مضامین کے علاوہ دو اختیاری مضامین تھے جن میں سے ایک پڑھنا ہوتا تھا: فارسی یا ڈرائنگ۔ سچی بات ہے کہ میں ڈرائنگ پڑھنا چاہتا تھا مگر اس میں اخراجات بہت تھے۔ بڑا سا ڈرائنگ بورڈ، بڑی سی ایک ٹی، پلاسٹک شیشے کی ڈی اور دیگر چیزیں، خصوصی طور پر بنائی گئی پرکار؛ یہ سارا کچھ تو ایک بار لینا تھا، اس کے بعد رواں خرچہ ڈرائنگ شیٹ، خاص روشنائی، نبیں، پنسلیں سکے اور پتہ نہیں کیا کچھ۔ یہ خرچہ اٹھانا ابا کے بس میں تھا ہی نہیں، سو میں نے اپنی خواہش کو دبا دیا اور فارسی اختیار کر لی۔ اردو اور فارسی دونوں کے استاد   ماسٹر کرم بخش جوش صاحب تھے جو کسی سرکاری سکول سے ریٹائر ہو کر ملت ہائی سکول میں ملازم ہو گئے۔ اردو ان کی مادری زبان تھی۔ ان کا پڑھانے کا طریقہ بہت دل نشین تھا، انہیں مشکل نکات کو آسان بنا کر پیش کرنے کا فن آتا تھا۔ میری فارسی سے دل چسپی کے پیچھے ماسٹر جوش صاحب کی محنت اور پیشہ ورانہ مہارت کار فرما ہے۔ اردو کے تلفظ ہجوں اعراب قواعد جو پرائمری کی سطح پر ماسٹر فتح محمد صاحب کی شفقت سے لبریز محنت نے ازبر کرائے تھے، جوش صاحب کی محنتوں، مہارت اور لگن نے ان کو مزید نکھار بخشا۔ میرا ہر لفظ ان دونوں علمی بزرگوں کے لئے اظہارِ سپاس کا مقروض ہے۔

ہائی سکول کے پانچ سالوں کے دوران ایک ہی اہم واقعہ پیش آیا جو میری زندگی کی راہ ہی بدل گیا اور نئی راہوں پر ڈال گیا؛ یعنی ابا کی رحلت، جس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں۔ میٹرک کا امتحان دے چکنے سے پہلی باضابطہ سرکاری ملازمت تک کے واقعات بھی بیان ہو چکے۔

اماں کو غیر معمولی محنت اور غموں نے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میرے برسرِ روزگار ہونے سے ان کے بہت سارے تفکرات ختم ہو گئے تاہم وہ میری اکیلے کی والدہ  تو نہیں تھیں، میرے پانچ بہن بھائی اور تھے، میرے ایک ماموں تھے (محمد ابراہیم) جو اماں سے چھوٹے تھے۔ ان کے حالات پر بھی اماں کا دل جلا کرتا، ہزار روگ تھے جو اُن کی جان کو جانے کب سے کھا رہے تھے۔ بہ این ہمہ انہوں نے زندگی کو جس صبر و تحمل اور وقار سے گزارا یہ شاید ان ہی کا حصہ تھا۔ میری شادی ہو گئی، ملازمت مل گئی، میں دو بیٹیوں کا باپ بن گیا اور اماں کی دعائیں ساتھ ساتھ پھیلتی گئیں۔ آخر ایک دن معمولی سا بخار بہانہ بنا جو دھڑکتی ہوئی دعاؤں کے اس سرچشمے کو بخارات میں بدل گیا۔ یہاں آ کر لفظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔

میں تو نوکری پر ہوتا تھا، بیوی کو گاؤں میں اماں کے پاس چھوڑا تھا کہ انہیں ہمہ وقت توجہ کی ضرورت تھی۔ ادھر بیوی کو بھی اطمینان تھا کہ بزرگوں کے دامانِ شفقت میں ہے۔ اماں فوت ہو گئیں تو وہ خود کو اور بچیوں کو غیرمحفوظ محسوس کرنے لگی۔ ساہی وال میں مناسب کرائے کا مکان تلاش کر کے میں نے گھر کا بھاری سامان ماماجی کے ہاں رکھوایا اور بیوی بچوں کو ساہی وال لے گیا۔ اس کے بعد مجھے بھی اکیلا رہنے کی عادت نہیں رہی اور بیوی اور بچوں کو بھی۔ پھر رزق کی تلاش جہاں مجھے لے جاتی ہفتے دس دن بعد گھر والوں کو بھی لے جاتا۔ ساہی وال میں رہتے ہوئے مجھے تین چار بار کرائے کے گھر بدلنے پڑے، پھر ہم لوگ ٹیکسلا چلے آئے جہاں میرے درجے کے مطابق مجھے سرکاری گھر مل گیا۔
۹ جون ۲۰۱۴ء

بے روزگاری کے دنوں میں بھی میرا اور کتاب کا ساتھ نہیں چھوٹا تھا۔ مزدوریاں اور دیہاڑیاں کرتے میں ساتھ ساتھ پڑھنا بھی جاری رہا۔ ایف اے کی تیاری کی اور میٹرک کے پانچ سال بعد 1973 میں ایف اے پاس کر لیا۔ انہی کڑے دنوں میں کبھی ٹائپنگ بھی سیکھی تھی اور انگریزی کے علاوہ اردو شارٹ ہینڈ بھی۔ ان کوششوں کا ثمرہ مجھے بعد میں ملا اور بحمد للہ بہت اچھا ملا۔ پہلے مرحلے میں نہانے کو کالے صابن کی جگہ لائف بوائے نے لی تو اس مرحلے میں لائف بوائے کی جگہ کیپری نے لے لی۔ کھانے پینے میں بھی کچھ کچھ نخرے آنے لگے، یہاں تک کہ ’’لال کُکڑ‘‘ کو بھول بھال گیا۔ کپڑے بھی روز استری ہونے لگے۔
پرانی بات یاد آ گئی۔ اب تو دیہات میں بھی ویسا نہیں رہا، تب یہ ہوتا تھا کہ جن لوگوں نے بھینسیں رکھی ہوتی تھیں ان کے گھروں میں دودھ جمایا جاتا، بلویا جاتا، مکھن نکالا جاتا اور گھڑوں کے حساب سے لسی بنتی۔ ضرورت مند گھروں کی عورتیں بھی ان لوگوں سے لسی لے جاتیں۔ آزمائش کے برسوں میں کتنی ہی بار یہ نوبت آئی کہ آٹا تو ہے، سالن وغیرہ کچھ نہیں۔ کُونڈی میں سرخ مرچ کوٹ لیتے اور کسی چاچے ماسی کے گھر سے لائی گئی لسی میں تھوڑی سی مرچ اور نمک ملا کر روٹی کھا لیتے اور اللہ کا شکر بجا لاتے۔ کوئی پوچھ لیتا کہ بہن بیٹی آج کیا پکا ہے تو کہتے ’’لال کُکڑ‘‘ (سرخ مرغا) پکا ہے۔ لال ککڑ کو آپ ریڈی میڈ سالن بھی کہہ سکتے ہیں۔ اُس دَور کے غریبوں کے دسترخوان پر ہوتی تو ایک ہی ڈش ہوا کرتی۔ کچھ ڈشوں کے بارے میں بتاتا چلوں۔
گھونگنیاں: گندم یا مکئی کے دانے اچھی طرح دھو کر ان کو پانی میں اتنا ابالتے کہ کھانے کے قابل ہو جاتے۔ ان کو پانی سے نکال کر کچھ دیر کسی سوراخ دار برتن میں رکھتے کہ پانی نچڑ جائے۔ اس پر حسبِ توفیق شکر یا نمک ڈال کر کھا لیتے۔
مسی روٹی: پیاز، مرچیں، سبز دھنیا، پودینہ، جو میسر ہوتا باریک کتر کر اور نمک حسبِ ذائقہ آٹے میں گوندھ لیتے، تندور پر روٹی پکا لیتے، لسی کے ساتھ کھاتے۔
چھلیاں اور دانے: مکئی کے بھٹے اگر نرم ہوتے تو ان کو دہکتے کوئلوں پر بھون لیتے۔ اگر پکے ہوئے دانوں والے ہوتے تو پانی میں اچھی طرح ابال لیتے اور نمک لگا کر کھاتے۔ چنے، مکئی، گندم، جوار، باجرہ یا جو انداج میسر ہوتا اس کے دانے ریت میں بھون لیتے اور گڑ کے ساتھ کھاتے۔ یا انہی بھنے ہوئے دانوں کو گڑ کے گاڑھے شیرے میں تھوڑا سا پکاتے کہ گڑ ان کے ساتھ اچھی طرح جڑ جائے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی پِنیاں بنا کر سُکھاکر رکھ لیتے، یہ سفر کے دوران بہت مزے کا کھانا ہوتا۔
سالن: پتلے شوربے والی مسور، مونگ، ماش، یا چنے کی دال، آلو؛ عید وغیرہ کے موقع پر اس کو رسیلا بنانے کے لئے پاؤ بھر گوشت کی باریک بوٹیاں بھی پکا لیتے۔ سبزیاں سوائے بھنڈی اور کریلے کے سب شوربے والی پکاتے۔ مہمان آ جاتے تو اس میں اور پانی ڈال لیتے اور ساتھ پیاز کاٹ لیتے۔ پاؤ بھر پیاز میں حسبِ ذائقہ سرخ مرچ اور نمک ملا کر تڑکا لگا لیتے اور اس میں مرغی کے دو انڈے ڈال کر مزید پکا لیتے، جو گھر بھر کو کافی ہوتا۔
ریڈی میڈ سالن: سالم پیاز کو ہاتھوں میں لے کر زور سے دباتے تو وہ پھِنس جاتا۔ اس کو کھول کر سوکھے چھلکے اتار دیتے،  سرخ یا سبز مرچ میں سبز دھنیا، پودینہ، لہسن یا ادرک (جو میسر ہو) اور نمک ملا کر کوٹ لیتے۔ اچار یا گڑ موجود تو سالن تیار۔
بچوں کے لئے مزے دار چیزیاں: گندم، چنے، مکئی کے بھنے ہوتے دانے ملا کر باریک کوٹ لیتے، اور شکر ملا کر بچوں کو دیتے جو پانی یا لسی کے گھونٹ گھونٹ کے طور پر کھاتے۔ موٹے چاول چھان اور دھو کر نمک اور میٹھا سوڈا ملے پانی میں پہر بھر بھگو دیتے۔ پھر پانی اتار دیتے اور چاولوں کو کسی کڑاھی وغیرہ میں بھون لیتے، یہ کئی دن تک خراب نہیں ہوتے تھے۔
مشروبات: موسم کے مطابق سادہ گھڑے کا پانی، شکر یا گڑ کا شربت، ستو، لسی، کبھی مل جائے تو دودھ میں شکر اور بہت سا پانی ملا کر مہمانوں کی تواضع کرتے۔ موسمِ گرما میں لسی پتلی کر کے اس میں شکر ملا کر پیتے۔ کچی لسی بھی بناتے۔
مہمانوں کے لئے اور تہواروں پر سوجی کا گڑ والا حلوہ، میٹھے چاول، میٹھی تندوری روٹی، آلو گوشت یا دال گوشت وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا۔ ۔۔۔ اور بھی ایسی کئی چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ فطری لذتیں آج کل کہاں!!!

شناختی کارڈ کے محکمے میں ایک سال پانچویں سکیل میں کلرک رہا، پھر وہیں آٹھویں سکیل میں سٹینو بن گیا۔ تقریباََ دو سال بعد یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ ٹیکسلا میں جس کا کیمپ آفس ساہی وال میں تھا، دسویں سکیل میں جونئر سٹینوگرافر ملازمت اختیار کر لی۔ یہ اپریل 1977 کی بات ہے۔ تب ٹیکسلا میں کالج کی تعمیر ہو رہی تھی۔ فروری 1978 میں جب اتنی عمارات، ہاسٹل اور رہائشی مکانات تعمیر ہو گئے کہ کام چلایا جا سکتا تھا، ہم لوگ پورا لاؤ لشکر یہاں (ٹیکسلا) چلے آئے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ مجھے بھی بتا دیا گیا تھا کہ مکان  آپ کو الاٹ کر دیا گیا ہے، ٹیکسلا پہنچ کر چابی  فلاں دفتر سے لے لیجئے گا۔ مجھے مکان نمبر ایف۔وَن ملا تھا۔اسی انجینئرنگ کالج کو اکتوبر 1993 میں خود مختار یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کی حیثیت دے دی گئی اور ڈاکٹر کے ای درانی پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے، اور کالج کے جملہ ملازمین نوزائیدہ یونیورسٹی کے باضابطہ ملازمین قرار پائے۔

یہاں ایک اور شخصیت پروفیسر عبدالوہاب خان کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا۔ خان صاحب انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھے۔ یونیورسٹی کے توسیعی ترقیاتی پروگرام کے مطابق ٹیکسلا (ضلع رالپنڈی) میں ایک ذیلی انجینئرنگ کالج کا منصوبہ منطور ہوا۔ زمین وغیرہ خرید لی گئی اور تعمیراتی کام شروع کر دیا گیا۔ یونیورسٹی میں طلبا کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر فیصلہ کیا گیا کہ جب تک ٹیکسلا میں بنیادی ضرورت تک کا تعمیراتی کام مکمل نہیں ہو جاتا، کالج میں داخلے کر کے پڑھائی شروع کر دی جائے۔ گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ ساہی وال کے پاس کچھ فاضل عمارتیں موجود تھیں، جنہیں 1975 میں کرائے پر حاصل کیا گیا اور پہلے بَیچ 1975 انٹری کا داخلہ وغیرہ ساہی وال کے لئے عمل میں لایا گیا۔ 
خان صاحب کو کالج کا پہلا پرنسپل بنایا گیا اور یونیورسٹی کے کچھ تجربہ کار اساتذہ اور دفتری اہل کاروں کو ساہی وال ٹرانسفر کر دیا گیا۔ محکمہ شناختی کارڈ کی طرح یہ بھی نیا ادارہ تھا، نئے اداروں میں جہاں مسائل زیادہ ہوتے ہیں وہیں ملازمین کے لئے ترقی کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا ایک اچھا تجربہ مجھے ہو چکا تھا۔ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے پروفیسر عبدالوہاب خان کو  معقول اختیارات حاصل تھے۔ 

انٹرویو لینے والی ٹیم چار یا پانچ افسروں پر مشتمل تھی اور بڑی کرسی پر ایک بہت ایک ایسی شخصیت براجمان تھی جسے دیکھ کر ہی میرے جیسا شخص مرعوب ہو جائے۔ انٹر ویو زیادہ تر اسی شخصیت نے چلایا، دیگر صاحبان ضمنی قسم کے سوالات ہی کرتے رہے۔ انٹرویو خاص دل چسپ اور دماغ کی چولیں ہلا دینے والا تھا۔ میرا شارٹ ہینڈ کا ٹیسٹ بھی ہوا، جس کے بعد مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا۔اتفاق سے مجھے وہاں ایک پرانے جاننے والے مل گئے؛ محمد انور وٹو جو آٹھویں سکیل میں سٹینوٹائپسٹ تھے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد مجھے بلایا گیا۔ وہی بارعب شخصیت (خان صاحب) اور ایک اور صاحب موجود تھے، باقی جا چکے تھے۔ خان صاحب نے خوش دلی کے انداز میں بتایا: ہا! جی! کمیٹی نے آپ کی سفارش کر دی ہے۔ کہئے آپ کتنے دنوں میں ڈیوٹی پر آ سکتے ہیں۔ مجھے ظاہر ہے بہت مسرت ہوئی، میں نے بتایا کہ قواعد کے مطابق مجھے نوٹس پیریڈ وغیرہ کے لئے پندرہ دن درکار ہوں گے ، احتیاطاََ بیس پچیس دن کی گنجائش رکھ لیں۔ میں ان کا شکریہ ادا کر کے باہرنکل آیا۔ وہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ خان صاحب کی خوش دلی اس دن اور میرے لئے خاص نہیں تھی، وہ تو ان کے مزاج کا حصہ تھی۔
۹ جون ۲۰۱۴ء 

۔۔۔۔ جاری ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں