اتوار، 28 جون، 2015

تھا وہ اک یعقوب آسی (5)۔


تھا وہ اک یعقوب آسی



رسمی مراحل طے کرنے کے بعد میں نے کالج میں حاضری رپورٹ پیش کر دی۔ اور کام سنبھال لیا، جو میرے لئے نیا نہیں تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ کالج میں خالص سرکاری دفتروں جیسی گھٹی گھٹی نہیں بلکہ کھلی فضا تھی جس میں کام کرنے والے شخص کی صلاحیتوں کو نکھار ملتا ہے۔ ایک دن میں نے انور وٹو سے پوچھا: یار، ایک بات بتاؤ میں باہر سے آ گیا، تم یہاں پہلے سے موجود تھے، تم نے کیوں درخواست نہیں دی۔ وہ ہنس کر کہنے لگا: میں نے کون سا یہاں رہنا ہے! میں تو کوئی مناسب موقع ملا تو کہیں اور نکل جاؤں گا۔ میں اس کی بات کچھ سمجھا، کچھ نہیں سمجھا تاہم کریدنا مناسب خیال نہیں کیا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا میری ذمہ داریاں بڑھتی گئیں۔ میں اپنی تمام ذمہ داریوں میں براہ راست خان صاحب کو جواب دِہ تھا، جن کا رویہ افسرانہ کی بجائے پدرانہ تھا۔ وہ ہر ایک ملازم سے یوں پیش آیا کرتے جیسے بزرگ اپنے بچوں سے۔ کسی کے بھی کام میں کوئی بڑی کوتاہی پاتے تو اسے بلاتے اور سمجھاتے: اجی صاحب، ایک ذرا سے مفاد کے لئے اپنی کمائی کو خراب کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان اس کمائی کا حق ادا کرنے کی کوشش تو کرے۔ جائیے اور اپنے کام پر توجہ دیجئے۔ ’’اجی صاحب!‘‘ ’’ہا، جی‘‘ یہ دو الفاظ وہ اکثر بات کے شروع میں بولا کرتے تھے۔

خان صاحب بلاشبہ ایک بہت عظیم انسان تھے، ایسے لوگ کم کم پائے جاتے ہیں۔ مجھے سات برس تک ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی رہائش کیمپس سے باہر تھی مگر دور نہیں۔ ٹیکسلا شہر ہے ہی کتنا! ایک بڑا قصبہ کہہ لیجئے۔ وہ گھر سے کالج آتے تو پہلے الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ میں جاتے جس کے وہ چیئرمین بھی تھے۔ پھر دفتر آتے میں انہیں دس بج جاتے، یہ معمول تھا۔ پھر وہ دفتر میں جم کر بیٹھتے، اور دیر تک بیٹھتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کالج کا سارا عملہ چھٹی کر کے گھر جا چکا ہے۔ ایک پرنسپل صاحب، ایک ان کا چپڑاسی اور ایک پی اے بیٹھے ہیں۔  پروفیسر عبدالوہاب خان کے معمولات سے کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔

۔1۔ 
صاحب نے بیل دی، نائب قاصد حاضر ہو گیا، کہا: ’’پانی پلائیے صاحب! ٹھنڈا، یخ!‘‘ ۔ وہ پانی لے آیا، اور رکھ کر چلا گیا، ایک پلیٹ گلاس کے نیچے ہے، ایک اوپر ہے۔ صاحب کام میں مصروف ، پندرہ بیس منٹ بعد خیال آیا کہ ہم نے پانی منگوایا تھا۔ گلاس اٹھایا اور پی گئے۔ یہ بھی نہیں کہا کہ یہ تو گرم ہو چکا اور لے آئیے۔ ۔۔ ایسا ہی اکثر چائے کے ساتھ ہوتا۔ کہتے: ’’چائے پلوائیے جی! گرما گرم!‘‘ چائے آ گئی، وہ بھی ویسے ہی کہ ایک پلیٹ میں کپ رکھا ہے ایک سے ڈھکا ہوا ہے۔ کام میں لگے ہیں تو چائے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو گئی، اس پر پپڑی جم گئی، پپڑی کو ہٹایا اور ایک دو گھونٹ میں چائے پی لی۔ نائب قاصد سے نہیں کہا کہ یہ ٹھنڈی ہو گئی اور بنا لائیے۔

۔2۔ 
کالج کے کسی ملازم یا طالب علم کو (دو چار گئے گزرے لوگ مستثنیٰ تھے) کبھی تم یا تو کہہ کر نہیں پکارا۔ ہمیشہ ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ کسی سے کوئی بڑی غلطی ہو گئی، کام میں بہت کوتاہی ہو گئی، بہت ہوا تو کہا: ’’یوں کرتے ہیں؟ جائیے اس کو ٹھیک کر کے لائیے! فوراََ‘‘۔ چھوٹی موٹی غلطی پر گرفت نہیں کرتے تھے۔ 

۔3۔ 
ایک دن کلاس روم سے آئے، ہاتھوں پر، گاؤن پر چاک کی سفیدی نمایاں! ایک جونئر استاد جو میرے پاس ان کے انتظار میں بیٹھے تھے اٹھے اور کچھ ایسا جملہ کہا کہ: سر یہ تو سارا کچھ گرد گرد ہو رہا ہے؛ وغیرہ۔ بولے: ’’اجی، یہ تو استاد کی شان ہے، ہم کلاس میں پڑھانے کو جاتے ہیں اپنا لباس دکھانے کو نہیں‘‘ وہ استاد بے چارے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ خان صاحب کی شخصیت بہت باوقار اور کسی حد تک بارعب تھی۔ کوئی شخص ان کے سامنے یوں ہی منہ نہیں کھولتا تھا، بولتا تو سوچ کر بولتا۔ کوئی غلط بھی بول جاتا تو اسے یا تو نظر انداز کر دیتے یا پھر مسکت جواب سے نواز دیتے اور بس۔

۔4۔
بارے ایک طالب علم ’’لیڈر‘‘ نے گستاخانہ لہجے میں بات کی۔ خان صاحب نے مسکراتے ہوئے، اس طالب علم کے والد کا نام لیا (فرض کیجئے صدیقی صاحب) اور کہا: ’’صدیقی صاحب تو بہت نفیس آدمی ہیں، ہمیں بہت عزت دیتے ہیں!‘‘ ۔ خود اندازہ لگائیے کہ اس کی کیا حالت ہوئی ہو گی۔

۔5۔
دو ملازم یوں ہی گپ شپ میں ایک دوسرے کو گالیاں بھی دے رہے تھے، مذاق بھی کر رہے تھے۔ ان کے پاس سے گزر ہوا، دونوں کو بلا لیا: ’’جھگڑ رہے ہیں۔ کیا؟‘‘ وہ دونوں ایسے کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ’’ن ن ن نہیں سر، وہ ہم م م مذاق ۔۔۔ ‘‘۔خان صاحب نے کسی قدر تلخی سے کہا: ’’مذاق میں گالیاں دیتے ہو، جھگڑ پڑو تو کہاں تک پہنچو گے؟ اور سنو، برائی کے لئے جواز نہیں ڈھونڈا کرتے! چلو شاباش! ختم کرو یہ سب کچھ‘‘۔
۱۱ جون ۲۰۱۴ء

 ان کی دور اندیشی، معاملہ فہمی، خود داری اور تحمل مزاجی ایک درخشاں مثال پیش کرتا ہوں۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک موقع ایسا آیا، کہ طلباء کے ایک گروہ نے کالج کے گراؤنڈ میں اجتماع کیا، کچھ بڑوں کی تصویریں جلائیں، پر جوش تقریریں کیں اور ایک جلوس کی شکل اختیار کر لی۔ میں ڈکٹیشن لے رہا تھا کہ ڈائریکٹر برائے امورِ طلبا خاصے گھبرائے ہوئے دفتر میں داخل ہوئے (وہ دفتر میں بھی پنجابی بولا کرتے تھے)۔ ’’خاں صاب، سر، مُنڈے، جلوس، تصویر، جلوس ۔۔۔ ‘‘ ان سے بات نہیں ہو رہی تھی، مارشل لاء کا دور جو تھا۔ انہیں بیٹھنے کو کہا اور چپڑاسی سے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب کو پانی پلائیے‘‘۔ مجھے مخاطب ہوئے۔ ’’جی لکھئے‘‘ اور وہی خط جو لکھا رہے تھے، جاری رکھا ۔ ڈائریکٹر صاحب ظاہر ہے خاصے بے چین تھے اور شاید یہ بھی سوچ رہے ہوں کہ یہ کیا تماشا ہے، ادھر جلوس نکل رہے ہیں اور پرنسپل صاحب کو خط لکھوانے کی پڑی ہے۔ 
خط مکمل ہوا، ڈائریکٹر صاحب سے کہنے لگے: ’’اجی ڈاکٹر صاحب، کچھ نہیں ہوتا! آپ اِن (طلباء) کے ایک دو گروؤں کو بلائیے اور ان سے کہئے، جلوس نکالیں، ضرور نکالیں، مگر کالج کی باؤنذری وال سے باہر نہ جائیں۔‘‘ ڈائریکٹر صاحب نے کہا کہ وہ بپھرے ہوئے ہیں، کوئی نقصان کر دیں گے۔ تو جواب ملا، ’’جوان خون ہے صاحب، ذرا ابلے گا ٹھنڈا ہو جائے گا۔ انہیں چھیڑئیے گا تو وہ بپھر جائیں گے، جائیے آپ، ان کے لیڈروں کو سمجھا دیجئے، تقریر وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ڈائریکٹر صاحب چلے گئے۔ لڑکوں نے کالج کی روشوں پر کچھ دیر تک نعرے بازی کی، اور ہاسٹل میں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ضلعی انتظامیہ کے کسی افسر کا فون آ گیا۔ بات کی اور ڈائریکٹر صاحب کو بلا لیا اور بتایا کہ: ’’ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا فون تھا، کہ جی آپ کے کالج میں ہنگامہ ہوا ہے۔ پولیس نے اُن کو رپورٹ کیا ہے، تو ہم نے کہہ دیا کہ ’اس پولیس والے سے پوچھا ہوتا کہ کیا ہم نے اُن کو رپورٹ کیا؟ ضرورت ہی نہیں تھی، جوان بچے ہیں اپنے کالج میں اگر کچھ دیر شور مچا لیا تو کیا ہوا! کیا وہ سڑک پر نکلے؟ امنِ عامہ کو کچھ ہوا؟ مجسٹریٹ صاحب اب نہیں پوچھیں گے، اور کوئی پوچھے تو آپ بھی یہی کہئے گا۔ جب پرنسپل خود ذمہ لے رہا ہے تو انہیں ضرورت ہی کیا ہے پکڑ دھکڑ اور شور شرابہ کرنے کی! ‘‘۔

عید قربان کا ایک موقع تھا۔ میں نے اپنا جانور ذبح کیا، بچے چھوٹے تھے، تاہم ان کو ساتھ لگایا، مل ملا کے سارا کام کیا۔ میں اور بیوی مل کر گوشت کی بوٹیاں بنا رہے تھے، دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں اس حالت میں باہر نکلا کہ بنیان اور دھوتی کے علاوہ میرے ہاتھوں اور چہرے پر بھی کہیں خون کے چھینٹے ہیں تو کہیں کوئی بوٹی چھیچڑا چپکا ہوا ہے، کہیں چربی لگی ہے۔ اور باہر ہمارے پرنسپل صاحب اپنی کار میں بیگم اور ایک بچے کے ساتھ موجود ہیں۔

 یا اللہ میرے پاس تو ڈھنگ کی جگہ بھی نہیں ہے ان کو بٹھانے کے لئے اور پھر ایسی حالت میں؟ چلئے دیکھتے ہیں!  مجھے دیکھا تو چہک کر بولے: ’’آہا! پتہ ہے؟ یہ جو دھبے آپ کے چہرے اور لباس پر ہیں، کتنے قیمتی ہیں!‘‘ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر بولے: ’’کہاں تک پہنچ گئے؟‘‘ ’’بوٹیاں بنا رہے ہیں، باقی کام ہو گیا‘‘ ’’کون کون ہیں؟‘‘ ’’میں ہوں، بیوی ہے، بچے ہیں، اور کون ہو گا!‘‘ ’’اوکے! چینج کر کے آئیے، جانا ہے!‘‘ ’’کہاں جانا ہے سر؟‘‘ ’’اجی چینج کر کے آئیے!‘‘ میں اندر گیا، گھر والی کو بتایا، منہ دھو کر تولئے سے رگڑا، قمیض شلوار چڑھائی اور آ گیا۔ ان کی بیگم پسنجر سیٹ پر بیٹھی تھیں، اپنے مخصوص انداز میں بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اشارہ کرتے ہوئے بولے: ’’آپ پیچھے چلی جائیے!‘‘ مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور ہدایات ۔۔ ’’ہم کالونی کا چکر لگائیں گے، آپ بتاتے جائیں گے کس کس کے ہاں قربانی نہیں ہے۔ (اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا) یحییٰ گوشت دے کر آئے گا‘‘۔ کوئی پون گھنٹے میں یہ کام نمٹ گیا۔ مجھے گھر کے سامنے اتارا، اور چلے گئے۔

خان صاحب کی عادت تھی کہ روٹین کی ڈاک روزانہ نکال دیتے، کوئی اہم خطوط جن کا جواب لکھانا وہ وہ الگ رکھتے جاتے۔ ہفتے میں کبھی دو دن اور کبھی تین دن، حسبِ سہولت ایسے سب معاملات میں مجھے ڈکٹیشن دے دیا کرتے۔ اس دن مجھے کہا کرتے: ’’کچھ کھا پی آئیے، آج بیٹھیں گے‘‘ پھر میں چاہے ایک گھنٹے میں واپس آ جاؤں چاہے دو گھنٹے میں، کوئی پروا نہیں۔ پھر جو لکھانے بیٹھتے تو بسا اوقات شام ہو جاتی۔ اور شارٹ ہینڈ نوٹ بک آدھی سے زیادہ بھر جاتی۔ اگلے دو دن مجھے سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی۔
ایک دن دوستوں کے ساتھ پروگرام بنایا کہ آج ایک بجے کی بس سے راولپنڈی جائیں گے، فلاں سینما میں فلاں مووی لگی ہے، ووپہر کا شو دیکھیں گے، چھوٹی موٹی خریداری کریں گے اور پانچ بجے کی بس سے واپس۔ صاحب نے دفتر میں داخل ہوتے ہی وہی جملہ داغ دیا: ’’کچھ کھا پی آئیے، آج بیٹھیں گے‘‘۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن ۔۔ یا ۔۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ۔۔۔ کہاوت ہی گڑبڑ ہو گئی! جھجکتے جھجکتے کہا کہ: ’’سر آج ۔۔‘‘ ’’ اجی کیا ہے آج‘‘ ’’نہیں سر، کچھ نہیں‘‘ ’’طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ ’’جی ٹھیک ہے‘‘ ’’تو پھر کہیں جانا ہے؟ موڈ نہیں ہے کیا؟‘‘ ’’وہ سر، کچھ ایسا ہی ہے‘‘۔ ہنس دیے: ’’ٹھیک ہے! جائیے موج کیجئے! کل سہی!‘‘۔ 

خوبیاں تو گویا خان صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ مشتے از خروارے کےطور پر دو واقعات کا ذکر کر کے آگے چلتے ہیں۔

۔1۔
بارے مجھے اپنے گھر پر طلب کیا کہ ’’شام کو دھوپ نرم ہو جائے تو آ جائیے، کچھ اہم کاغذات ہیں، ہم لانا بھول جاتے ہیں! وہ لے آئیے گا‘‘۔ میں نے اپنے ایک دوست کو جو ملازمت میں بھی میرے ساتھی تھے، لے لیا اور پیدل چلتے خان صاحب کے گھر پر حاضر ہو گیا۔ ہمیں بیٹھک میں بٹھایا گیا۔ خان صاحب کاغذات کا پلندہ لئے آ گئے، باتیں ہونے لگیں۔ اتنے میں چائے آ گئی۔ خادمہ نے ٹرالی بیٹھک میں چھوڑی اور چلی گئی۔ میرے ساتھی اٹھے کہ بڑے صاحب کا گھر ہے، چائے پیالیوں میں ڈالتا ہوں۔ خان صاحب نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا: ’’یہ گھر ہے صاحب! دفتر نہیں ہے، اور وہاں بھی جس کا کام ہے وہی کرتا ہے۔ آپ تشریف رکھئے!‘‘ اٹھے، چائے پیالیوں میں ڈالی، اور ہم دونوں کو بالکل ایسے پیش کی جیسے کسی معزز مہمان کو پیش کی جاتی ہے۔

۔2۔
اکیڈمک سٹاف (سارے اساتذہ) کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ آوازیں اٹھتی ہیں کہ صاحب ہم تو چائے نہیں کوک پئیں گے۔ تب چائے کی پیالی آٹھ آنے کی تھی اور کوک کی بوتل پونے دو روپے کی۔ کہنے لگے: ’”سرکار ایک میٹنگ میں آٹھ آنے فی کس کی اجازت دیتی ہے، اس میں تو چائے ہی آ سکتی ہے‘‘۔ کسی نے پھر کہہ دیا جی ہم تو کوک پئیں گے۔ بولے: ’’ٹھیک ہے! ہم بھی کوک پئیں گے! (اپنی جیب سے سوا روپیہ نکالا، میز پہ رکھ دیا) یہ رہا ہمارا سوا روپیہ، نکالئے اپنا اپنا سوا روپیہ!‘‘ یوں سب شرکاء نے اپنی جیب سے کوک کے پیسے دئے۔ اکثر کہا کرتے کہ سرکار کا پیسہ انتہائی کنجوسی سے خرچنا چاہئے، اور اپناکنجوسی سے نہیں کفایت سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں