ہفتہ، 27 جون، 2015

تھا وہ اِک یعقوب آسیؔ (1)۔

تھا وہ اک یعقوب آسی


ابتدائیہ


گئے وقتوں کی بات ہے، بادشاہوں اور امراء کے سوانح ان کے درباری انشاءپرداز لکھا کرتے تھے ۔ عام آدمی کی سوانح چونکہ ہر ملک اور ہر خطے میں ایک جیسی ہوتی تھی، سو اس کو لکھنے کا تردد ہم جنس کیوں کرتے ۔ مسیحی سینٹ آگسٹائن اور اندلس میں آخری مسلم بادشاہ عبداللہ کے خود نوشت سوانح کو عالم مسیحیت اور اسلام میں بالترتیب آٹو بائیوگرافی کے میدان کی پہلی چیزیں تصور کیا جاتا ہے۔ شعراء اور ادیب حضرات چونکہ لفظوں کے کھلاڑی ہوتے ہیں ، اس لیے اپنی زندگی کے گرم و سرد کو قلمبند کرنے میں انہیں ایک گونہ سہولت ہوتی ہے ، ورنہ عام آدمی تو اس ضمن میں شاید ایک صفحہ لکھنے سے بھی قاصر ہو۔
میں اس دھاگے میں اردو محفل کے سینیر رکن، اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر ، ماہر عروض اور اپنے تجربات سے بہتوں کو سکھانے سمجھانے والے بزرگ جناب محمد یعقوب آسی صاحب کو دعوت دیتا ہوں، کہ محفل کو یہ شرف بخشیں کہ اپنی خود نوشت سوانح حیات یہا ں جستہ جستہ عطا فرمائیں ، تاکہ ادھر ادھر بکھری چیزیں ، باتیں، یادیں ، تذکار اور واقعات ایک جگہ اکٹھے ہو سکیں۔
نوٹ: تبصرہ کرنے کے لیے "تھا وہ اک یعقوب آسی۔۔تبصرہ جات" دھاگہ میسر ہے۔ اس دھاگے میں تبصرہ کرنے سے احتراز فرمائیے ، تاکہ لڑی مسلسل آسی صاحب کے مراسلہ جات پہ مشتمل ہو اور بعد میں اسے ای بک کی شکل دینے میں دشواری نہ ہو۔
فلک شیر ۵ جون ۲۰۱۴


محمد یعقوب آسی
۵ جون ۲۰۱۴

دل وچ بھانبڑ عشق دی لشک مچایا نیں
دھوں دا بدل اکھاں تیکر آیا نیں
یاراں میری قدر پچھانی کچھ بہتی
مینوں میرے قدوں اچا چایا نیں
 شعر کی تاریخ: 16 فروری 1999 ء

۶ جون ۲۰۱۴ء
کچی اینٹوں اور گارے سے بنی چوڑی چوڑی دیواروں والے بغیر پھاٹک کے کھلے کھلے بڑے بڑے احاطے کے اندر چار چار پانچ پانچ گھروں کے کچے کوٹھے اور کچے صحن؛ گرد سے اٹی کھلی کھلی گلیاں اور سڑکیں، دور تک بکھرے درخت اور کھیت؛ اور ان سب کے اوپر لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتے آسمان کی چھت!! فضا پر بالعموم خاموشی کا راج ہوتا۔ یہ خاموشی منہ اندھیرے مرغے کی بانگ اور اللہ اکبر کے سرمدی نغمے سے ٹوٹتی تو کئی مکالموں کا آغاز ہو جاتا؛ بھینسوں، گائیوں اور بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی کھنکھناہٹ اور بیل گاڑیوں کی کھڑکھڑاہٹ تو گلیوں سے نکل کر کھیتوں میں گم ہو جاتی۔ لیکن چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ننھے بچوں کا شور صبح دم زندگی سے آشنائی کا اعلان کر دیتا۔ کچھ ہی دیر بعد سرمئی اور سفید دھوئیں کی لکیریں کچے گھروں کے صحنوں سے اٹھ کر فضا میں لہرئیے بناتیں اور تحلیل ہو جاتیں۔ سورج ذرا اوپر اٹھتا تو کتنی ہی الھڑ مٹیاریں ناشتے کی اشیاء سروں پر رکھے اپنے دوپٹوں کے لہرئیے بناتی اورسراپاؤں سے بجلیاں جگاتی مختلف پگڈنڈیوں سے ہوتی ہوئی کھیتوں میں گم ہو جاتیں۔ بڑے بوڑھوں کا تو پتہ نہیں، لڑکے بالے بجلی کی صرف ایک ہی صورت سے واقف تھے، جو بادلوں میں چمک جایا کرتی اور پھر کبھی کڑکڑاہٹ اور کبھی گڑگڑاہٹ سنائی دے جاتی۔ بارش سے گلی کوچوں کی دھول کیچڑ اور گاد میں بدل جاتی اورفضا شفاف ہو جاتی۔
مگھر پوہ کی ایسی ہی صبح تھی، صاف شفاف، بارش سے دھلی ہوئی! پہر بھر دن گزرنے پر بھی خنکی غالب تھی۔ ساٹھ پینسٹھ برس کا ایک دمکتے چہرے والا بوڑھا کھلے احاطے میں بچھی چارپائی پر نیم دراز تھا۔ سفید ململ کے صافے ڈھکے سر میں اس کے بالوں، ہلکی پھلکی داڑھی اور باریک تراشی ہوئی مونچھوں کی سفیدی بھی شامل ہو رہی تھی۔ پائنتی کی طرف بیٹھا بارہ تیرہ برس کا لڑکا آنکھوں میں صدیوں کے خواب سجائے بوڑھے باپ کے پاؤں داب رہا تھا۔ بوڑھے کا مہینوں کا بیمار جسم یک دم یوں لرز اٹھا جیسے بھونچال آ گیا ہو۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ اس کے منہ سے اوغ کی آواز نکلی اور کوئی سیر بھر لہو قے کی صورت میں کچھ اس کے سفید لباس پر، کچھ چارپائی پر اور کچھ زمین پر بکھر گیا۔ بچہ پریشان ہو کر اندر کو بھاگ گیا۔ ایک نحیف بڑھیااپنے کانپتے وجود کو سنبھالتی ہوئی آئی۔بوڑھے نے ہاتھ سے ’سب ٹھیک ہے‘ کا اشارہ دیا۔ بڑھیا نے لڑکے کے کان میں کچھ کہا اور وہ تیزی سے احاطے سے باہر نکل گیا۔ کچھ ہی دیر میں بڑھیا نے اپنے رفیقِ حیات کا منہ ہاتھ دھلا کر کپڑے تبدیل کرا دئے اوراندر چلی گئی۔ وہ دودھ سے بھرا پیالہ لے کر آئی تو بوڑھا اپنے زردی کھنڈے چہرے پر دنیا جہان کی آسائشیں سجائے آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا۔ ’یہ دودھ پی لے یعقوب کے ابا!‘ ... کوئی جواب نہ پا کر اُس نے بوڑھے کے بازو کو پکڑ کر ہلایا تو جیسے زمین ہل گئی۔ پہلے تو اس کے ہاتھ سے پیالہ گرا اور پھر وہ خود بھی چارپائی کے پاس ڈھے گئی ۔ کوئی ایک پہر دن باقی ہو گا جب بوڑھا منوں مٹی تلے جاچکا تھا، یعقوب کے سارے خوابوں سمیت!
یہ کہانی کی ابتدا ہے، صاحبو! کون جانے؟ یہی ناآسودہ خواب ہوں اور اظہار کو ترس رہے ہوں اور لفظ سے میرے تعلق کا سبب بنے ہوں۔ ایک تھا بادشاہ، اس کے سات بیٹے تھے ... ایک تھا بادشاہ، اس کی سات ملکائیں تھیں، ہر ایک سے ایک ایک لڑکی تھی ... ایسے جملوں سے شروع ہونے والی داستانیں بڑے بوڑھوں میں بہت مقبول تھیں۔ ہر داستان میں کبھی ایک اور کبھی زیادہ اخلاقی درس ہوتے۔ سردیوں کی طویل اورگرمیوں کی مختصر راتوں میں کسی زمیندار کے ڈیرے پر محفل جمتی۔ ایک شخص داستان شروع کرتا: ایک تھا فقیر، وہ بستی سے دور جنگل میں ایک کٹیا میں رہتا تھا ..... اور پھر رات گزر جاتی داستان جاری ہوتی۔ اگلی رات جہاں پر بات رکی تھی، وہاں سے آگے چلتی اور یوں کئی ہفتوں بعد اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔ میں کہانی کی ایسی محفلوں میں بڑے شوق سے بیٹھا کرتا اور ہر کہانی کو اس قدر توجہ سے سنتا جیسے وہ میرا سکول کا سبق رہا ہو۔
والدہ مرحومہ رسمی تعلیم کے لحاظ سے تو اَن پڑھ تھیں تاہم قرآن مجیدکے علاوہ چیدہ چیدہ دینی کتابیں جو عموماً پنجابی شاعری تھی خواتین کی محفلوں میں پڑھا کرتی تھیں۔ میں پہلے پہل تو والدہ کے پاس بیٹھ کر انہیں سنا کرتا اور کرتے کرتے ان کتابوں کو روانی سے پڑھنے لگا۔ لفظ کے ساتھ میرا تعلق شاید اُن داستانوں کی بدولت قائم ہوا اور شعر کا چسکا اُن دینی کتابوں کی برکت سے پڑا۔ مجھے شعر کو درست پڑھناآ گیا تھا۔ سو میرے مہربان استاد نے مجھے سکول کی بزم ادب میں شامل کر لیا۔ پھر تو ہر جمعے کو بزمِ ادب کے اجلاس کی نظامت مجھے کرنا پڑتی اور ہیڈماسٹر صاحب صدرِ بزم ہوتے۔ یہ سلسلہ ہائی سکول سے میری فراغت تک جاری رہا۔ ۱۹۶۷ء میں جب میں دسویں جماعت میں تھا، لفظ اور مصرعے سیدھے کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ مگر غم روزگار غالب آ گیا اور میری تخلیقی صلاحیتیں کم عمری کی ملازمت میں پسنے لگیں۔
خواب سے سانجھ تک: ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ (اردو غزلیات) کے دیباچے سے اقتباس


جون 6, 2014
بات چلی کہاں سے تھی بھلا ۔۔۔ 
کہ آپ نے زندگی میں کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر سچائی کو اپنانے کی جرات کی؟


(۱)
میں نے الحمد للہ چھ بچوں کی شادیاں کیں۔ تین بیٹے، تین بیٹیاں۔ اور جہیز نہ لیا نہ دیا۔
ایک فریق سے (جس کی طرف سے جہیز کے مطالبے کا امکان تھا) میں نے بیٹی کا رشتہ طے کرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’بہن! اگر میری بیٹی کو دل سے اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہیں تو جب جی چاہے دو چار دس مہمان لے کر آ جائیں اور بیٹی کو لے جائیں ۔ اور اگر دیگچیاں اور رضائیاں اور کرسیاں اور صوفے اور فرج اولیت رکھتے ہیں تو کوئی ایسا گھرانہ ابھی دیکھ لیجئے۔‘‘ وہ چیں بہ جبیں تو ہوئیں تاہم انہوں نے اپنا مطالبہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹے کے (اس وقت ہونے والے) سسر نے مجھ سے کہا: ’’میں فرنیچر کا آرڈر دینے والا ہوں، آپ یہ بتائیے کہ فرنیچر براہ راست آپ کے ہاں پہنچا دیا جائے؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں صاحب۔ اپنی دولت یوں ایک بچی کو نہ دے دیجئے جس پر آپ کی چاروں بچیوں اور بیٹے کا حق مقرر ہے‘‘۔ انہی دنوں میرے بیٹے کا فون آ گیا کہ ابو جی مجھے خبر ملی ہے وہ لوگ جہیز وغیرہ تیار کر رہے ہیں، ان کو منع کر دیں‘‘۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ نکاح کے بعد بھی سمدھی صاحب بضد تھے کہ میں تو سامان بنواؤں گا۔ پڑھے لکھے صاحب تھے (اللہ مغفرت فرمائے) سمجھانے پر سمجھ گئے اور اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹی کا رشتہ برادری سے باہر ہوا۔ دو طرفہ رضامندی کا اظہار ہو چکا تھا۔ دعائے خیر کے دن وہ لوگ میرے مہمان ہوئے۔ لڑکے کے بڑے بھائی (ایم اے اسلامیات اور پیشہ تدریس) مجھے کہنے لگے: چاچو جہیز کے بارے میں کچھ؟ میں نے کہا: مجھے یہ فرمائیے کہ شریعت کیا کہتی ہے؟ بولے: شریعت میں تو کوئی جہیز نہیں ہوتا۔ میں نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے، ہم نیا کام کیوں کریں!۔

اہم بات جو یہاں بتانے کی ہے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، بچیاں بچے اولادوں والے ہو گئے۔ ایک نواسی تو انیس برس کی ہو گئیں۔ کسی بھی طرف سے کبھی کسی بھی سطح پر یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ اور نہ اس بنا پر کوئی گھریلو ناجاقی یا طعن و تشنیع ہوئی ہے۔

ایک اور اہم تر بات ۔۔ میرے اسی بیٹے کی سالی کے نکاح کی بات بعد میں چلی۔ لڑکے نے پہلے کہہ دیا کہ جہیز کو اس معاملے سے نکال باہر کیا جائے۔ وہ میاں بیوی بھی ماشا اللہ خوش ہیں۔ انہیں پچھلے دنوں اللہ تعالیٰ نے چاند سا بیٹا عطا کیا ہے۔ اللہ کریم برکات سے نوازے۔ میں اس لڑکے سے ملا تو پوچھا: میاں آپ کو جہیز سے انکار کی کیا سوجھی؟ بولا: وہی سوجھی انکل، جو آپ کو اور بھائی کو سوجھی تھی (’’بھائی‘‘ سے مراد میرا بیٹا تھا)۔

بعد میں اپنے ہی محلے میں ایک لڑکے کی ماں نے جہیز لینے سے انکار کر دیا اور لڑکی والوں کو پہلے بتا دیا کہ جہیز تیار نہ کریں۔

اللہ کریم ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ کچھ ہلنا جلنا تو کرنا پڑتا ہے، باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔

 (۲)
میرے ایک بیٹے کی شادی اپنے ماموں کے گھر میں ہوئی۔ بات پکی ہو گئی اس سے پہلے انہیں بتا دیا تھا کہ رخصتی ایک مہینے کے اندر اندر کرنی ہو گی، اور اس جلدی کی وجوہات بھی تفصیلا زیرِ بحث آئیں۔ بچے کے ماموں (مجھ سے چھوٹے ہیں) کہنے لگے: بھائی جان! میں اتنی جلدی کیسے کر سکتا ہوں، جہیز اور کھانا اور تیاریاں اور ۔۔۔ میں نے ٹوک دیا: یار کیا کہہ رہے ہو؟ یہ جہیز کس بیماری کا نام ہے؟ اور رہا کھانا تو بھائی میرا آپ کا طے ہوتا ہے کہ جو لوگ بارات کے ساتھ ہوں گے ان کا کھانا میرے ذمے، انتظام تم کرو گے، میرے حصے کا خرچ مجھ سے تب لے لو یا ابھی لے لو۔ پھر اپنی گھر والی کے اشارے پر میں نے ’’اپنے‘‘ مہمانوں کے کھانے کا اندازاً خرچ دے دیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ طے شدہ دن پر ہم لوگ گئے، نکاح ہوا اور بیٹی (بہو) کو ساتھ لے کر آ گئے۔

 (۳)
ہمارے پرانے جاننے والے ایک صاحب ہیں یہاں فرنیچر کا کام کرتے ہیں۔ پہلے بیٹے کی شادی پر اُن صاحب کو بلوایا گیا کہ بھائی، کمرہ دیکھ لو، اس میں پلنگ، سائڈ ٹیبلز، الماری وغیرہ کیسے کیسے سیٹ ہو گی، اور پھر بھاؤ تاؤ اور فرنیچر کا آرڈر دے دیا۔ دوسرے بیٹے کی شادی پر بھی اسی طرح ہوا، اور تیسرے کی شادی پر بھی۔ 
میری ملاقات ان سے تیسرے بیٹے کی شادی سے کچھ دن پہلے ہوئی، باقی معاملات لڑکوں نے خود ہی سنبھالے ہوئے تھے۔ جناب وُڈ ورکر مجھے کہنے لگے: بھائی جان یہ آپ کے ہاں دیکھا ہے صرف، کہ بہو کے کمرے میں فرنیچر وغیرہ آپ مہیا کر رہے ہیں، وہ تو لڑکی والوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ ان کو میں نے مطمئن کر دیا۔
کہنے لگے دراصل پریشانی میرے سامنے ہے۔ میری بیٹی کی شادی ہے اور مجھے اس کے لئے جہیز بنانا ہے۔ محنت کش آدمی ہوں مشکل مرحلہ آن پڑا ہے، آگے اس سے چھوٹی دو بیٹیاں ہیں۔ آپ نے تو کمال کر دیا، لڑکی والوں کا بوجھ ہلکا کر دیا۔ اس بار کا تو طے ہو چکا، دعا کیجئے مجھے کوئی آپ لوگوں جیسا سمدھانہ مل جائے۔

 (۳)
بارے ایسا ہوا کہ مجھے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی سوائے قرض لینے کے۔ میری تنخواہ بینک میں جاتی تھی، میں مینیجر صاحب کے پاس چلا گیا کہ مجھے اتنا قرض لینا ہے۔ کہنے لگے آپ بیس تنخواہوں کے برابر قرض لے سکتے ہیں جو آپ کو پچاس مہینوں میں مع سود ادا کرنا ہو گا۔ حساب وغیرہ کیا تو اندازہ ہوا کہ سو کے ایک اسی دینے ہوں گے۔ میری مجبوری تھی، تاہم دل مان نہیں رہا تھا کہ سود پر قرضہ لوں۔ مینجر صاحب نے شاید میری کیفیت بھانپ لی، کہنے لگے: اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے خلاف بات کرنے لگا ہوں۔ آپ یہاں سے کیا کسی بھی بینک سے قرضہ نہ لیجئے۔ ایک بار پھر اپنے دوستوں کو ٹٹول لیجئے کوئی نہ کوئی سبیل نکل ائے گی۔ میں گھر چلا آیا، بیوی کو بتایا کہ بھئی مینجر صاحب یہ کہہ رہے تھے۔ دو چار دن کی بھاگ دوڑ کے بعد ایک ساتھی سے سال بھر کے وعدے پر ادھار مل گیا۔ ادھار بندہ جیسے تیسے چکا ہی دیتا ہے۔ سو چکا دیا۔ اللہ کا کرم ہوا، اس نے بچا لیا۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔

 (۴)
حاصل یہ ہے کہ جو اچھائی کی طرف جانے میں مخلص ہو اللہ کریم اس پر ادھر آسانیاں فراہم کر دیتے ہیں اور جو برائی پر مائل ہو اللہ کریم اس پر ادھر آسانی فراہم کر دیتے ہیں۔ بات صبر کرنے کی بھی ہے۔ میری بیوی اللہ کریم اس کی قبر کو نور سے بھر دے، بہت اچھی تھی، اس نے ہر خشک و تر میں میرا ساتھ نبھانے کا حق ادا کر دیا۔ اور اس مشقت میں چالیس برس تک میرے ساتھ چلتے چلتے تھک کے گر پڑی۔ اس نے اپنا کام پورا کر لیا ہو گا، اس کی چھٹی ہو گئی، اب کچھ کام مجھے نمٹانے ہوں گے، واللہ اعلم۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔

 (۵)
میرے موجودہ حالت الحمد للہ بہت بہتر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہوں۔ پنشن بھی معقول ہے۔ بچے اپنا اپنا کما رہے ہیں اور میرے بھی نخرے برداشت کر رہے ہیں، اللہ کریم ان کو خوشیاں دے۔ ملازمت میں میری سب سے بڑی کمائی عزت و احترام ہے الحمد للہ۔ رزق کا معاملہ ایسا ہے کہ جو لکھ دیا گیا ہے وہ ملے گا، بہر صورت ملے گا اور وہی ملے گا۔ انسان کی جواب دہی کا مغز یہ ہے کہ جس شے کا ملنا مقدر کر دیا گیا تھا، انسان نے اس کے لئے طریقہ کون سا اپنایا؟ غلط یا درست۔ بات اتنی سی ہے، بس!۔ جو مل گیا ہے اس کو سدا رہنا تو نہیں، خرچ ہونا ہے ۔ میرا منصب صرف یہ ہے کہ میں نے اس کو خرچ کیسے کیا؟!!

 (۶)
میرا تعلق اصلاً اس طبقے سے ہے جس میں بچپن کے بعد بڑھایا آتا ہے۔ اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ 
میں اپنے والدین آخری اولاد ہوں، سب سے چھوٹا اور لاڈلا۔ مگر مجھ پر جیسی کڑی گزری شاید میرے سارے بہن بھائیوں پر نہیں گزری ہو گی۔ ابا اپنے ایک قریبی رشتے دار کی سات یا نو ایکڑ زمین بٹائی پر کاشت کرتے تھے۔ جیب چھوٹی مگر دل بڑا پایا تھا۔ ’’گھر چل رہا ہے، بس ٹھیک ہے، بندہ خود کو گرنے کیوں دے!‘‘ ان کی زندگی کا فلسفہ ہی یہ تھا۔ میں نے غریبوں والے ٹاٹ سکول میں پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ اور پھر خستہ چوبی بنچوں والے ایک سکول سے دسویں کا امتحان دیا۔ سکول کے آدھے بچے بنچوں پر بیٹھتے تھے اور آدھے ٹاہلی اور کیکر کی گھنی چھاؤں میں کھلی زمین پر یا پھر سردیوں کی دلربا دھوپ کا مزہ شور زدہ گراؤند میں بیٹھ کر لیتے اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی چلتی رہتی۔ گاؤں سے سکول تک یہی کوئی پانچ کلومیٹر کا فاصلہ ہو گا۔ روزانہ پیدل آنے جانے سے اس کے ایسے عادی ہوئے کہ وہ فاصلہ فاصلہ لگتا ہی نہیں تھا۔ 
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں

 (۷)
میں ساتویں میں تھا کہ ابا کا بلاوا آ گیا۔ اس کا احوال ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ کے دیباچے میں پیش کر چکا ہوں۔ ماں نے لوگوں کا سوت کات کر یا جیسے بھی بن پڑا میرا دسوین جماعت تک کا خرچہ اٹھایا۔ میں خود بھی چھٹی کے دن یا گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں میں کوئی مزدوری مل جاتی تو کر لیتا۔ ایک آدھی کتاب کی قیمت نکل آتی تھی۔ میرے میٹرک کے امتحانات ہو گئے تو ماں نے کہہ دیا: ’’بیٹا بس! میں تھک گئی ہوں، اب تیری باری ہے۔‘‘ تب میری عمر ساڑھے پندرہ سال تھی۔
میرے بڑے بھائی ابا کی زندگی میں ہی سکول چھوڑ چھاڑ کر فوج میں سپاہی بھرتی ہو گئے تھے۔ میرے رشتے کے بھائی جلو موڑ (لاہور) ہوتے تھے، محکمہ نہر میں بہت چھوٹے درجے کے ملازم تھے۔ انہوں نے اپنے کسی افسر کو کہہ کہلوا کر مجھے وہاں ایک ’’ورک چارج‘‘ یعنی دیہاڑی دارا پروگرام میں نوکری دلا دی۔

۔۔۔ جاری ہے 



10 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ ۔۔۔۔
    جو لکھا گیا ، وہ تو لکھا گیا۔۔
    باقی اب یہیں سلسلہ چلائیے آگے :)

    جواب دیںحذف کریں
  2. ذاتی بلاگ کی تحریر ایک انفرادی شناخت بھی دیتی اور سنجیدہ قارئین بھی - وہ خاموش قاری بھی ہوسکتا ہے جو بلاگ پڑھے لیکن تبصرہ نہ کرے لیکن بات اس تک پہنچ جاتی ہے - یہ تحریر تعارف ہے یا خودنوشت اسے جس میں بھی شمار کیا جائے میری نظرمیں تو یہ صرف چراغوں کا سلسلہ ہے آپ کی زندگی محنت اورحق سے عبارت ہے اس کی ایک جھلک جس سے بہت سی ہمت اور سیکھنے کو ملا-

    جواب دیںحذف کریں
  3. آپ کا مشورہ حسبِ معمول صائب ہے، چیمہ صاحب۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت لاجواب لکھا ہے ۔۔منظر کشی خوب کی ہے جیسے میں وہاں خود موجوس تھی ۔۔۔ درد کا احساس لفظوں کو اوڑھ کر پہنایا گیا ہے ۔۔۔ تیرگی میں بھی روشنی ہے ، اجالہ ہے ۔۔۔ میرے لیے یہ تحریر ایک تمثیل اور رہنما ہے ۔۔۔ انشااللہ اور بھی بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا۔۔ابھی تو ابتدا کی میں نے

    حرف حرف خوشبو ۔۔درد کی چادر سلیقے سے اوڑھا کر ، اخلاق کا پیرہن ، انسانیت کا جامہ ۔۔۔کیا کہوں اور کہا نہ کہوں
    لفظ کھو نہ جائیں کہیں

    جواب دیںحذف کریں
  5. جی چیمہ صاحب۔ آج کل یہی کر رہا ہوں۔ تاہم محفل پر لنک مہیا کر دیا کرتا ہوں۔ آداب

    جواب دیںحذف کریں