ہفتہ، 11 نومبر، 2017

حرف آویزی




حرف آویزی


فنِ شعر کی بہت اہم اور مشہور اصطلاح ہے "عیبِ تنافر"؛ اور محل اس کا وہ ہے جہاں تنافر میں کوئی عیب رہ جائے۔ شعر کے اندر الفاظ کچھ ایسے وارد ہوں کہ ان کو ادا کرنے میں کسی نہ کسی درجے کی ثقالت محسوس ہو۔ ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں  (مثال کے طور پر):

۔1۔ ایک لفظ کسی حرف ساکن غیر مجزوم پر ختم ہو اور اگلا لفظ اسی حرف سے شروع ہو رہا ہو۔ (عروض کی زبان میں:  پہلا حرف ہجائے کوتاہ ساکن اور دوسرا ہجائے کوتاہ متحرک): یاد دلانا، چالاک کہیں کا، کام مرا، دُور رہو، غیر روایتی، سبز زمیں، خواب درد دیتے ہیں، راس سبھی کو؛ وغیرہ۔

۔2۔ اسی قبیل میں ہم مخرج حروف بھی آتے ہیں؛ وہ  جن کی صوتیت میں ہم عربی فارسی جیسا امتیاز عام طور پر نہیں کرتے: (ت، ط، تھ)، (ث، س، ص)، (ح، ہ)، (ذ، ز، ض، ظ)، (غ، گ، گھ)، (خ، ق، ک، کھ)، (پھ، ف)، (ج، جھ)، (د، دھ، ڈ، ڈھ)۔ مثالیں: سات طریقے، ٹھوس ثبوت، خاص سوال، مکروہ حقیقت، ناجائز ذرائع، ایاغ گری، بے باک قلم؛ وغیرہ۔

۔3۔ ایک لفظ کسی حرف ساکن غیر مجزوم پر ختم ہو اور اگلا لفظ اس کے ہم مخرج متحرک حرف سے جو کسی ہجائے بلند کا حصہ ہو۔ (عروض کی زبان میں: پہلا حرف ہجائے کوتاہ ساکن اور دوسرا حرف ہجائے بلند کا اول حرف): مثلاً: غریب باپ، نیک کام، خاص سامان، ہزار رُخ، ہنوز زِندہ، دروغ گوئی، محتاط طَرز، عجیب بات، رات تک؛ وغیرہ۔

۔4۔ مذکورہ بالا ایسے حروف کا جمع ہونا جن کے مخارج قریب قریب واقع ہوئے ہوں۔ مثلاً: خیاط زادہ، بسیط ظرف، بعید زمانے؛ وغیرہ۔

۔5۔ یاد رہے کہ ایسی جفت میں پہلا حرف کسی وجہ سے متحرک ہو جائے تو ثقالت جاتی رہتی ہے: راہِ حق، عروج و زوال، حقِ قیام، فیوضِ ظاہر و باطن، کلامِ منظوم، ابرِ رواں، ساز و سامان؛ وغیرہ۔

۔6۔ پہلے لفظ کا آخری حرف سببِ خفیف (ہجائے بلند) کا حصہ ہو، تو وہاں تشدید جیسی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً: سب باتیں، سینے کے بل لیٹا ہوا وغیرہ؛ ایسی صورت کو "خلط" کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ تشدید حقیقی کسی ایک لفظ کے اندر ہوتی ہے اور اس سے گریز ممکن ہی نہیں؛ لہٰذا وہ یہاں زیرِ بحث نہیں ہے۔

تصریح:۔
 اردو عروض میں ہجاء اکیلا حرف ہے، متحرک ہو یا ساکن (غیر مجزوم)۔ ہجائے بلند میں دو حرف ہوتے ہیں؛ پہلا متحرک اور دوسرا ساکن (مجزوم)۔ ہجائے بلند اور سببِ خفیف ایک ہی چیز ہے۔ اس کے مقابل سببِ ثقیل ہے یعنی دو ہجائے کوتاہ جو باہم مل کر ہجائے بلند (سببِ خفیف) نہیں بناتے، الگ الگ رہتے ہیں۔ مثالیں:
نزد: نز (ہجائے بلند)، د (ہجائے کوتاہ ساکن)۔ دُور: دُو (ہجائے بلند)، ر (ہجائے کوتاہ ساکن۔ ۔ ترکیب نزد و دور: د(واوِ عطفی کی وجہ سے) متحرک ہو گیا۔ بقیہ وہی کچھ ہے۔۔ وِصال: و (ہجائے کوتاہ متحرک)، صا (ہجائے بلند)، ل (ہجائے کوتاہ ساکن)۔۔ ترکیب وصالِ یار: ل (زیرِ اضافت کی وجہ سے) متحرک ہو گیا، بقیہ وہی کچھ ہے۔۔ ترکیب جبینِ نیاز : جبین کا نون اضافت کی وجہ سے متحرک ہوا، نیاز کا نون اصلاً متحرک ہے، ان دونوں کا مجموعہ (نِ نَ) سببِ ثقیل ہوا۔
  

لفظ "تنافر" کے معانی میں دُور ہونا، دُور دُور ہو جانا، ایک دوسرے سے الگ ہو جانا؛ بھی شامل ہے۔ اصطلاح کے طور پر "تنافر" ایک خوبی ہے یعنی مذکورہ بالا صورتوں میں حروف کے مخارج باہم اتنے دور ہوں کہ خلط یا ثقالت پیدا نہ کریں۔ اسے حسنِ تنافر جیسا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ عیبِ تنافر وہ صورت ہوئی جہاں تنافر میں عیب رہ جائے، اس کی تکمیل نہ ہو رہی ہو؛ وہ ساری صورتیں اوپر بیان ہو چکیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے "تنافر" کے مادے (ن، ف، ر) اور اس کے مشتقات کا طائرانہ جائزہ لے لیا جائے۔


ن ف ر (نَفَرَ یَنفِرُ ) نفرت کرنا۔ دور ہونا۔ بھاگنا۔اَنفَرَ (اِنفار) بھگانا۔ نافَرَ:حسب و نسب میں فرق کرنا۔ منافرت: باہمی نفرت۔  تَنفَر: کُوچ کرنا، دور چلے جانا۔ تَنافَرَ  (تنافر) ایک دوسرے کے مقابل فخر کرنا، فرق رکھنا  (آگے لمبی تفصیل ہے)۔ اس مادے کے مشتقات (نفور، نفرت، منتفر، منافرت ، تنافر) سب میں الگ ہونا مشترک ہے۔ یک جا ہونے کے معانی نہیں ہیں۔  لفظ "تنافر" باب تفاعل میں آتا ہے۔ اس میں کم از کم دو فریق ہوتے ہیں۔ باب تفاعل میں کچھ دوسرے الفاظ کو بھی دیکھ لیا جائے: تعاون (ع و ن) ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ تقابل  (ق ب ل) ایک دوسرے کے سامنے آنا۔ تواضع  (وضع) ایک دوسرے کے لئے سینہ، دل کو کھولنا۔  تناسل (ن س ل): ایک دوسرے سے نسل بڑھانا۔ تشابہ (ش ب ہ) ایک کا دوسرے جیسا لگنا ۔ توازن (و ز ن) اہمیت میں ایک دوسرے جیسا ہونا۔ و علیٰ ھٰذا القیاس۔


اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ نفرت، منافرت، نفور، تنافر کے معروف لفظی معانی میں نفرت مشترک ہے اور عام انسانی ذہن اسی طرف پہلے جاتا ہے۔ ایسے میں ہم بات چاہے اصطلاح کی کریں کہ تنافر ایک خوبی ہے تو ذہن اس کو بہ سہولت قبول نہیں کرتا۔ ایسے میں  تاویلات اور تشریحات کا ایک الجھا دینے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔

حسنِ تنافر، عیبِ تنافر اور ان کی تاویلات و  تشریحات میں الجھے رہنے  سے کہیں اچھا ہے کہ آپ اس اصطلاح کو بدل لیجئے۔ جہاں عیب تنافر  نہیں ہے وہاں نہیں ہے، جرح کی ضرورت ہی نہیں! جہاں ہے وہاں اسے کوئی اور نام دے لیجئے؛ مثلاً: لعوق، عالقہ، خلط، گرہ، آویخت وغیرہ۔ اسے یاد رکھنا بھی سہل ہو گا، اور بیان کرنا بھی۔ مجھے ذاتی طور پر "حرف آویزی" اچھا لگا، "خلط" بھی مناسب ہے۔ جو بھی اختیار کیجئے اس میں سہولت پیدا کیجئے، اپنے لئے بھی، دوسروں کے لئے بھی۔ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ "حرف آویزی" ہی کیوں۔ آویزد مضارع ہے آویختن مصدر سے، اس کے معانی میں لٹکنا، لٹکانا، الجھنا، رکاوٹ ڈالنا وغیرہ شامل ہیں۔ کوئی لٹکی ہوئی چیز حسن کا سبب بھی ہو سکتی ہے؛ مثلاً: آویزے (کان کا زیور)، آویزاں کرنا (جھالر وغیرہ کی صورت دے کر سجانا، دکان میں چیزوں کو نمایاں کرنے کے لئے کسی خاص ترتیب میں ٹانگنا)۔ آویزش یا آویخت کے معانی  ہیں: چپقلش، کش مکش، چشمک، کھینچا تانی، عدم موافقت؛ وغیرہ۔

مجوزہ اصطلاح (حرف آویزی) کی طرف آتے ہیں: جہاں حروف کی بنیاد پر اصوات ایک دوسرے سے الجھ جائیں، وہ آویخت کی صورت ہے۔ اسمِ حاصل مصدر آویزی سے ترکیب حرف آویزی  بنی۔ اس کو "خلط" کہنے میں بھی کوئی قباحت نہیں تھی تاہم واحد لفظ  خلط یا آویزش یا آویخت سے بات صاف نہ ہوتی، آویزشِ حرف نسبتاً مشکل ترکیب ہوتی۔ سہولت کی خاطر ہم نے "حرف آویزی"  کو اصطلاح تجویز کیا ہے؛ معارف و معانی وہی ہیں جو "عیبِ تنافر" کی مد میں بیان ہو چکے۔ یہاں کوئی چیز مسلط نہیں کی جا رہی، سہولت کی طرف ایک راہ سجھائی جا رہی ہے۔
ع: "گر قبول افتد زہے عز و شرف"۔ 


محمد یعقوب آسیؔ  (ٹیکسلا) پاکستان ۔۔۔  11 نومبر 2017ء


۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 تبصرہ:

  1. اگر مجھ سے کوئی مشورہ مانگتا تو میں یہ کہتا کہ اِس فنّی سقم کا نام "عیبِ عدم تنافر" رکھنا چاہیے تھا.

    جواب دیںحذف کریں