جمعرات، 2 نومبر، 2017

احمد فاروق کے تین شعروں کا مطالعہ




احمد فاروق کے تین شعروں کا مطالعہ



زُلفِ دُنیا تار ، تارِ عنکبُوت
اور اس کا پیار ، تارِ عنکبُوت
کیا کریں سیرِ بہارِ گُل رُخاں
سبزۂ رُخسار ، تارِ عنکبُوت
جانے کیا تعبیر دیکھیں ، دیکھئے
خواب ہے اِس بار ، تارِ عنکبُوت

صاحبِ کلام نے یہ اشعار ایک انٹرنیٹ ادبی فورم پر تنقید کے لئے "غزل "کے طور پر پیش کئے تو پہلا سوال کسی نے کیا کہ: آیا تین شعروں کو غزل قرار دیا جا سکتا ہے؟ سوال کا مقصود یہ تھا کہ روایتی طور پر غزل کل پانچ شعروں سے کم کی نہیں ہونی چاہئے: ایک مطلع، تین شعر اور ایک مقطع؛ اور یہ بھی کہ مطلع اور مقطع کو شعروں میں نہیں گنا جاتا۔ اِس طرح تو یہ "ایک شعر کی غزل" ہوئی، چہ عجب؟ مطلع اور مقطع شعر نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟ وہیں کہیں جواب آیا کہ غالبؔ نے اپنے دیوان میں تین شعروں کی غزلیں شامل کی ہیں۔ محولہ شعروں کو دیوان میں تلاش کیا تو پایا کہ غالبؔ نے ان کو غزل کا نام نہیں دیا، "اشعار" کہا ہے۔ ہم نے اسی کے تتبع میں عنوان دیا ہے "احمد فاروق کے تین شعر"۔ ۔ اہلِ مطالعہ بتائیں گے کہ زیرِ نظر تین شعر "غزل" کہلا سکتے ہیں یا نہیں۔ منشاء و مقصود،  اِن شعروں کا اپنی استطاعت کی حد تک مطالعہ اور اس میں احباب کو شریک کرنا ہے ۔

ہم کوئی بھی شعر، قطعہ، غزل وغیرہ پڑھتے ہیں اولین اور غیر ارادی نظر اس کی ہیئت پر جاتی ہے: ردائف و قوافی، اوزان و بحور؛ وغیرہ، تاہم اگر یہ درست ہے تو اس کا لفظاً ذکر کرنا ضروری  نہیں ہوتا۔ ماسوائے جہاں کسی حوالے سے فروگزاشت ہو یا کوئی سوال پیدا ہوتا ہو۔ احمد فاروق کے اِن اشعار میں ایسا کوئی سوال نہیں پایا جاتا۔ آموختہ دہرا لیا جائے کہ ردیف شعر کا جزوِ لازم نہیں ہے، مگر جہاں شاعر ایک ردیف کو اختیار کرتا ہے اسے نبھائے گا بھی۔ کسی فورم پر ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ردیف مہمل بھی ہو سکتی ہے، چہ عجب! ایسا بہت کچھ سننے پڑھنے میں آتا رہتا ہے، شعروں کی طرف آتے ہیں۔

زُلفِ دُنیا تار ، تارِ عنکبُوت
اور اس کا پیار ، تارِ عنکبُوت
مکڑی کا جال شعر میں متعدد تصورات کا نمائندہ ہے: مہین، کمزور، لپٹ جانے والا، دھوکا، وغیرہ۔ زُلفِ دُنیا تار: اس میں گرہ گیری بھی شامل ہے ، تار کے معانی میں مہین ہونا بھی ہو سکتا ہے اور تاریک (سیاہ) ہونا بھی شامل ہے۔ اس سہ لفظی ترکیب میں دُنیا کا حسین لگنا، مہین ہونا، لپٹ جانا اور دھوکا؛ چاروں مفاہیم یک جا ہو گئے، اور مکڑی کے جالے سے ہم آہنگ بھی۔ دنیا کا پیار بھی ظاہر ہے ویسا ہی ہوا۔ معنوی سطح پر اس کو ایک مضبوط، مربوط اور مبسوط اکائی کہا جا سکتا  ہے۔ اور اس کا پیار: ہمیں لکھا ہوا ملا "اس" کے الف پر کوئی اعراب نہیں۔ یہ زیر بھی ہو سکتا ہے اور پیش بھی۔ اُس کا اشارہ کسی محبوب کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ زُلفِ سیاہ اور زُلفِ گرہ گیر دونوں حُسن کی علامتیں ہیں۔ سو، یہ محبوب دُنیا ہے؟ بات جمالیاتی سطح پر بھی سمجھ میں آنے والی ہے۔ شعر کے مفاہیم روایت سے جُڑے ہوئے ہیں، اسلوب میں تازہ کاری ہے۔

کیا کریں سیرِ بہارِ گُل رُخاں
سبزۂ رُخسار ، تارِ عنکبُوت
گل رخوں کی بہار کی سیر: خاصی بھاری ترکیب ہے تاہم معانی اور علامت کی سطح پر معروف اور مانوس ہے۔ فارسی کی شعری روایت کے مطابق (جو اردو میں بھی اجنبی نہیں) سبزہ جب چہرے کے حوالے سے مذکور ہو تو "سانولا پن" کے معانی بھی دیتا ہے اور مسیں بھیگنے کے بھی۔ اس  فریب پر غنی کشمیری کا شعر یاد آیا:۔
حسنِ سبزی بہ خطِ سبز مرا کرد اسیر
دام ہم رنگِ زمین بود گرفتار شدم
اسی مضمون میں میر تقی میرؔ کا شعر ہے:۔
جُز خط کے خیال اس کے، کچھ کام نہیں ہم کو
سبزی پیے ہم اکثر رہتے ہیں مگن بیٹھے
یہاں میرؔ نے بڑی چابک دستی سے بھنگ کے نشے کا ذکر بھی کر دیا ہے۔ حسن کے نادیدہ جال کے تناظر میں ہمارے دوست کا یہ شعر ایک مکمل رومانی فضا کا حامل شعر ہے۔

جانے کیا تعبیر دیکھیں ، دیکھئے
خواب ہے اِس بار ، تارِ عنکبُوت
شعر کا سیدھا سادا مفہوم تو یہ ہے کہ میں نے خواب میں مکڑی کا جالا دیکھا ہے کیا جانے اس کی تعبیر کیا ہو۔ مضمون یہ بھی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ اسلوب میں یہاں "دیکھنا" تین بار آیا ہے؛ دو بار لفظاً اور ایک بار بغیر لفظ کے: خواب دیکھا ہے، دیکھئے، اس کی تعبیر میں کیا دیکھتے ہیں۔  بہت عمدہ جدت طرازی ہے۔  میں اکثر کہا کرتا ہوں: جدت کی خوبی ہے کہ وہ روایت سے جنم کے اور روایت کے ساتھ اس طرح مربوط رہے جیسے شاخ درخت سے مربوط رہتی ہے؛ یہ رابطہ گیا تو جانئے شاخ کی موت واقع ہو گئی، روایت کو کچھ نہیں ہوتا، وہ توانا اور زندہ ہے۔

تینوں شعروں کو فکری، محسوساتی اور جمالیاتی کی آر جی بی ترتیب میں دیکھیں تو ایک دل چسپ اور فکر انگیز تصویر بنتی ہے۔ پہلا شعر بات خارج کی کرتا ہے اور اسے رُخ داخل کا دے دیتا ہے؛ دنیا کا مشاہدہ اور اس میں ایک خاص حوالے سے تعلقِ خاطر کو بھی شامل کرتا ہے۔ دوسرا شعر داخل اور خارج کی مشترکہ کیفیات کا مظہر ہے؛  حسن کو دام ہم رنگِ زمیں مانتے ہوئے ایک نوع کی بے دلی کا اظہار بھی کرتا ہے ۔ تیسرا شعر نیند،سپنوں  اور ان کی تعبیر کی بات کرتا ہے؛ افکار اور محسوسات جتنے بھی دبائے جائیں وہ مرتے نہیں ہیں، خواب کا روپ دھار لیتے ہیں۔ موت سے زندگی کی جانب سفر میں خواب زندگی کے لئے نئی غذا اور قوت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ یوں ہم ان تینوں شعروں کو زندہ افکار  اور محسوسات کی شاعری پر مبنی اکائی قرار دے سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
محمد یعقوب آسیؔ  (ٹیکسلا) پاکستان

جمعرات: 2 ۔ نومبر ۔ 2017ء

2 تبصرے:

  1. روایت کو صرف ایک چیز مارتی ہے، جسے جمود کہتے ہیں۔ جمود ہے کیا، یہ واقع کیسے ہوتا ہے، اس کا کوئی تؤر بھی ہے کیا؛ وغیرہ ۔۔ یہ بہت بڑا موضوع ہے۔

    جواب دیںحذف کریں