اتوار، 1 نومبر، 2015

بے چارہ (7)۔

 
بے چارہ (7)


سرِ راہ ملاقات ہو گئی، علیک سلیک کے بعد فرمانے لگے: ’’کیسے ہو؟‘‘
عرض کیا: ’’خدا کا شکر ہے، سب ٹھیک ہے خداوندِ دو عالم کے کرم سے، آپ کیسے ہیں؟‘‘ 
فرمانے لگے: ’’اللہ کا شکر ہے ... اور ہاں، یہ تم نے کیا کہا؟ ’خدا‘ کا شکر ہے؟ تمہیں پتہ ہے؟ خدا نہیں کہتے، اللہ کہتے ہیں‘‘۔
عرض کیا: ’’خدا سے میری مراد ظاہر ہے ’اللہ‘ ہی ہے، میں مجوسی بھی تو نہیں جو آپ کو میرا لفظ ’خدا‘ بولنا اتنا کھٹکا ہے‘‘۔
ارشاد ہوا: ’’جب تمہارے پاس لفظ ’اللہ‘ موجود ہے، تو پھر ’خدا‘ کہنے کا کیا جواز ہے؟ فارسی مجوسیوں کی زبان ہے، تم مجوسی نہ ہو کر ان کی زبان بول رہے ہو! اور وہ بھی ’اللہ‘ کی شان میں! لا حول ولا قوۃ الا باللہ، کیا زمانہ آ گیا ہے! کسی کو کام کی بات بتائیں تو ناک چڑھاتا ہے‘‘۔ 
ہماری طبیعت تو خاصی مکدر ہوئی، تاہم یہ مکالمہ چونکہ ہمارے صدر دروازے پر ہو رہا تھا، سو ہم نے خوش اخلاقی کو خود پر لازم رکھتے ہوئے کہا: ’’چھوڑئیے! آپ کن چکروں میں پڑ گئے۔ آئیے، آپ کو چائے پلاتے ہیں‘‘۔
کہنے لگے: ’’نہیں، میرا روزہ ہے، اور نماز کا وقت بھی ہو رہا ہے، میں چلوں گا۔ ’خدا‘ اور ’اللہ‘ کے فرق پر پھر بات ہو گی‘‘۔
وہ جانے لگے تو ہم نے روک لیا: ’’تو آپ نماز پڑھتے ہیں؟‘‘۔ جواب ملا: ’’ہاں، کیوں؟ تم نہیں پڑھتے؟‘‘۔
عرض کیا: ’’حضور! نماز تو وہ ہے جو مجوسی پڑھتے ہیں، اور ... ’روزہ‘ نام کی کسی عبادت کا نہ قرآن شریف میں ذکر ہے اور نہ کسی حدیث میں۔ یہ آپ نے کہاں سے لے لی؟‘‘ ۔
بہ آوازِ بلند ’لاحول‘ کا مکرر ورد کرتے ہوئے انہوں نے دو تین بار ’استغفراللہ‘ کہا اور بولے: ’’کیا کفر بک رہے ہو؟ میں بھی مجوسی تو نہیں جو تمہیں میرا ’نماز‘ کہنا اتنا برا لگا ہے۔ اور کیا کہتے ہیں نماز روزے کو؟ نماز، روزہ ہی تو کہتے ہیں!‘‘۔
عرض کیا: ’’آپ ہی کا فرمان آپ کو یاد دلایا ہے کہ جب آپ کے پاس لفظ ’صوم و صلوٰۃ‘ موجود ہے تو نماز روزہ کہنے کا کیا جواز ہے؟‘‘۔ وہ ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے، مگر ہم نے بات جاری رکھی: ’’حضور والا! اللہ کریم بھی جانتا تھا اور جانتا ہے کہ دینِ اسلام کسی ایک محدود علاقے کے لئے نہیں پورے کرہء ارض کے لئے ہے۔ اور اللہ کریم یہ بھی جانتا ہے کہ دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں ...‘‘۔
وہ پھٹ پڑے: ’’تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟ اب تم یہ کہو گے کہ ہمیں نماز پڑھنی بھی اپنی اپنی زبان میں چاہئے عربی ہی کیوں؟ ہے نا؟‘‘۔
عرض کیا: ’’نماز نہیں حضرت! صلوٰۃ! اور وہ بالکل اس طرح جیسے نبی کریم نے فرمایا: صلُّوا کما رئیتمونی اُصَلّی۔ اگر لفظ نماز سے آپ کی مراد وہی نماز ہے تو نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر مجوسیوں والی نماز ہے تو وہ نہ میں پڑھتا ہوں نہ آپ۔ خاطر جمع رکھئے اور جائیے کہ’ آپ کی مسجد‘ میں نماز کا وقت ہو چلا ہے‘‘۔ وہ پھٹ پڑے: ’’اب یہ کیا بک رہے ہو!‘‘۔ 
عرض کیا: ’’جناب! یہ بھی آپ کا ارشاد ہے، پرسوں جب میں نے کہا کہ اذان ہو رہی ہے توآپ نے فرمایا تھا: ’یہ ہماری مسجد کی اذان نہیں ہے‘ ۔ فرمایا تھا، نا؟‘‘۔
انہوں نے ہمیں یوں گھورا جیسے کچا چبا جانے کا ارادہ ہو، اور سلام کہے بغیر چلے گئے۔

محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ اتوار ۔ یکم نومبر ۲۰۱۵ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں