پیر، 30 نومبر، 2015

ہمزہ اور یائے مستور


ہمزہ اور یائے مستور




اردو میں ہم فارسی سے آمدہ الفاظ تمنائی، دریائی، تماشائی، وغیرہ سے مانوس ہیں۔ فارسی رسمِ تحریر میں ان کی املاء  تمنایی، دریایی، تماشایی، وغیرہ ہے جب کہ ہم ان کی یی کے بجائے ئی کے ساتھ لکھتے ہیں۔ یعنی جس ی پر ی وارد ہوئی وہ ہمزہ میں بدل گئی۔ ایک بات اور بھی قابلِ غور ہے۔ ہم لکھتے ہیں: مجلس آرا، دریا، تمنا، تماشا، سر و پا، فردا ۔ فارسی والے یوں بھی لکھتے ہیں: مجلس آرای، دریای، تمنای، تماشای، سر و پای، فردای مگر یہ ی عام طور پر بولنے میں نہیں آتا۔ جب اس پر کوئی حرکت ہو تو لکھنے بولنے دونوں میں آ جاتا ہے۔ خدای سے خدایان، خوش بوی سے سے خوش بویات، خوب روی سے خوب رویان؛ وغیرہ۔ اس کو یائے مستور کہہ لیجئے۔ یائے مستور کے مقامات تین ہیں: 

ایک ۔ جب ایک اسم الف معروف پر ختم ہو رہا ہو۔ خدا، ہوا، صدا، نوا۔ ان میں ہر جگہ یائے مستور موجود ہے۔ اس پر واوِ عطف واقع ہو تو ہمزہ غیر مملوء (لکھے بغیر) شامل ہو جاتا ہے۔ خدا و انساں (صوتیت: خدا ؤ انساں، خدا ءُ انساں) اگر اس میں یائے مستور لکھا ہوا ہو تو۔ خدای و انساں (صوتیت: خدا یو انساں، خدا یُ انساں)۔ معانی وہی ہیں :خدا اور انسان۔  
شُذرہ: ایسے اسم پر اضافت یا توصیف کی وجہ سے زیر لاگو ہو تو فارسی طریقہ تو ہے کہ یائے مستور کو لکھ کر اس پر زیر لگاتے ہیں۔ ہوایِ غم، نوایِ جبریل۔ مگر یہ اردو میں مانوس نہیں ہے۔ اردو میں الف کے بعد کی یائے مستور کی جگہ ہمزہ اور اس پر واقع ہونے والی زیر کی جگہ یائے مجہول (ے) لکھتے ہیں: نوائے وقت، بلائے بے درمان۔ شعر میں اس یائے مجہول کو گرایا جانا عام ہے۔

دو ۔ جب ایک اسم واو معروف یا واوِ لین پر ختم ہو رہا ہو۔ خوب رُو، پیش رَو، خوش بُو، سرِ مُو، وغیرہ۔ ان میں بھی ہر جگہ یائے مستور موجود ہے۔ ان اسماء کے آخر پر زیرِ اضافت یا زیرِ توصیف لاگو ہو تو یائے مستور حسب بالا ظاہر ہو جاتی ہے۔ فارسی کے مطابق: رُویِ سخن (اردو: روئے سخن)، بانویِ شہر (اردو: بانوئے شہر)، رُویِ زیبا (اردو: رُوئے زیبا)، بُویِ گل (اردو: بوئے گل)  وغیرہ۔ دیگر کوئی حرکت واقع ہونے کی صورت بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ جمع: خوب رُویان، خوش بویات، جویا (متلاشی)۔ غالب نے تو اردو میں بھی اس ی (یائے مستور) کو متحرک کیا ہے۔ ع: چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد ۔

تین ۔ جب اس ی پر زیر واقع ہو تو قاعدے کے مطابق وہ زیر اسی ی پر واقع ہوتا ہے اور فارسی والے لکھتے بھی اسی طرح ہیں۔ گرمیِ محفل، شادیِ مرگ، خوبیِ قسمت۔ اردو میں البتہ ایسی ی کے بعد (یاد رہے کہ ی کے بعد! نہ کہ پہلے!) والی یائے مستور بہ صورتِ ہمزہ ظاہر ہو جاتی ہے اور زیر اس ہمزہ پر وارد ہوتی ہے۔ گرمیءِ محفل، شادیءِ مرگ، خوبیءِ تقدیر، والیءِ شہر، مَےءِ لالہ فام، در پےءِ آزار وغیرہ۔ 

یائے مستور کی جگہ آنے والا ہمزہ چھوٹے ہمزہ کی صورت میں ی، ے کے اوپر لکھا جانے لگا اور زیر اس پر وارد ہوئی۔ گرمیِٔ محفل، شادیِٔ مرگ، خوبیِٔ تقدیر، والیِٔ شہر، مَۓِ لالہ فام، در پۓِ آزار وغیرہ۔ ترتیب اس کی وہی تھی (ی، ہمزہ، زیر) مگر  خطاطی میں (اور بعد میں کمپیوٹر کی کچھ مجبوریوں کے سبب) بعد کی بجائے اوپر آنے کی وجہ سے کچھ غلط تصورات پل گئے۔ جن کے زیرِ اثر  اصل املاء: گرمیءِ محفل، شادیءِ مرگ، خوبیءِ تقدیر، والیءِ شہر، مَےءِ لالہ فام، در پےءِ آزار (ہمزہ چھوٹا لکھیں یا، کمپوٹر کی مجبوری کے تحت بڑا) کی غلط املاء: گرمئی محفل، شادی مرگ، خوبئی تقدیر، والئی شہر، مَئے لالہ فام، در پئے آزار، وغیرہ چل نکلی۔

لفظ مَے اور پَے کے معاملے میں کچھ مزید غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ بعضوں نے مۓِ لالہ فام (مےءِ لالہ فام) کو مئے لالہ فام لکھنا شروع کر دیا۔ پھر اسی غلطی کے تواتر کے سبب ایک نئی بات پیدا ہو گئی کہ مَے کے ہجے کیا  ہیں؟ یعنی بعضوں کے ہاں اس کی املاء بجائے خود سوال کی زد میں آ گئی۔ اور، یار لوگ  اسے "مئے" لکھنے لگے جو قطعی طور پر غلط ہے۔ لفظ مَے اصولی طور پر دو حرف کا ہے (م، ے) فارسی میں گول ی اور لمبی ے میں کوئی فرق نہیں ہوتا، اردو میں ہوتا ہے۔ 

درست کیا ہے؟ نمایش یا نمائش؟ زندہ و پایندہ یا زندہ و پائندہ؟  اس کا اصولی جواب جاننے کے لئے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ یائے مستور پیدا کیسے ہوتی ہے۔ اور اس کے لئے فارسی کے کچھ بنیادی قواعد کا علم ہونا لازمی ہے۔ آئندہ سطور میں ہم ان قواعد کا اجمالی ذکر کریں گے۔ تفصیل اس فقیر کے مضمون "زبانِ یارِ من" میں آ چکی ہے۔

فارسی میں مصدر وہ اسم ہے جس میں معانی کام، عمل، فعل کے پائے جاتے ہیں اور اصلاحاً فعل وہ اس لئے نہیں کہلاتا کہ فعل کے میں زمانہ کے ساتھ فاعل، مفعول یا نائب فاعل کا ہونا لازمی ہے۔ اردو میں مصدر کی موٹی علامت ہے: اس کے آخری دو حرف "نا"۔ کھانا، پینا، لکھنا، پڑھنا، آنا، جانا، دیکھنا، مرنا، جینا۔ وغیرہ۔ چلئے انہی کے لئے فارسی مصادر دیکھ لیتے ہیں: خوردن، نوشیدن، نوشتن، خواندن، آمدن، رفتن، دیدن، مُردن، زیستن ۔۔۔ ان میں ہم نے دیکھا کہ مصدر کے آخری دو حرف "تن" ہیں یا "دَن"۔ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ اگر ہو گا تو وہ مصدر نہیں کہلائے گا۔

فارسی اہلِ زبان کے ہاں ہر مصدر کے ساتھ ایک مضارع منسلک ہوتا ہے۔ مصدر سے مضارع بنانے کے قواعد کوئی ہیں بھی تو وہ بہت پیچیدہ ہیں۔ ہم غیر فارسی والوں کے لئے یہی کافی ہے کہ ہر مصدر کے ساتھ ایک مضارع متعین شدہ موجود ہے اور ہمیں اسی کو درست تسلیم کرنا ہے (بہ الفاظ، دیگر ان کو یاد کرنا ہے)۔

منقولہ بالا مصادر کے مضارع یہ ہیں: خوردن سے خورَد، نوشیدن سے نوشَد، نوشتن سے نویسَد، خواندن سے خوانَد، آمدن سے آیَد، رفتن سے رَوَد، دیدن سے بینَد، مُردن سے میرَد، زیستن سے زِیَد ۔۔ توجہ فرمائیے کہ مضارع کا آخری حرف ہمیشہ د (مجزوم) ہوتا ہے اور اس سے پہلے حرف پر ہمیشہ زبر (فتحہ) واقع ہوتا ہے۔ ان کے رسمی معانی کئے جاتے ہیں: وہ کھائے، وہ پئے، وہ لکھے، وہ پڑھے، وہ آئے، وہ جائے، وہ دیکھے، وہ مرے، وہ جیے۔ تاہم یہ کامل معانی یوں نہیں کہلاتے کے کہ مضارع پر سابقے لاحقے داخل ہونے سے نئے معانی بنتے ہیں، جو ہمارا اس وقت کا موضوع نہیں۔ کچھ اور مصادر اور ان کے مضارع دیکھے لیتے ہیں: گفتن سے گوید، آمدن سے آید، جُستن سے جُویَد، نمودن سے نمایَد۔ ان کو پہلی فہرست میں شامل کر لیجئے۔

نوٹ کیجئے کہ اگر مضارع سے اس کی علامت یعنی د کو ہٹا دیا جائے تو د سے پہلے حرف کی زبر از خود ساقط ہو جاتی ہے اور وہ ساکن ہو جاتا ہے۔ خوردن سے خورَد اور اس سے خور، نوشیدن سے نوشَد اور اس سے نوش، نوشتن سے نویسَد اور اس سے نویس، خواندن سے خوانَد اور اس سےخوان، رفتن سے رَوَد اور اس سے رَو، دیدن سے بینَد اور اس سے بِین، مُردن سے میرَد اور اس سے مِیر، زیستن سے زِیَد اور اس سے زی، گفتن سے گوید اور اس سے گوی، جُستن سے جُویَد اور اس سے جوی، نمودن سے نمایَد اور اس سے نمای، آمدن سے آیَد اور اس سے آی۔

یہ سارے جہاں فعل امر ہیں یعنی کھا، پی، لکھ، پڑھ، جا، دیکھ، مر، جی، کہہ، ڈھونڈ، دکھا، آ ۔۔۔ وہیں یہ اسم فاعل بھی ہیں۔ مثلاً گوشت خور، عرضی نویس، نعت خوان، تیز رَو، جواں میر، قصہ گو، حیلہ جُو، چہرہ نما، (آ یعنی آنے والا اردو میں مانوس نہیں ہے)۔ گفتن اور اس کے بعد کے مضارعوں میں حرفِ مزارع د سے پہلے ی موجود تھی، د کے ہَٹنے پر صوتیت میں ساکت (خاموش) ہو گئی ساقط نہیں ہوئی۔ یہی یائے مستور ہے۔ اس کو جہاں حرکت ہو گی ظاہر کر دیں گے اور کبھی بغیر حرکت کے بھی ظاہر کر دیتے ہیں۔ یہی وہ ی ہے جو حسبِ موقع اردو میں ہمزہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

اس بحث کی روشنی میں اور اسی قاعدے کی توسیع کے حاصل کے طور پر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو کے لئے نمایش اور نمائش، نمایندہ اور نمائندہ، آیندہ اور آئندہ، پایندہ اور پائندہ، ہر دو صورتیں درست ہیں۔ اگر آپ کا عمومی میلان فارسی کی طرف ہے تو ی لکھئے، بصورتِ دیگر ہمزہ لکھئے؛ اس کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔



محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان۔  سوموار 30 نومبر 2015ء۔

8 تبصرے:

  1. معلوماتی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکثر ہم گڑبڑا جاتے ہیں کیا لکھیں اور کئی مرتبہ تیکنیکی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ محترمی۔ غلطی ہو جانا اور بات ہے؛ غلطی ہو جانے پر یا غلطی کر کے اس پر اَڑ جانا اور بات ہے۔ بنیادی اہمیت والی چیز ہے: غلطی کا اِدراک اور غلطی کو دور کرنے کا عزم۔ اللہ کریم سب پر کرم فرمائے۔ آمین۔

      حذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. جانتا ہے وہ حقیقت اپنی
    خوب کو چوب کہا ہے اس نے
    فی البدیہہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. دراصل عشاق اور مزدوروں میں ایک قدر مشترک ہے دونوں کو کبھی اپریسیشن اور حق نہیں ملتا ۔۔۔💔
      میں اس کا واہ واہ مترادف کہہ لیتا ہوں

      حذف کریں