پیر، 3 اپریل، 2017

کھوٹی دمڑی ۔ ایک داستان ۔ ایک تمثیل




کھوٹی دمڑی
کردار اور صداکار
قصہ گو: منیر انور (لیاقت پور) پاکستان
 راجا: محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
فقیر: ریاض شاہد (گوجراں والا) پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔۔ 1 ۔۔۔۔۔۔۔۔
قصہ گو:         دوپہر ڈھل رہی تھی۔ سڑک کے کنارے ٹاہلی کی چھاؤں میں ایک نابینا فقیر کشکول سامنے رکھے چُپکابیٹھا تھا۔ اس نے کچھ گھوڑوں کی ٹاپ سنی اور کچھ لوگوں کی آوازیں، کان ادھر لگائے ہی تھے کہ ’’چھن ن ن ن‘‘ ایک سکہ اس کے کشکول میں گرا۔ فقیر نے اپنی بے نور آنکھوں کو ادھر ادھر گھمایا اور خود کلامی کے انداز میں بولا:
فقیر:              ’’واہ بادشاہ! ایک دمڑی دی فقیر کو اور وہ بھی کھوٹی!!‘‘۔
قصہ گو:         کشکول میں دمڑی پھینکنے والا واقعی اس راجدھانی کا راجا تھا۔ وہ بہت حیران ہواکہ اندھے فقیر نے یہ کیسے جان لیا کہ میں راجا ہوں اور یہ دمڑی کھوٹی ہے۔ اس نے فقیر سے پوچھا:
راجا:              ’’تو نے کیوں کر جان لیا، اندھے؟‘‘۔
فقیر:              ’’ابھی تو جا، اکیلے میں بتاؤں گا‘‘۔
۔۔۔۔ 2 ۔۔۔۔
قصہ گو:         راجا کے حکم پر فقیر کو محل میں لے جا کر ایک کھولی میں بٹھادیا گیا۔ راجا اپنے چوبدار کے ساتھ کھولی میں داخل ہوا اور کہا:
راجا:              ’’اب بول اندھے! تو مجھے اکیلے میں کیا بتانے والا تھا‘‘۔
فقیر:              ’’اپنے اس چوبدار کو چلتا کر، پھر بتاتا ہوں‘‘۔
قصہ گو:         راجا کو شک گزرا کہ فقیر اندھا نہیں ہے بنا ہوا ہے۔ چپکے واپس مڑا تو فقیر بولا:
فقیر:              ’’تجھے شک گزرا، نا؟ جب یقین ہو جائے تب آ جائیو‘‘ ۔
قصہ گو:         وہ بہت تلملایا، فقیر پر ایک نگران مقرر کیا اور تین چار دن تک فقیر کو نہ ملا، نہ دربار میں طلب کیا۔ اسے بتایا گیا کہ فقیر سچ مچ نابینا ہے تو وہ اکیلا کھولی میں آیا۔ فقیر نے کہا:
فقیر:              ’’ سُن! کوئی فوجدار یا کوئی ریاست کا بڑا ہی ہو سکتا ہے کہ جس کے ساتھ لاؤ لشکر اور لگامیں ہوں، سو میں جان گیا کہ تو کوئی بڑا طاقت والا ہے۔ تونے میرے سامنے کھوڑا روکا اور سکہ کشکول میں پھینکا، سو میں جان گیا کہ تو بہت گھمنڈی بھی ہے، طاقت اور گھمنڈ آج کے بادشاہوں کا خاصہ ہے، سو میں جان گیا کہ تو بادشاہ ہے۔ میری عمر گزری ہے لوگ میرے کشکول میں سکے ڈالتے ہیں، میں سکوں کی آوازوں سے بہت کچھ جان لیتا ہوں، سو میں جان گیا کہ یہ دمڑی ہے اور وہ بھی کھوٹی۔ بس اب جا اور لوگوں کو ڈراتا رہ کہ تجھے یہی ایک کام آتا ہے‘‘۔
راجا:              ’’تُوتو اندھا ہے ۔تجھے کیسے پتا کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ ‘‘۔
فقیر:              ’’جب تو سڑک پر رکا تھا تو سب رک گئے تھے، کسی نے ایک حرف نہیں بولا، تیرے ساتھ تیرا چوبدار تھا، سو چپ۔ مجھ پہ جو نگران تو نے رکھا، وہ جب بھی بولا، ڈرا سہما بولا۔ برتن تیرے گھر کے کھانا کسی اور کے گھر کا‘‘۔
راجا:              ’’تو نے کیسے جانا؟‘‘
فقیر:              ’’اب کچھ نہیں بتاؤں گا کہ میں کیسے جان گیا، تو اپنے کام میں لگا رہ اور مجھے جانے دے‘‘۔
راجا:              ’’اندھے! تو مجھے کام کا آدمی لگتا ہے، میں تجھ سے کوئی مشورہ مانگوں تو صحیح مشورہ دے گا؟‘‘۔
فقیر:              ’’ہاں، چاہے تجھے برا لگے۔‘‘
قصہ گو:         راجا نے فقیر کا پانچ روپلی مہینہ وظیفہ لگا دیا اور اس کو دربار میں بٹھایا۔ سارا دن وہ بیٹھا لوگوں کی باتیں سنتا اور رات کو کھولی میں آ جاتا۔ راجا اُس سے پوچھتا تو وہ بتا دیتا کہ فلاں نے سچ بولا، فلاں نے جھوٹ کہا۔ فقیر کی بہت باتیں سچی نکلتیں۔ راجا جس نے کبھی کسی سگے پر اعتبارنہ کیا تھا، فقیر کی بات کو جھٹک نہیں پاتا تھا، اندر ہی اندر ڈرتا بھی تھا۔
۔۔۔۔ 3 ۔۔۔۔
قصہ گو:         ایک دن راجا کو ایک گھوڑی پیش کی گئی، گھوڑی راجا کو بھا گئی، وہ اسے لے لینا چاہتا تھا، سوچا فقیر سے پوچھ لوں۔ بولا:
راجا:              ’’اندھے! بتا میں یہ گھوڑی لے لوں کہ نہ لوں؟‘‘
فقیر:              ’’مجھے گھوڑی تک لے چل‘‘۔
قصہ گو:         اسے گھوڑی تک لے جایا گیا، اس نے گھوڑی کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور بولا:
فقیر:              ’’بادشاہ! یہ گھوڑی میدان میں دغا دے گی۔ لینی ہے تو لے لے۔‘‘
راجا:              ’’آنکھوں والوں کو دِکھی نہیں کیا؟ تو کہتا ہے دغا دے گی! مجھے تیری بات کا ثبوت چاہئے!‘‘۔
فقیر:              ’’ایک حوض میں پانی بھر، کہ وہ گھوڑی کے پیٹ کو لگے، پھر گھوڑی کو اس میں اتار دے‘‘۔
قصہ گو:         گھوڑی کو حوض میں اتارا گیا تو اُس نے پانی سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ راجا بولا:
راجا:              ’’یہ اَڑ کیوں گئی اندھے!‘‘
فقیر:              ’’میں نے کہا تھا نہیں بتاؤں گا، پر چل! بتا دیتا ہوں۔تیری طرح ناز نخرے میں پلی ہے۔ میں نے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرا تو اس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا، میدان کی ہوتی تو کھال کو چھانٹتی! اَڑے گی نہیں تو کیا کرے گی؟‘‘۔
قصہ گو:         راجا خوش ہو کے بولا:
راجا:              ’’آدھی روپلی بڑھا دو اِس کا وظیفہ!‘‘
قصہ گو:         راجا کو ایک لڑکی پسند آ گئی وہ اسے محل سرا میں لانا چاہتا تھا۔ فقیر سے پوچھا تو بولا:
فقیر:              ’’اُس لونڈیا سے کہہ میرے آگے سے گزر جائے۔‘‘
راجا:              ’’تجھے کون سا دِکھتا ہے، اندھے! کہ تو دیکھ کے بتائے گا۔‘‘
فقیر:              ’’جو میں نے کہا وہ کر، نہیں تو جا اپنی مرضی کر‘‘۔
قصہ گو:         لڑکی کو فقیر کے آگے سے گزارا گیا۔ لڑکی چلی گئی تو فقیر نے بتایا:
فقیر:              ’’یہ ڈومنی کی چھوکری ہے، ساری عمر کوٹھے پہ گزری ہے اس کی، چاہے تو بیاہ لے چاہے تو ویسے رکھ لے، یہ کچھ برا نہیں منائے گی‘‘۔
قصہ گو:         راجا نے لڑکی کو آزمایا تو وہ سو جان سے قربان ہونے پہ تیار۔ تحقیق کرائی پتہ چلا، فقیر نے جو بتایا وہ سب سچ تھا۔ راجا نے پوچھا:
راجا:              تو کن لوگوں کے پیچھے پھرتا ہے اندھے! تو پہلے سے اس لڑکی کو جانتا تھا؟ پر نہیں تو کیسے جان سکتا ہے ۔ پر یہ تو نے کیسے جانا کہ وہ ڈومنی کی بیٹی ہے؟‘‘
فقیر:              ’’اب ایک آخری سوال رہ گیا ہے، جو تو مجھ سے پوچھے گا، اس لئے بتا دیتا ہوں۔ کہ وہ لونڈیا زمین پر ایڑی مار کے چلتی ہے، ساری عمر کے ناچ کی لت کہاں جائے گی‘‘۔
قصہ گو:         راجا نے اس کا وظیفہ آدھی روپلی اور بڑھا دیا۔ وہ  فقیر سے سچ مچ خوف زدہ رہنے لگا۔
۔۔۔۔ 4 ۔۔۔۔
قصہ گو:         ایک دن فقیر نے کہا:
فقیر:              ’’بادشاہ میں ایک بات کہتا ہوں پر مجھے پتہ ہے تو مانے گا نہیں۔‘‘
راجا:              ’’بول‘‘
فقیر:              ’’مجھے جانے دے نہیں تو تُو میری جان کو آ جائے گا اور میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔
قصہ گو:         راجا گھمنڈ سے ہنسا اور کہا:
راجا:              ’’تو نے ٹھیک کہا اندھے! تو آنکھ کا اندھا ہے پر تیری عقل کام کرتی ہے۔ میں نے تیری یہ بات نہیں مانی! تو یہیں رہے گا، اور بھاگنے کی سوچے گا تو مارا جائے گا۔‘‘
فقیر:              ’’یہی تو میں نے کہا کہ میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔
قصہ گو:         قسمت کا لکھا ہو کے رہتا ہے۔ ایک دن راجا کو سوچ آئی کہ میرا باپ کون تھا۔ اُس نے فقیر سے پوچھا:
راجا:              ’’میری حقیقت کیا ہے‘‘۔
قصہ گو:         فقیر ذرا دیر کو چپ رہا، پھربولا:
فقیر:              ’’یہی سوال ہے جس کا مجھے ڈر تھا۔ خیر، میں تجھے بتاؤں گا ضرور، پر میری ایک شرط ہے۔ مجھے اُسی ٹاہلی کے نیچے لے چل، اور صرف تو میرے ساتھ جائے گا‘‘۔
قصہ گو:         راجا کو مانتے ہی بنی۔ دوپہر ڈھل رہی تھی جب وہ ٹاہلی کے نیچے پہنچے۔ فقیر نے راجا کو سائے میں بیٹھنے کو کہا، اور خود ذرا ہٹ کے اپنے گرد حصار کھینچ لیا۔پھر بولا:
فقیر:              ’’میں جو کہوں گا، اُسے سن کے تو باؤلا ہو جائے گا، اس لئے میں نے اپنے گرد حصار کھینچا ہے۔ اس میں گھسنے کی کوشش نہ کرنا نہیں تو بھسم ہو جائے گا۔‘‘
قصہ گو:         راجا بہت بھنایا اور بولا:
راجا:              ’’زیادہ بَڑ بَڑ نہ کر اندھے! مجھے بتا میرا باپ کون تھا‘‘۔
فقیر:              ’’تو کسی چمار کا بیٹا ہے جو تیرے ظاہری باپ کا نمک خوار تھا۔ اب جا اور جا کے پڑتال کر لے‘‘۔
قصہ گو:         راجا غصے سے حصار کی طرف بڑھا مگر ڈر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اور وہاں سے جاتے ہوئے کہنے لگا:
راجا:              ’’تو نے جو کہا، جھوٹ نکلا تو جان کہ تو مارا گیا، اور سچ نکلا تو بھی مارا گیا‘‘۔
فقیر:              ’’یہ تو میں جان گیا تھا کہ تو میری جان کو آئے گا، پر یہ کوئی نہیں جانتا کہ تو مجھ پر قابو بھی پا سکے گا کہ نہیں۔ اب جا!!‘‘۔
۔۔۔۔ 5 ۔۔۔۔
قصہ گو:         راجا نموشی کا بارکاندھوں پہ دھرے محل کو پلٹا اور اپنی ماں کی کوٹھڑی میں جا گھسا۔ پہلے تو اپنی ماں کو خوب مارا پیٹا، وہ دہائی دیتی رہی پر کون ہوتا جو راجا کے منہ لگتا۔ ماں ادھ موئی ہو کے گری پڑی تھی تب اُس نے پوچھا: ’’بول میرا باپ کون تھا‘‘۔ بڑھیا جان گئی تھی کہ اب کچھ چھپائے نہ چھپے گا۔ بولی: تو مَوجُو چمار کا بیج ہے جو مہاراجاکے زمانے میں اصطبل اور محل سرا کی صفائی کا نگران تھا۔ ایک بارمہاراجا جو شکار کو نکلا تو کئی دن لوٹ کے نہیں دیا۔ اُس پیچھے کچھ ایسا ہو گیا کہ موجو چمار کا ۔۔۔‘‘۔ راجا اس سے آگے کچھ نہ سن سکا۔ اُس نے تلوار کے ایک ہی وار میں اپنی ماں کی گردن اڑا دی اور لہو سے لتھڑی تلوار لئے آندھی طوفان کی طرح ٹاہلی تک جا پہنچا۔ فقیر ابھی تک حصار میں بیٹھا تھا۔ راجا نے اسی تلوار کا وار کیا، تو تلوار حصار کے اندر نہیں گئی، ٹن ن کی آواز سے واپس پلٹ آئی۔ راجا جھاگ اگل رہا تھا:
راجا:              ’’میں اُس کو مار کے آیا ہوں، اب تو مرے گا!‘‘
فقیر:              ’’وہ عورت تیری ماں تھی اور تو خود اس کا پاپ! ارے پاپ نے پاپن کو مارا تو کیا مارا!‘‘
قصہ گو:         راجا جان گیا تھا کہ وہ فقیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہیں ڈھے گیا اور ہارے ہوئے لہجے میں بولا:
راجا:              ’’اب تو بتادے کہ تو نے کیسے جان لیا؟‘‘
فقیر:              ’’ایک: تیرا وہ دان ایک کھوٹی دمڑی کا ایک اندھے فقیر کو، اور وہ بھی بڑے گھمنڈ سے؛
دوجا: تیرا ہر بات پر مجھے اَندھا کہہ کے بلانا؛
 تیجا: تیرے لوگوں کا تجھ سے ڈرنا اور تیرا اُن پر اعتبار نہ کرنا؛
چوتھا: تیرا خوش ہونے پر بجائے کوئی دھن دان کرنے کے وظیفہ بڑھانا، اور وہ بھی آدھی روپلی؛
پانچواں: تجھے گھوڑی گدھی کی پہچان نہ ہونا؛
چھٹا: بادشاہ ہو کے ڈومنیوں سے پیچ لگانا؛ اور
 ساتواں: ایسی بات سوچنا جو کوئی سپوت سوچے تو اپنی سوچ سے مر جائے۔
یہ سارا کچھ کسی بادشاہ کا پوت نہیں کر سکتا۔ اور اُس کا ثبوت ہے تیرا اپنی ماں پر ہاتھ اٹھانا اور پھر اُس کو جان سے مار دینا جس نے تجھ حرامی کو اپنے لہو اور دودھ سے پالا۔ اب یہ کشکول تو لے لے کہ تو مجھ سے بڑھ کے ناچار ہے‘‘۔
قصہ گو:         راجا تو جیسے زمین میں گڑ گیا ہو، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں؛ ٹھوڈی سینے سے لگ گئی تھی۔ کتنے جتن سے اُس نے سر اٹھایا تو دیکھا، فقیر وہاں نہیں تھا، حصار سے باہر کشکول پڑا تھا، جس میں ایک دمڑی رکھی تھی، وہ بھی کھوٹی۔
۔۔۔۔ 6 ۔۔۔۔
قصہ گو:         سنا ہے اسی ٹاہلی کے نیچے ایک فقیر بیٹھا ہوتا ہے؛ ہٹا کٹا، دیکھتا بھالتا، ہر ایک سے ایک کھوٹی دمڑی کا سوال کیا کرتا ہے۔کوئی دے دے تو اس کی طرف گھورتا ہے، نہ دے تو اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے اور اپنی زنگ بھری اسی تلوار سے زمین پر وار کرنے لگتا ہے جس کی دھار نے اس کی ماں کا لہو پیا تھا!!۔
اختتام
شذرہ: اس ڈرامے کی صدابندی ہو چکی ہے۔ ضروری ایڈیٹنگ کے بعد پنج ریڈیو سے نشر کر دیا جائے گا۔


تحریر: محمد یعقوب آسیؔ  ۔۔۔  4 اپریل 2014ء
تحویلِ متن: یکم اپریل 2017ء

1 تبصرہ:

  1. اس کھیل کی صدا بندی اور تدوین ہو چکی ہے۔ دیکھئے، ریڈیو پر نشر کب ہوتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں