جمعرات، 24 مارچ، 2016

میں کھو چکا ہوں




میں کھو چکا ہوں

ہاں، ریاض شاہد صاحب! آپ نے ٹھیک کہا! میں ایک دم خاموش ہو گیا ہوں ... شاید گم ہو گیا ہوں یا شاید گم ہو جانا چاہتا ہوں۔ لوگ سفر کرتے ہیں کسی کی تلاش میں؛ اپنی تلاش میں؟ مال و زر کی تلاش میں؟ یا اس کی تلاش میں جو سامنے رہ کر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ مگر میرا سفر کچھ الٹ ہو گیا! میں کھو جانا چاہتا تھا، اور میں کھو چکا ہوں۔
ظاہر کی آنکھ سے دیکھ کر بتانا کچھ مشکل نہیں ہو گا۔ وہ بھی بدھ کا دن تھا جب سویرے سویرے ایک سفر شروع ہوا، اور وہ بھی بدھ کا دن تھاجب رات گئے وہ سفر تھم گیا۔تکمیل پذیر ہونا یا ختم ہونا بات ہی مختلف ہے، چودہ دن ہوتے ہی کیا ہیں! اور ہاں آج بھی بدھ کا دن ہے۔ سحری کا وقت ہو رہا ہے۔ بدنی طور پر سفر سے واپسی کو ایک ہفتہ بیت گیا، مگر مجھے نہیں لگ رہا کہ میں واپس آ گیا ہوں۔ میں گم ہونا چاہتا تھا، سو گم ہو چکا ہوں۔ واپسی کا راستہ ہے کہاں؟ مجھے تو دکھائی نہیں دے رہا اور ہے نا عجیب بات! کہ مجھے واپسی کے راستے کی تلاش بھی نہیں۔ حشر کے میدان سے بھی کبھی کوئی واپس آیا ہے؟ آنا بھی چاہے تو آئے کیوں کر؟ اور کدھر!
وہ شاید آخری منظر تھا جب میں نے خود کو ایک بسیط کالی چادر کے سامنے کھڑا دیکھا تھا اور پھر اس چادر نے میرے گرد و پیش کو اپنی نِگھی تاریکی میں لپیٹ لیا تھا، جیسے میں رحمِ مادر میں ہوں۔ جہاں اچھلتا ہوا پانی کا قطرہ پناہ حاصل کرتا ہے اور اس پناہ کے ڈانڈے عالمِ ارواح سے جا ملتے ہیں۔ تحفظ کا ایسا احساس وہیں ہو سکتا ہے! جہاں اندھیرے میں تخلیق کا عمل واقع ہوتا ہے، جہاں زندگی پھوٹتی ہے۔ اور میں اپنے ہونے کو محسوس کرنے لگتا ہوں۔
بدن کی اپنی ضرورتیں ہیں۔ ساٹھ، باسٹھ برس پرانی ہڈیوں کو تھکنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے! تھک گئی ہوں گی مگر وہ چیز جو اِن بوڑھی ہڈیوں کو اٹھائے پھرتی ہے وہ ہنوز حرکت میں ہے۔ ہڈیوں اور گوشت پوست کے جسم کو اِس حدید و حجر کی وادی میں واپس اترے ایک ہفتہ ہو گیا، مگر وہ کالی چادر مجھے پتہ نہیں کہاں کہاں اڑاتی پھر رہی ہے! سب سفید ہی سفید دکھائی دیتا ہے! سر کے بالوں سے لے کر کفن نما دو اَن سلی سفید چادریں اسی کالی چادر کی پناہ میں اڑ رہی ہیں۔
میں اپنے پیاروں کی آوازیں سنتا ہوں مگر جواب نہیں دے پاتا کہ حشر کے میدان کا تو اپنا شور ایسا ہے جہاں ساری آوازیں دب جاتی ہیں۔ فرق ہے تو ایک کالی چادر کا جو میرے بائیں طرف بھاگتی پھیلتی جا رہی ہے۔ حشر سامانیوں کا سفر جاری رہتا ہے، مجھے پناہ کی تلاش ہوتی ہے تو وہ چادر مجھے یوں چھپا لیتی ہے جیسے کبھی ماں کے پیٹ نے چھپا لیا تھا۔ یہاں سے نکلنے کو کس کا جی چاہے گا!
محمد یعقوب آسیؔ .......... بدھ 10؍ فروری 2016ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں