جمعرات، 24 مارچ، 2016

من من کے پاؤں





من من کے پاؤں

(۱) 
’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘ اور .... پھر زبان کانپ گئی، لفظ کھو گئے! حاضری؟ اور وہ بھی اللہ کے حضور! ایسی ہوتی ہے، حاضری؟ بدن کو کفن کی طرح سفید چادروں میں لپیٹ لینے سے کیا ساری کالک دھل جاتی ہے؟ شاید ہاں، شاید نہیں! مگر ... یہاں شاید اور مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے! یہی شاید اور مگر ہی تو حضوری کو حجاب بنا دیتے ہیں۔ بدن اور وجود کا احساس کتنی بڑی رکاوٹ ہے! اے اللہ میں حاضر ہوں! اگر میں حاضر ہوں تو پھر میں کیوں ہوں!؟ حاضری میں میرا بدن کیا کر رہا ہے! اور کیوں؟ کس لئے؟ یہ پاؤں، من من کے پاؤں مجھے ہلنے نہیں دے رہے۔ میرے اللہ! مجھے سر تا پا دھڑکن بنا دے اور میرا وجود میرے اشکوں میں تحلیل کر دے! پھر شاید میں لبیک کہہ سکوں۔
یہ قیامت ہی تو ہے! حشر کا عالم اس سے کیا مختلف ہو گا؟ ایک بسیط خلا جس میں سر ہی سر ہیں، آنکھیں ہی آنکھیں ہیں، اشک ہی اشک ہیں، دھڑکنیں ہی دھڑکنیں ہیں۔ رنگ و نسل، عمر اور طبقہ کہاں سے در آئے گا، یہاں تو صنف بھی صنف نہیں رہتی۔ یہاں ہوش کسے ہوتا ہے کہ کوئی میرے ساتھ ٹکرا کر گزرا ہے یا گزری ہے! یا میں کسی کالے گورے عربی عجمی مرد سے جا ٹکرایا ہوں یا کسی عورت سے! کچھ پتہ ہی نہیں رہتا۔ بس ایک چادر باقی رہ جاتی ہے۔ گہرے سیاہ رنگ کی چمکتی دمکتی اور دل میں اترتی، روح پر چھاؤں بن کر پھیلتی ہوئی ایک بسیط چادر، جو میرے بائیں طرف تنی ہے اور میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے، اور بس! حاضری تو تب ہو کہ میں نہ رہوں، صرف وہ چادر رہ جائے۔ پھر ممکن ہے میری صدا بھی بسیط ہو جائے۔ لبیک کی کاف تک کا فاصلہ جتنا طویل ہو جائے حاضری بھی اتنی ہی طویل اور عمیق ہو جائے! مجھے، میرے جسم اور میری روح کو اپنے اندر سمو لے تب میرے اندر سے ایک پکار اٹھے! لب بَے .... ک۔ لاشریک لک!
یہ تو محشر بھی نہیں ہے! کچھ اور ہے۔ محشر میں تو سنتے ہیں کہ شور ہو گا ایسا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ نفسی! نفسی! نفسی! مگر نہیں یہاں کبھی کبھی ایک بھنبھناہٹ سی ابھرتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ بہت ساری آوازیں ’’لبیک‘‘ کہنے کی کوشش میں گھٹ کر رہ گئی ہیں۔جیسے آواز کو بھی پاؤں لگ گئے ہوں، من من کے پاؤں! میری آواز اِن پاؤں کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش میں بلند ہو جاتی ہے۔ اور ’’لب بے ... ...‘‘ کاف تک پہنچنے سے پہلے ایک پکار میں بدل جاتی ہے۔ دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں، من من کے پاؤں اشکوں کے سمندر میں بہہ جاتے ہیں۔ وہی حشر کا سماں؟ کہ ہر کوئی اپنے اپنے پسینے میں ڈوب رہا ہے! میری پکار بھی اس میں ڈوب کر ہچکی بن جاتی ہے۔ لبیک کہنے کے لئے لام، با، یا، کاف کی ضرورت نہیں رہتی! لبیک اللّٰھم لبیک!

(۲)
کائنات کے سارے رنگ سیاہ چادر میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں اور مجھے شکمِ مادر کی صورت اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں۔ جہاں نہ کوئی خوف ہوتا ہے، نہ تاریکی ڈراتی ہے، نہ آنکھیں ویران ہوتی ہیں بلکہ ایک سرمدی سکون اور خودفراموشی ہوتی ہے جو مجھے دنیا جہان کے غم و آلام سے محفوظ اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں زندگی پھوٹتی ہے۔ دعائیں لہو میں دوڑتی اور دل میں دھڑکتی ہیں، بے چینیاں آنکھوں میں بھی ٹک نہیں پاتیں توآبِ نمکیں کی صورت جسم سے نکل بھاگتی ہیں۔ ہم کلامی اور خود کلامی کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے بلکہ کلام ہی نہیں بچتا۔ کس کس نے کیا کہا کہا تھا! میرے لئے غلافِ کعبہ سے لپٹ کر دعا کیجئے گا؛ میری بچی ذرا سی بلند آواز سن کر ڈر جاتی ہے، اس کے لئے سکونِ قلب مانگئے گا؛ درخواست کیجئے گا کہ مجھے بھی بلا لیا جائے؛ میرے لئے مال و دولت میں برکات کی دعا کیجئے گا۔ سب کا کہا بجا! سب کی خواہشات کا خلوص تسلیم مگر .... صدا کہاں سے آئے، لفظ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں کہ اللہ! میرے چاہنے والوں کی مشکلات کو بھی آسان فرما دے؛ میرے احباب کو بھی سکونِ قلب سے نواز اور اُن کو بھی جسمانی طور پر حاضری کا شرف عطا فرما۔ لبیک! ان الحمد، و النعمت لک والملک؛ تیرا ایک ایک بندہ جہاں بھی ہے تیری نظر میں ہے اور تیرے کرم کی پناہ میں ہے۔
مگر، بندہ جو ٹھہرا! اکرام اور شرف کا سودائی، تیرا مہمان بننے کی خواہش کے ساتھ جیتا ہے۔ کم مایہ انسان کی اس آرزو کو کیا کہئے کہ اللہ کو اپنا میزبان دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب خود کو تیرے گھر میں پاتا ہے تو اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے! یہ بھی تو قیامت ہے! جب ایک ایک عضو بولے گا اور زبان کو تالا لگا دیا جائے گا۔ اللہ اکبر! مجھ جیسے بے مایہ شخص کو بھی یہ تجربہ ہوا کہ سوچ کا خانہ تک خالی ہو گیا۔ اللہ کریما! اس خلا میں جو اچھی بات جو اچھا خیال جو اچھا جذبہ بھر دے، تیری عنایت ہے۔ لفظ بھی تو خود ہی عطا کرے گا۔ نہیں بھی کرے گا تو تجھے لفظوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اللہ کریما! سب کی ایک ایک آرزو، ایک ایک تمنا تیرے سامنے کھلی ہے۔ ہر ایک کی ہر وہ آرزو پوری کردے جو آرزو کرنے والے کے حق میں اچھی ہے، آرزو مند کو اتنا ادراک کہاں کہ کیا مانگنا ہے! وہ تو ہر آرزو کی تکمیل چاہے گا، یہ تو ہی جانتا ہے کہ نادان بچے کی طرح کون اپنی ہی آرزو کے ہاتھوں انگلیاں کٹوا بیٹھے! میرے مالک کبھی مجھے میرے حوالے نہ کرنا۔ یا حی یا قیوم برحمتک استغیث!

(۳)
میں کیوں ہوں؟ کس لئے ہوں! یہ بھی تیری مشیت ہے۔ تو کہ ایک خفیہ خزانہ تھا، مگر خود پر عیاں تھا۔ شجر حجر، نباتات و اشجار، چاند سورج ستارے سیارے، ہوائیں فضائیں، حشرات و وحوش، انعام و مواشی، اور وہ ہر ہر شے جو تیرے ایک حرفِ کن کا کرشمہ ہے تجھے جانتی پہچانتی تھی۔ پر تیری مشیت اور مرضی تو کچھ اور تھی۔ تو نے چاہا کہ کوئی تجھے اپنی آزاد خواہش کے تحت پہچانے اور مانے جب کہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار بھی ہو اور ادراک بھی ہو! تونے ذی شعور مخلوقات کو پیدا فرمایا اور مجھے (انسان کو) احسنِ تقویم کے مقام پر فائز کیا۔ مجھے یہ جو تو نے قفسِ عنصری میں محدود کر دیا ہے یہ بھی تیری عنایت ہے، نہیں تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا!
اپنا پنجرہ اپنے کندھوں پر اٹھائے تیرے گھر کی دہلیز پر پہنچتا ہوں تو ایک عظیم الشان دیوار سامنے آ جاتی ہے سیاہ غلاف میں لپٹی ہوئی بلند و بالا عمارت کے گردا گرد ہزاروں لاکھوں سر ہیں جو میرے سامنے دائیں طرف سرک رہے ہیں۔سیاہ رنگ کی چادر کے اوپر کی طرف ایک پٹی میں سنہرے حروف جگمگا رہے ہیں۔ لبیک! ہاں لبیک! اور پھر؟ لبیک! تیرا جلال حاوی ہو جاتا ہے! مجھے تو کچھ کہنا تھا! اپنے رب سے مکالمہ کرنا تھا! کیا کہوں! یا اللہ کیا کہوں۔ میری نگاہیں تو چادر میں گڑی ہیں اور لفظ شاید کوئی ترتیب پا ہی نہیں سکے، اور پا بھی سکے ہیں تو دل سے حلقوم تک کے راستے میں کہیں کھو گئے ہیں۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے اور لبیک سے اگلے الفاظ ہونٹوں کی بجائے آنکھوں سے ابل پڑتے ہیں۔ میرے سامنے چادر پھیلی ہوئی ہے۔ پردہ! انسانی آنکھ میں تیرے نظارے کی ہوس تو ہے پر تاب نہیں ہے۔ میں کیا، میری اوقات کیا! وہ جلیل القدر عصا بردار پیغمبر جسے یعقوب کے بگڑے ہوئے بیٹوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا اسے بھی تو تجھے دیکھنے کی تڑپ تھی! ایسی تڑپ کہ مجھے اس کا ہزارواں لاکھواں حصہ بھی نہیں ملا ہو گا۔ اس عزمِ مجسم سے ارشاد ہوا تھا: تو مجھے نہیں دیکھ پائے گا! میں کیا! میری حیثیت کیا! تیرے گھر پر لپٹی کالی چادر میرا پردہ رکھ لیتی ہے، اور میرے دیکھتے دیکھتے چہار جانب یوں پھیل جاتی ہے کہ نہ کہیں کوئی افق باقی رہتا ہے نہ کوئی منظر، میرے بے نطق الفاظ ہیں، بے ترتیب دھڑکنیں ہیں اور بے محابا بہتے ہوئے اشک ہیں۔ اللّٰھم اہدنی فی من ہدیت! و عافنی فی من عافیت! و تولّنی فی من تولّیت! و بارک لی فی ما اعطیت! و قنی شر ماقضیت! و انّہٗ لا یذلّ من والیت! و لا یعزّ من عادیت! استغفرک و اتوب الیک! تبارکت ربنا و تعالیت! میرے مالک تو مجھے عطا کر دے۔میں ایسا فقیر ہوں کہ تو مجھے جو بھی عطا کرے میں اس پر شکرگزار ہوں۔ میں بخشش کا طالب ہوں اور تیرے در پر آن پڑا ہوں۔ میرے اللہ میں تیرے گھر کی دہلیز پر کھڑا ہوں اور میرے پاؤں من من کے ہو گئے ہیں۔
تیرے جلال کی قسم مجھے کھڑا ہونا محال ہے، تیرا ایسا دبدبہ ہے کہ جی میں آتی ہے بھاگ جاؤں! مگر کہاں؟ اے میرے مولا! میں تجھ سے بھاگ کر تیری طرف آتا ہوں۔ اور میرا سر بھی ہزاروں لاکھوں سروں کے اس قافلے کا حصہ بن جاتا ہے جومیرے سامنے میرے دائیں طرف کو سرک رہا ہے۔ میں چل پڑتا ہوں، مگر نہیں! میں کہاں چل پڑتا ہوں! میری نگاہیں تیری پھیلتی ہوئی چادر میں کسی غیر مرئی نقطے کی تلاش میں ہیں۔ چادر پھیل رہی ہے! طواف کا دائرہ بھی پھیل رہا ہے۔ سروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ میرے من من کے پاؤں حرکت کرنے لگتے ہیں، آنسوؤں کی رفتار اور مقدار بڑھنے لگتی ہے، دھڑکنیں سینے کی بجائے کانوں میں گونجتی ہیں۔ اور پھر میں تیری بے پایاں رحمتوں کی پناہ میں آ جاتا ہوں۔

ایک نامکمل تحریر ۔۔۔ از محمد یعقوب آسی
11 فروری 2016ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں