جمعرات، 17 مارچ، 2016

زُبانِ یارِ من


زُبانِ یارِ من
 علم دوست احباب کی نذر

حرفِ غایت
پہلا حصہ : اسباقِ فارسی
دوسرا حصہ: زبانِ یارِ مَن


حرف غایت
برصغیر پاک و ہند کی تہذیب کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں کی ثقافت پر جتنا اثر فارسی نے چھوڑا ہے، شاید کسی اور زبان نے نہیں چھوڑا۔ سب سے اہم اور بنیادی حقیقت اردو کا رسم الخط ہے جو اسے فارسی نے عطا کیا۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ جملے کی ساخت ہو، یا ترکیب سازی، معاملہ بندی ہو یا ایماء و اختصار ، فارسی کا اثر بہ ہر انداز نمایاں ہے۔ اردو شاعری بالخصوص فارسی سے فیض یاب ہوئی ہے، اکثر شعری اصناف فارسی سے آئی ہیں یا فارسی کے وسیلے سے اردو میں متعارف ہوئی ہیں۔ اردو کے اساتذہ،چوٹی کے شعراء اور دیگر اہلِ ہنر کی ایک طویل فہرست بنتی ہے جو نہ صرف اردو بلکہ فارسی زبان و بیان میں بھی ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ بہت سوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر بھی کہے، نثر بھی لکھی۔ اقبال کے حوالے سے تو یہاں تک منقول ہے کہ ان کے نزدیک فارسی ہی ان کے خیالات اور فلاسفی کو ابلاغ عطا کرتی تھی۔ ہماری اردو شاعری کی بنیاد رکھنے والوں کے ہاں غزل کے ایسے نمونے بھی ملتے ہیں جن میں ایک مصرع اردو میں تو دوسرا فارسی میں ہے۔ نثر کو لے لیجئے، جملے کی ساخت سے لے کر قواعد و انشاء تک فارسی کا اثر نمایاں ہے۔
ہماری گرامر اور گردان کی بنیاد فارسی پر ہے، اور ترکیب سازی کے سارے طریقے فارسی کے ہیں۔ ایک بڑی عجیب بات حرف و معنی سے تعلق رکھنے والے طبقے کے حوالے سے دیکھنے میں آئی ہے کہ فارسی کا رسمی علم نہ رکھنے کے باوجود ان کے ہاں فارسی کا صحیح استعمال پایا جاتا ہے(یہ در اصل فارسی کے اردو میں رچاؤ کا اثر ہے)۔ تاہم جب کہیں فارسی شاعری یا نثر سے براہ راست واسطہ پڑ جائے تو ایسے احباب کے لئے مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ اس مشکل پر قابو پایا جائے اور فارسی زبان کے قواعد سے لازمی حد تک شناسائی حاصل کی جائے۔ حرف و معنی سے وابستہ احباب کے پاس اتنا ذخیرہ الفاظ ضرور موجود ہوتا ہے کہ انہیں یہ قواعد نہ تو اجنبی محسوس ہوں گے اور نہ ہی وہ ان کے اطلاق میں کوئی دقت محسوس کریں گے۔ ان اسباق کو ترتیب دیتے وقت ہم نے ایسے ہی احباب کو پیشِ نظر رکھا ہے، تاہم اتنی تفصیلات ضرور فراہم کر دی ہیں کہ فارسی پڑھنے والا عام طالب علم بھی ان اسباق سے استفادہ کر سکے۔
۲۰۰۱ء میں لکھا گیا یہ کتابچہ تھا دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ’’اسباقِ فارسی‘‘ اور دوسرا حصہ ’’زبانِ یارِ مَن‘‘کے زیرِ عنوان ’’ماہنامہ کاوش، ٹیکسلا‘‘ میں قسط وار شائع ہوا، بعد ازاں انٹرنیٹ پر ایک ادبی فورم ’’انگریزی اردو فارسی عربی‘‘ میں پیش کیا گیا۔ سیکھنے سکھانے کے عمل میں تاثراتی تبصروں سے کہیں زیادہ اہمیت سوالوں اور ان کے شافی جوابات کی ہوا کرتی ہے۔انٹرنیٹ پر اکثر تبصرے تاثرات پر مشتمل تھاے کچھ پر مغز سوالات بھی اٹھائے گئے، جن کی روشنی میں ضروری قطع و برید کے بعد یہ صورت بن پائی ہے۔ بہ این ہمہ ان اسباق کا بنیادی مقصد فارسی زبان کے قواعد سکھانا نہیں ہے، بلکہ اہلِ قلم احباب کی فارسی سے شناسائی کو دوستی میں بدلنا ہے۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ کتابی اور گفتاری زبان میں عام طور پر خاصا فرق ہوتا ہے، کچھ مزید فرق وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر گفتاری فارسی کا ایک لفظ ’’میخم‘‘ بہت عام مستعمل ہے۔ اس کی تشریح قواعد کے تناظر میں شاید ہی ممکن ہو۔ یہ در اصل روایتی ’’می خواہم‘‘ کی مخفف صورت ہے۔ہمارے اہل قلم اور قاری دونوں طبقوں کا واسطہ زیادہ ترروایتی کتابی فارسی سے ہوتا ہے، لہٰذا میں نے اپنی اور آپ کی سہولت کے مقصد سے اس کو وہیں تک محدود رکھا ہے۔ زبانِ فارسی جدید اور اس کے مروجہ لہجوں سے شغف رکھنے والے احباب کو مطمئن نہیں کر سکوں گا، کہ اُن کے پاس بہت بہتر، بہت وسیع اور بہت تازہ علم کے خزانے میسر ہیں۔
دوسرے حصے ’’زبانِ یارِ من‘‘ میں ساختیات کے بارے میں مختصر مختصرتوضیحات ہیں اور مثالوں سے اپنی بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذخیرۂ الفاظ کا احاطہ تو اہلِ زبان نہیں کر پاتے، میں بھلا کسی شمار قطار میں کہاں۔ مجھے اپنے قارئین سے بجا طور پر یہ امید ہے کہ میری اس کاوش کا بالاستعیاب مطالعہ فرمائیں اور مجھے میری علمی کوتاہیوں پر خبردار کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب راہنمائی بھی کریں۔

محمد یعقوب آسیؔ
۲؍ اپریل ۲۰۱۴ء


پہلا حصہ
اسباقِ فارسی

اسباق کے لئے تیاری کے طور پر فارسی کے حروفِ تہجی کا غیر رسمی تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ مختصراً یوں کہئے کہ فارسی کے حروفِ تہجی قریب قریب اردو والے ہی ہیں، کچھ بنیادی باتیں دیکھ لیجئے۔
۔۱۔ ٹ، ڈ، ڑ ... کو نکال دیجئے۔
۔۲۔ ذال: ایک مکتبہ فکر اس کو فارسی کے حروف تہجی میں شامل کرتا ہے ایک نہیں کرتا۔ اس ضمن میں میرا مضمون ’’گذارش یا گزارش‘‘ احباب کے علم میں ہے۔ ہم فی الحال ’’ذ‘‘ کو فہرست میں شامل رکھتے ہیں۔
۔۳۔ ’’ژ‘‘ بھی فارسی سے خاص ہے۔ علمائے زبان اسے ’’زائے فارسی‘‘ کا اصطلاحی نام دیتے ہیں۔
۔۴۔ نون کی حیثیت میں تھوڑا سا فرق ہے، میرا مضمون ’’نون فارسی اور نون غنہ ‘‘ بھی احباب دیکھ چکے۔ 
۔۵۔ واوِ معدولہ: فارسی کے بعض الفاظ میں واو لکھنے میں آتی ہے پڑھنے میں یا تو آتی ہی نہیں یا پھر اس کا عمل حرکت پیش جیسا ہوتا ہے۔ مثلاً: خواب، خوار، خوردن، خویش، خوش، خود، خورشید، خواہش، خواندن؛ وغیرہ؛ ایسی واو کو واوِ معدولہ کہتے ہیں۔ واوِ معدولہ جہاں املاء میں شامل ہو اُسے شامل رکھنا پڑے گا، ہم اس کو حذف نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر لفظ خوار کو ہم خار نہیں لکھ سکتے۔ موٹی سی علامت دیکھ لیجئے کہ کسی لفظ میں حرف ’’خ‘‘ کے فوراً بعد واو ہو اور اس کے بعد ’’الف‘‘ یا ’’یائے‘‘ واقع ہو تو ایسی واو معدولہ ہو سکتی ہے (ضروری نہیں): خواب، خوار، خویش میں واوِ معدولہ ہے جب کہ خواتین میں ایسا نہیں۔ جہاں ’’خو‘‘ کے بعد ’’ر‘‘، ’’ش‘‘ یا ’’د‘‘ واقع ہو وہ بھی واوِ معدولہ ہو سکتی ہے (ضروری نہیں): خوردن میں واو معدولہ ہے خوراک میں نہیں؛خوشی، خوشا میں واو معدولہ ہے خوشہ میں نہیں۔ امر واقع یہی ہے کہ ہمیں اہل زبان کا تتبع کرنا ہو گا۔
۔۶۔ کسی قدر تفصیل پہلے حصے میں شامل ہے۔
۔۷۔ ہائے ہوز: جسے عرفِ عام میں چھوٹی ہ کہتے ہیں، فارسی میں (ہ) اور (ھ) دونوں صورتوں میں لکھی جاتی ہے۔ اس سے لفظ کی ساخت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
۔۸۔ دوچشمی ھ والے مرکب حروف: ’’بھ، پھ، تھ، ٹھ .......‘‘ فارسی میں نہیں ہیں۔
۔۹۔ اردو میں یائے کی دو صورتیں ہیں۔ المعروف چھوٹی ی: عموماً یائے معروف کے لئے، کہ اس کے ماقبل پر علامت زیر ہوتی ہے، لکھی جائے نہ لکھی جائے: دی، لی، پی، سی، وہی، کسی، مالی؛ وغیرہ۔ اور، بڑی ے: جب اس کے ماقبل پر کوئی اعراب نہ ہو تو اِسے عام طور پر یائے مجہول سمجھا جاتا ہے: لے، دے، دیکھے، سنے، بیر، دیر ؛وغیرہ۔ اس کے ماقبل پر زبر ہو تو یہ یائے لین کہلاتی ہے: مَے، لَے، کَیسا، پَیسے (اول یائے لین اور دوم یائے مجہول)، کَیسی (اول یائے لین اور دوم یائے معروف)، دیسی (اول یائے مجہول اور دوم یائے معروف)۔لفظ کے اندر واقع ہونے کی صورت میں یائے لین، یائے مجہول اور یائے معروف کی شناخت صرف ماقبل پر واقع ہونے والی حرکت یا اعراب ہے: شِیشے (اول یائے معروف اور دوم یائے مجہول)، وَیسی (اول یائے لین اور دوم یائے معروف)، چِینی (دونوں یائے معروف)۔ تاہم عمومی مطالعے میں ہمیں اعراب کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔ فارسی میں یائے کی دونوں میں سے کوئی سی صورت لکھی جا سکتی ہے،تاہم واضح رجحان گول ’’ی‘‘ لکھنے کا ہے۔ اس کو پڑھنے کا موقع محل اپنا اپنا ہوتا ہے۔ یائے لین تو بالکل عربی اور اردو کے مماثل ہوتی ہے۔ یائے مجہول گفتاری فارسی کے زیادہ تر لہجوں میں نہیں ہے۔ اس کا زیادہ جھکاؤ یائے معروف کی طرف ہوتا ہے اور ترجیحات اپنی جگہ مؤثر ہوتی ہیں۔ ’’یائے مستور‘‘ کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔




پہلا سبق
کلمہ اور مہمل، اسم، اسمِ نکرہ، اسمِ معرفہ، اسمِ ضمیر، ضمیر متصل اور منفصل
کلمہ اور مہمل: ہر وہ بامعنی لفظ جو ہم ادا کرتے ہیں، کلمہ کہلاتا ہے۔ اس کے برعکس ایسی آوازیں یا الفاظ جو فی نفسہٖ کوئی معنیٰ نہ رکھتے ہوں انہیں مہمل کہا جاتا ہے۔ کلمہ کی تین صورتیں ہیں: اسم، فعل اور حرف
اسم: کسی بھی چیز، انسان، جگہ، حالت، وقت کے عام یا خاص نام کو جو اس کی شناخت بہم پہنچائے اسم کہا جاتا ہے۔ اسم کی چند اہم اقسام درج کی جاتی ہیں:
اسم نکرہ: وہ اسم جو کسی عام شے یا جگہ کو ظاہر کرے، اس سے مذکورہ شخص، شے یا جگہ پوری طرح مذکورنہیں ہو پاتا۔ مثلاً: مرد، شہر، گلستان، شارع، روز، فرس۔ ان اسماء میں مرد کے بارے میں نہیں معلوم کہ اس کا نام کیا ہے، یہی معاملہ شہر اور شارع کا ہے اور یہ بھی مذکور نہیں کہ آیا فرس سے مراد کوئی خاص گھوڑا ہے یا گھوڑا بطور قِسم مذکور ہے۔
اسم معرفہ: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ کسی خاص شخص، جگہ، شے کو ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً: محمد بن قاسم، احمد، سلطان، گلستانِ فاطمہ، دُلدُل، لاہور، تہران، وغیرہ میں اشیاء و انفس کے نام ان کی تخصیص کر دیتے ہیں۔
اسم ضمیر: بسا اوقات گفتگو اور جملوں میں ہم اشخاص کے ناموں کی بجائے ایسے مختصر کلمات استعمال کرتے ہیں جو، ان ناموں کی طرف مکمل حوالہ بناتے ہیں۔ مثلاً: میں، وہ، آپ، تجھے (من، اُو، شما، تُرا) وغیرہ۔
ضمیر کی دو صورتیں ہیں: منفصل اور متصل۔ ضمیر منفصل وہ ہے جہاں اسم ضمیر ایک مکمل اور آزاد لفظ کی صورت میں ہو۔ اُو (وہ واحد: واحد غائب)، ایشان (وہ جمع: جمع غائب)، تو (تُو، آپ: واحد حاضر)، شما (تم، آپ: جمع حاضر)، مَن (مَیں: واحد متکلم)، ما (ہم: جمع متکلم)
ضمیر منفصل:
صیغہ غائب: (۱) واحد او : وہ: (۲) جمع ایشان : وہ
صیغہ حاضر: (۳) واحد تو : تو: (۴) جمع شما : تم، آپ
صیغہ متکلم: (۵) واحد من : میں: (۶) جمع ما : ہم
یہاں صیغوں کی ترتیب نوٹ کر لیجئے۔ گردان میں ہر جگہ یہی ترتیب ہوتی ہے۔ یعنی: (مذکر مؤنث دونوں کے لئے) پہلا صیغہ: واحد غائب، دوسرا: جمع غائب،تیسرا: واحد حاضر،چوتھا: جمع حاضر، پانچواں: واحد متکلم،اور چھٹا: جمع متکلم۔
متصل ضمیر: ایسے ضمائر جس اسم کے ساتھ آئیں اس کے ساتھ مرکب اضافی بناتے ہیں۔ مثلاً: کتابم (میری کتاب) میں م، قلمت (تیرا قلم) میں ت۔ یہ اپنے ماقبل سے لفظاً جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ مرکب اضافی کے دو جزو ہوتے ہیں۔ مضاف وہ اسم ہے جس کا کسی دوسرے اسم (یا، ضمیر) سے تعلق ہو۔ دوسرے کو مضاف الیہ کہا جاتا ہے۔ اوپر کی مثالوں میں کتاب اور قلم مضاف ہیں جب کہ میں اور تو ان کے بالترتیب مضاف الیہ ہیں۔
مرکب اضافی کے لئے متصل ضمائر کی ترتیب ایک مثال کی صورت میں دیکھ لیجئے:
ضمیرمتصل
صیغہ غائب: کتابش (اس کی کتاب)، کتابشان (اُن کی کتاب)
صیغہ حاضر: کتابت (تیری کتاب)، کتابتان (تمہاری کتاب)
صیغہ متکلم: کتابم (میری کتاب)، کتابمان (ہماری کتاب)
ترتیب یہی ہوتی ہے: پہلا صیغہ: واحد غائب (ش: اس کا، اس کی، اس کے)، دوسرا: جمع غائب (شان: ان کا، ان کی ان کے)، تیسرا: واحد حاضر (ت: تیرا، تیری، تیرے)،چوتھا: جمع حاضر (تان: تمہارا، تمہاری، تمہارے)،پانچواں: واحد متکلم (م: میرا، میری، میرے)،اور چھٹا: جمع متکلم (مان: ہمارا، ہماری، ہمارے)۔
مضاف مکسور ہوتا ہے اور مضاف الیہ سے پہلے واقع ہوتا ہے:۔ نورِ نظر (نظر کا نور: مراد ہے بیٹا)، شہرِ خموشان (خاموشوں کا شہر: مراد ہے قبرستان)، آوازِ سگان (کتوں کی آواز یا بھونکنا)، رزقِ گدا (گدا کا رِزق)، نظرِ کرم (کرم کی نظر: مراد ہے عنایت، مہربانی)، ہوائے شہر (شہر کی ہوا: مراد ہے لوگوں کا مزاج اور رویہ)، جائے پناہ (پناہ کی جگہ: مراد ہے محفوظ ٹھکانا)؛ وغیرہ میں نور، شہر، آواز وغیرہ مضاف ہیں اور نظر، خموشان، سگان وغیرہ اِن کے مضاف الیہ ہیں۔ اسی نہج پر ہم اسمائے ضمیر منفصل کے ساتھ ترکیبِ اضافی بناتے ہیں۔ یارِ من (میرا دوست)، سوئے تو (تیری سمت)، میہنِ ما (ہمارا ٹھکانا)، کارِ شما (تمہارا کام)؛ وغیرہ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے: کتابم (میری کتاب) کہا جائے یا کتابِ من؟ دلِ تو (تیرا دل) کہا جائے یا دِلت؟ کہ ان کے معانی مماثل ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ شعر میں لفظیاتی تقاضوں کے پیشِ نظر شاعر اپنی صوابدید کے مطابق ضمیر متصل یا ضمیر منفصل کو استعمال میں لا سکتا ہے، نثر میں لفظیات کی صوتیت اور بہاؤ کے پیش نظر جو مناسب تر ہو۔ بات وہی ہے کہ ہمیں اہلِ زبان کا تتبع کرنا ہو گا۔
شذرہ: گفتم (میں نے کہا) میں م، شنیدی (تو نے سنا) میں ی، دیدیمش (ہم نے اسے دیکھا) میں یم اور ش۔ یہ افعال کے اعتبار سے ہوتے ہیں۔ افعال کی گردان میں صیغوں کی تفصیل بعد میں آئے گی۔

دوسرا سبق
اسم اشارہ، اسم استفہام، اسمِ موصول، اسمِ کیفیت، اور اسمِ صفت
اسم اشارہ: کسی اسم وغیرہ کی طرف اشارہ کرنے والے کلمات، یہ دو ہیں: اشارہ قریب (یہ: این۔ جمع: ایناں، اینہا) ، اور اشارہ بعید (وہ: آن۔ جمع: آناں، آنہا)۔ فارسی میں جمع بنانے کے دو معروف طریقے ہیں: (ا) واحد کے آخر میں ’’ہا‘‘ کا اضافہ جیسے کتابہا، قلمہا، چیزہا، کوزہ ہا؛ وغیرہ۔ (۲) واحد کے آخر میں ’’ان‘‘ کا اضافہ جیسے مردان، کارکنان، صاحبان؛ وغیرہ۔ عام طور پر واحد غیر عاقل کے آخر میں ’’ہا‘‘ بڑھاتے ہیں اور واحد عاقل کے آخر میں ’’ان‘‘۔ مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔ اسمِ اشارہ جمع (قریب: اینان، اینہا؛ بعید: آنان، آنہا) میں بھی یہ امر پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ اگر این یا آن کا اشارہ کسی واحد عاقل کی طرف ہو مثلاً: مرد، زن، طفل، عالم، کارکن تو اشارہ جمع کی صورت اینان، آنان ہو گی۔ اور اگر این یا آن کا اشارہ کسی واحد غیر عاقل کی طرف ہو مثلاً: شے، کتاب، تختی، میز، طیارہ وغیرہ، تو اشارہ جمع کی صورت اینہا، آنہا ہو گی۔ 

یاد رہے کہ اسم ضمیر اور اسم اشارہ کا محل مختلف ہوتا ہے۔ اسمِ ضمیر کسی دوسرے اسم کا قائم مقام ہوا کرتا ہے جب کہ اسمِ اشارہ کی اپنی ایک معینہ حیثیت ہے۔ اسم ضمیر پر بات پہلے ہو چکی ہے۔
اسمِ استفہام: وہ اسم ہے جس میں سوال پایا جاتا ہو۔ مثلاً: کہ (کون)،کجا (کہاں)، چہ (کیا)، چوں (کب، کیسے)؛ وغیرہ۔ اسمِ استفہام جہاں سوالیہ کی بجائے موصولی معنے دے گا اسمِ موصول کہلائے گا۔ مثلاً: کہ (جو شخص)،کجا (جہاں)، چہ (جو چیز)، چوں (جب، جیسے)؛ وغیرہ۔
یہاں فارسی کے دو لفظ خاص طور پر سمجھ لیجئے: ’’ہر‘‘ اور ’’کہ‘‘۔ اردو میں ’’ہر‘‘ کے وہی معانی ہیں جو انگریزی میں every کے ہیں اور عربی میں ’’کل‘‘ کے۔ یہ لفظ جس اسم پر داخل ہو، اُس کی نوع کو مکمل احاطہ کرتا ہے۔ مثلاً: ہر شخص، ہر گھر، ہر جگہ، ہر کام، ہر وقت؛ وغیرہ۔ فارسی میں ’’ہر‘‘ اِن معانی میں بھی آتا ہے اور اسمِ استفہام کو قطعی طور پر اسمِ موصول میں بدلنے کے معانی میں بھی۔ مثلاً: کہ (کون، جو شخص)، ہرکہ (جو شخص)، چہ (کیا، جو شے)، ہر چہ (جو شے)،ہر کجا (جہاں کہیں)، وغیرہ۔ ہرچہ بادا باد (جو ہو، سو ہو)۔ گلستانِ سعدی میں ایک بہت خوبصورت جملہ ہے: ’’ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت‘‘ (جو بھی آیا اُس نے نئی عمارت بنائی)۔ ایک شعر دیکھئے:
ہر کس کہ گوید حرفِ زشت
جایش نباشد در بہشت
(جو کوئی بری بات کرے گا، اس کی جگہ بہشت میں نہیں ہوگی)
لفظ ’’کہ‘‘ اردو میں حرفِ عطف بھی ہے کہ یہ دو جملوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ دوسرا جملہ عام طور پر پہلے جملے کی بات کو آگے بڑھاتا ہے یا اس کی وجہ یا تفصیل وغیرہ بیان کر رہا ہوتا ہے۔ فارسی میں یہ اِن معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے مگر کم کم۔ بسا اوقات کچھ نافیہ جملوں میں اس ’’کہ‘‘ کو حذف کرنا راجح ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
(۱) ’’عطر آنست کہ خود ببود نہ عطار بگوید‘‘۔ ہم لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑی غلطی بھی کر سکتے ہیں: ’’عطر وہ ہے کہ خود مہکے نہ عطار کہے‘‘ یعنی؟ ’’نہ خود مہکے نہ عطار کہے‘‘؟ ظاہر ہے یہ درست ترجمہ ہرگز نہیں۔ اس جملے میں لفظ ’’کہ‘‘ اردو والے معانی میں آیا ہے؛ اور لفظ ’’نہ‘‘ کا درست مفہوم یہاں ’’نہ کہ‘‘ ہے: ’’عطر وہ ہے کہ خود مہکے نہ کہ عطار کہے‘‘۔ اب بات واضح ہو جاتی ہے کہ عطر کی اصل شناخت اس کی اپنی مہک ہے، عطار کہے یا نہ کہے بات یکساں ہو گی۔ 
(۲) ’’بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال، تونگری بہ دل است نہ بہ مال‘‘۔ یہاں دونوں مقامات پر بالکل مثالِ بالا والی بات صادق آتی ہے۔ اس کا درست مفہوم یہ ہے: ’’بزرگی کا پیمانہ عقل ہے نہ کہ عمر، اور تونگری کا پیمانہ دل (دریا دلی) ہے نہ کہ مال و دولت‘‘۔
اسم استفہام اور اسم موصول ’’کہ‘‘ کی وضاحت اوپر ہو چکی۔ فارسی میں ’’کہ‘‘ اسمِ صفت بھی ہے؛ یعنی چھوٹا۔ اس کا متضاد ’’مِہ‘‘ ہے؛ یعنی بڑا۔ یہ چھوٹائی یا بڑائی تن و توش کے حوالے سے بھی ہو سکتی ہے اور قدر و قیمت کے حوالے سے بھی۔

کسی کیفیت، خوبی، خامی، وصف کے نام کو اسم کیفیت کہا جاتا ہے۔ نیکی، بدی، خوشی، غم، تکبر، غرور، مسکنت، جہالت، وغیرہ۔ اسمِ کیفیت کم و بیش وہی ہے جسے اردو اور عربی میں مجرد اور انگریزی میں abstract noun کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسمِ کیفیت کسی وصف کا نام ہے جبکہ اسمِ صفت کسی اسم پر کوئی وصف کے لاگو ہونے سے مشروط ہے گویا اسم صفت ایسا اسم ہے جو کسی اسم کا کوئی وصف بیان کرے۔ اس کی صورت نیک، بد، خوش، مغموم، متکبر، مسکین، جاہل وغیرہ ہو گی۔ مِہ (بڑا)، کِہ (چھوٹا) اور بِہ (اچھا) کی مثالیں اوپر بیان ہو چکیں۔ انگریزی میں adjective کی تین ڈگریوں کی طرح فارسی میں اسمِ صفت کی تفضیل (فضلیت) کے تین درجے ہوتے ہیں: (۱) پہلا درجہ تفضیلِ نفسی کہلاتا ہے؛ اس میں کسی اسم کا صفت کے لحاظ سے کسی دوسرے سے کوئی تقابل نہیں ہوتا۔ مثلاً: یہ کتاب اچھی ہے، وہ گھر کشادہ ہے، اسلم ذہین آدمی ہے، منصور کی کار خوبصورت ہے؛ وغیرہ۔ اچھی (خوب، بہ)، کشادہ، ذہین، خوبصورت (حسین) میں کسی دوسری کتاب، گھر ، شخص یا کار سے کوئی تقابل مذکور نہیں ہے۔ (۲) دوسرا درجہ اپنی نوع کی کسی دوسری ایک یا زیادہ اشیاء، شخصیات، مقامات وغیرہ سے تقابل کی صورت ہے۔ مثالیں وہی آگے بڑھاتے ہیں: میری کتاب اسلم کی کتاب سے اچھی ہے، نسیم کا گھر حمید کے گھر کی نسبت کشادہ ہے، جمیل اپنے دونوں دوستوں سے زیادہ ذہین ہے، حمید کی کار علی کی کار سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اس صورت میں اسمِ صفت پر جزوِ لفظ ’’تر‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں: خوب تر (بہتر)، کشادہ تر، ذہین تر، حسین تر؛ وغیرہ۔ (۳) تیسرا درجہ تفضیلِ کل کا ہے۔ اس میں تقابل اپنی نوع کی جملہ اشیاء، شخصیات، مقامات وغیرہ سے ہوتا ہے: علم ریاضی پر یہ بہترین کتاب ہے، نوید کا گھر ساری بستی میں سب سے کھلا ہے، جمیل سکول بھر میں سب سے ذہین ہے، کار کا یہ ماڈل حسین ترین ہے۔ اس صورت میں اسمِ صفت پر جزوِ لفظ ’’ترین‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں: خوب ترین (بہترین)، کشادہ ترین، ذہین ترین، حسین ترین؛ وغیرہ۔

تفصیلِ نفسی :: تفضیلِ بعض :: تفضیلِ کل
کہ (چھوٹا)، کہتر (مقابلۃً چھوٹا)، کہترین (سب سے چھوٹا)
مہ (بڑا)، مہتر (مقابلۃًبڑا)، مہترین (سب سے بڑا)
بہ (اچھا)، بہتر (مقابلۃً اچھا)، بہترین (سب سے اچھا)


تیسرا سبق
ہائے ہوز کی دو صورتیں، نون فارسی، یائے مستور، اسمِ ظرف، اسمِ تصغیر، اسمِ مکبر، مرکب ناقص: تراکیب (اضافی، توصیفی، عطفی، عددی)، حرفِ وصل، حرفِ عطف، حرفِ شرط، حرفِ وجہ و جزا، حرفِ ندا، حرفِ نافیہ، حرف اثبات

فارسی میں دوچشمی ھ والے حروف (بھ پھ تھ ٹھ .... وغیرہ) نہیں ہیں، لہٰذا ہائے ہوز کو گول (ہ) یا دوچشمی (ھ) جیسے چاہے لکھ لیجئے۔ اردو کی طرح یہاں یائے معروف اور یائے مجہول کی تخصیص کتابت میں لازم نہیں۔ فارسی میں یائے مجہول (ے) جہاں کچھ لہجوں میں ہے بھی تو اس کو قریب قریب یائے معروف (ی) کی طرح ادا کرتے ہیں۔ فارسی املاء و کتابت میں دونوں میں سے کوئی صورت بھی لکھی جا سکتی ہے۔

فارسی کے اسماء و افعال جن کا آخری حرف الف یا واو ہو۔ جیسے ہوا، خوش بو، آہو، ادا، خدا: وغیرہ اِن کے آخر میں یائے چھُپا ہوا ہوتا ہے جو اکثر لکھا نہیں جاتا یا لکھا بھی ہو تو بولا نہیں نہیں جاتا۔ تاہم جہاں کہیں ( توصیف، اضافت، جمع وغیرہ کی صورت میں) ایسا ی متحرک ہو جاتا ہے تو اس کو کہیں ی اور کہیں ہمزہ کی صورت میں لکھتے بھی ہیں اور ادا بھی کرتے ہیں۔ ہوائے غم، خوش بویات، آہوئے تاتار، خوش ادایان، ردائے سبز، خدایانِ بحر و بر۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ اسے ہم نے یائے مستور کا نام دیا ہے (س ت ر : ستر: چھُپنا)۔ کچھ لوگ اس کو لکھتے تو ہیں مگر ساکن ہو تو صوتیت سے ساقط کر دیتے ہیں (خوشبوی، ہوای، ادای، خدای، آہوی) اور کچھ لوگ لکھتے بھی نہیں (خوشبو، ہوا، ادا، خدا، آہو)۔ جب یہ متحرک ہو تو حسبِ موقع کہیں ’’ی‘‘ کی صورت میں اور کہیں ’’ئے‘‘ کی صورت میں لکھتے ہیں:خدایانِ بحر و بر، خوبرویان:
چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہئے
آہوئے تاتار، ہوائے تیز (اصلاً آہویِ تاتار، اور ہوایِ تیز)۔ واوِ عطفی کی صورت میں یائے مستور لکھی ہو یا نہ لکھی ہو ، صوتیت ہمزہ کی پیدا ہوتی ہے: ’’محاورہ بین خدای و انسان‘‘۔ اس میں خدا کے بعد یائے مستورہے، اور ہم ’’خدا و انسان‘‘ بھی لکھ سکتے ہیں۔ اردو میں اس کی صوتیت ’’خدا ؤ انسان‘‘ معروف ہے، جب کہ فارسی انداز میں اسے ’’خدا یو انسان‘‘ ادا کیا جاتا ہے۔


یائے کی ایک اور صفت جو فارسی، عربی اور اردو میں مشترک ہے، اُسے ہم اپنی سہولت کے لئے صفتِ نسبتی کا نام دیتے ہیں۔ یائے نسبتی جس اسم سے ملحق ہو (آخر میں جمع ہو) اُس کے ساتھ کسی نسبت، حوالہ وغیرہ کا اظہار کرتی ہے۔ مثال کے طور پر خدا سے خدائی، ہوا سے ہوائی، لاہور سے لاہوری، روم سے روم، رَے سے رازی، طے سے طائی، حضرموت سے حضرمی، اخلاق سے اخلاقی، آفاق سے آفاقی، وقت سے وقتی،دفاع سے دفاعی؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ واضح رہے کہ خستگی، پوشیدگی، برہمی، ترشی، تلخی وغیرہ صفتِ نسبتی میں نہیں آتے بلکہ یہ کیفیات کے نام ہیں اور ان کی بنیاد صفت یا اسمِ صفت پر ہوتی ہے۔

اسم ظرف: یہ دو ہوتے ہیں، ظرفِ زمان میں وقت کا معنیٰ پایا جائے جیسے: صبح (سویرا)، امروز (آج)، امشب (آج رات)، دیروز (کل: گزشتہ)، فردا (کل: آئندہ)، ماہ (مہینہ)، وغیرہ۔ ظرف مکان میں جگہ کا معنیٰ پایا جاتا ہے مثلاً: عیدگاہ، جاء نماز، دانش کدہ، مے کدہ، قحبہ خانہ، لاہور، تہران؛ وغیرہ۔ اسمِ ظرف اصولی طور پر اسمِ معرفہ کی ایک قسم ہے جیسے اسمِ عَلَم، اسمِ ضمیر وغیرہ۔ اردو اور عربی کی طرح فارسی میں بھی ظرفِ زمان اور ظرفِ مکان کے ساتھ آنے والے اکثر حرفِ جر باہم مماثل ہوتے ہیں: آج سے کل تک، گھر سے مسجد تک؛ دن میں، بستی میں؛ فلاں پُل یا موڑ سے پہلے، فلاں وقت سے پہلے؛ دو دن کے اندر اندر، شہر کے اندر اندر؛ وغیرہ۔
اسمِ تصغیر: کسی اسم کے معنوں میں چھوٹائی، کمتری وغیرہ کا مفہوم داخل کرنے سے اسم تصغیر حاصل ہوتا ہے۔ اسمِ تصغیر بنانے کے لئے اسم کے بعد کوئی علامتِ تصغیر: ک، زہ، چہ وغیرہ لگا دیتے ہیں۔ مثلاً: صندوق سے صندوقچہ، طفل سے طفلک (لفظ ڈھولک اسی نہج پر بنا ہے، بلکہ اس کی اصل ’’دُہلک‘‘ ہے: چھوٹا ڈھول ) ، مشک سے مشکیزہ، وغیرہ۔ کہاں کون سی علامتِ تصغیر لگے گی، یہ اہلِ زبان پر ہے، ہمیں ان کا تتبع کرنا ہے۔ یاد رہے کہ صحنک، عینک، طفلک؛ وغیرہ کو بیٹھک، لیکھک، گندھک وغیرہ سے خلط ملط نہ کریں، اُن کی اصل ہی اور ہے۔

اسمِ مکبّر: کسی اسم کے معنوں میں بڑائی کا مفہوم داخل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسم مکبر بنانے کے لئے اسم سے پہلے علامت تکبیر :دیو، شہ، شاہ وغیرہ لگاتے ہیں۔ مثلاً: زور سے شہ زور، کمان سے دیو کمان، تیر سے شہتیر؛ و غیرہ۔ یہاں بھی ہمیں اہلِ زبان کے ساتھ چلنا ہے۔

ترکیب (مرکب ناقص): کلمات کا وہ مجموعہ جس کا معنیٰ تو بنتا ہو مگر وہ مکمل جملہ نہ ہو، مرکب ناقص کہلاتا ہے، اسے ترکیب بھی کہتے ہیں ۔ فارسی میں چار طرح کی تراکیب نسبتاً اہم ہیں: ترکیب اضافی، ترکیب توصیفی، ترکیب عطفی اور ترکیب عددی۔
ترکیب اضافی پر کچھ گفتگو اسمِ ضمیر کے تحت ہو چکی ہے۔ اس میں ایک اسم کا دوسرے اسم سے تعلق رکھنا ظاہر ہوتا ہے۔ علی کی کتاب (کتابِ علی)، لاہور کی سڑک (شارعِ لاہور) وغیرہ۔ نوٹ کریں کہ اردو کے بر عکس فارسی میں مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے۔ علامتِ اضافت (زیر) مضاف پر وارد ہوتی ہے۔ اگر مضاف الیہ کوئی اسم ضمیر ہو تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں: پہلی ضمیر منفصل کے ساتھ جیسے: زبانِ یارِ من (میرے دوست کی زبان)، شہرِ ما (ہمارا شہر)، سوئے تو (تیری طرف)؛ اور دوسری ضمیر متصل کے ساتھ جیسے: پدرش (اس کا باپ)، دوستانم (میرے دوست)۔
ترکیب توصیفی: ’’صفت‘‘ اور اس کی تفاضیل کا مطالعہ ہم پہلے کر چکے۔ ’’موصوف‘‘ وہ اسم ہے جس کا کوئی وصف بیان کیا جائے۔ صفت اور موصوف کے ملنے سے ترکیب توصیفی بنتی ہے۔ مثلاً: اچھا کام (کارِ خیر)، نیک لوگ (مردانِ نکو)، بڑا شہر (شہرِ بزرگ) وغیرہ۔ یہاں بھی اردو کے برعکس فارسی میں صفت بعد میں اور موصوف پہلے آتا ہے۔ علامتِ توصیف (زیر) موصوف پر وارد ہوتی ہے۔
ترکیب عطفی: دو یا زائد اسماء کو باہم ملانے کا نام ہے۔ اس مقصد کے لئے حرف عطف (و: بمعنی اور) سے کام لیا جاتا ہے۔ مثلاً باد و باران (ہوا اور بارش)، بال و پر (بال اور پر)، شمس و قمر (سورج اور چاند)؛ وغیرہ۔
حرفِ عطف (و: بمعنی اور، کہ، نہ) دو یا زیادہ اسماء، افعال وغیرہ کو کسی ایک مفہوم، حالت، فعل وغیرہ کے حوالے سے جمع کرتے ہیں۔
حرفِ وصل (لیکن، ولے، لہٰذا، تاہم، بہ ایں ہمہ، پس) بھی ایک حد تک حرفِ عطف کا کام کرتے ہیں۔ یہ بالعموم دو جملوں کو آپس میں ملاتے ہیں اور ان کے مفاہیم کے درمیان اثباتی، نافیہ یا کسی دیگر تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔
حرفِ شرط (گر، اگر، ار) بھی جو کسی ایک امر کو دوسرے سے مشروط کرتے ہیں۔

حرف کی کچھ مزید اقسام کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے، تفصیلات کی چنداں ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ ان میں سے اکثر کے معانی خود اپنی نوعیت کا اظہار کر دیتے ہیں۔
حرفِ ندا (اے، یا): یہ کسی کو مخاطب کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
حرفِ وجہ و حاصل (کہ، چونکہ، تا، تا کہ، تا آنکہ، پس): یہ کسی کام، حالت، نتیجہ وغیرہ کی وجہ یا حاصل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حرفِ نافیہ (نہ، نخیر، ولے): یہ نفی کا معنیٰ پیدا کرتے ہیں۔ حرفِ اثبات (بلے، نَعَم): یہ اثبات کا معنیٰ پیدا کرتے ہیں۔ حرفِ تاسف (کاش، حیف، افسوس، وائے): یہ غم اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ حرفِ انبساط (خوب، خوشا): یہ مسرت کا اظہار کرنے کے لئے بولتے ہیں۔ حرفِ تحیر (چہ خوب، چہ عجب، یا وحشت): ان میں حیرت کا اظہار ملتا ہے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔



چوتھاسبق
جار و مجرور، مرکب تام (جملہ)، جملہ اسمیہ کے اجزاء، کچھ آسان جملے
حرفِ جار یا حرفِ جر (ب، بہ، در، از، تا، بر، زیر، بالا، تحت، برای، ورای، برون، بیرون، درون، پس وغیرہ): یہ عام طور پر اسماء و مصادر کا ایک دوسرے سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ جس اسم پر کوئی حرفِ جار وارد ہو اُسے مجرور کہا جاتا ہے۔ لسانی قواعد اور اور معانی کے نظام عربی فارسی اردو تینوں زبانوں کے اپنے اپنے ہیں۔ لہٰذا حرفِ جر کا ایک سے دوسری زبان میں ترجمہ کسی خاص لفظ تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر عربی اور فارسی میں اردو کے لفظ ’’نے‘‘ (المعروف علامتِ فاعل) کا کوئی لفظی ترجمہ موجود نہیں، اس کو ہم اپنی زبان کے محاورے کے مطابق لاتے ہیں۔ مندرجہ بالا فہرست کے سادہ معانی پر ایک نظر ڈالنا مفید ہو گا۔
ب، بہ(ساتھ،پر، سے، کو)؛ در (اندر، میں، کے معاملے میں)؛ بر (پر، اوپر، کے متعلق)؛ زیر (نیچے، ماتحت)؛ بالا (اوپر: چھت یا بلندی کا تصور)؛ برائے (کے لئے، مقصد سے، ملکیت)؛ ورا، ورای، ورائے (بلند، اونچا، پہنچ سے باہر، سے قطع نظر)؛ برون، بیرون (باہر، ماسوا)؛ درون، اندرون (اندر، اندر اندر)؛ پس (پیچھے، بعد میں)؛ دوران (عرصہ یا وقت کے اندر)؛ وغیرہ۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جائیں گے، نئے الفاظ اور ان کے نئے نئے معانی سے شناسا ہوتے چلے جائیں گے۔ اس فہرست میں ہم نے ہرحرفِ جر کے بعد قوسین میں ان کے ایک سے زیادہ معانی درج کئے ہیں۔ اپنے اپنے سیاق و سباق میں محاورے کے مطابق ان میں سے کوئی ایک معنی درست ہو گا، سب کا بیک وقت درست ہونا مشروط نہیں۔ مثالیں اسمیہ اور فعلیہ جملوں میں آتی رہیں گی۔

جملہ (مرکب تام): الفاظ کا ایسا مجموعہ جس میں کم از کم ایک پوری بات یا ایک مکمل مفہوم پایا جائے اسے جملہ یا مرکب تام کہا جاتا ہے۔ جملہ کے متعدد اجزائے ترکیبی ہیں جن میں اسم، فعل اور حرف کی اہمیت بنیادی ہے۔ اسم اور حرف کے علاوہ ناقص مرکبات کا بیان پہلے ہو چکا۔
معنی کے اعتبار سے جملہ دو طرح کا ہوتا ہے جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ۔ جملہ فعلیہ کا بیان بعد میں آئے گا۔ تاہم مختصراً جان لیجئے کہ اس کی بنیاد فعل پر ہوتی ہے (فلان یہ کرتا ہے، کرے گا، نہیں کرتا، نہیں کرے گا، فلاں کو یہ کرنا چاہئے، اس نے کیا ہو گا، اے فلان! یہ کرو، وہ نہ کرو، فلان سے یہ کیا جائے گا، وہ نہیں کیا جائے گا، وغیرہ)۔
جملہ اسمیہ وہ ہے جس کی بنیاد اسم پر ہو اور اس میں ایک یا زائد اسماء کے بارے میں کوئی خبر دی گئی ہو ۔مثلاً: ایں کتاب از من است (یہ کتاب میری ہے)، آن صندلی خوب نیست (وہ کرسی اچھی نہیں ہے)، پدرِ نوشیرواں صاحبِ فراش بود (نوشیروان کا باپ بیمار تھا) و غیرہ۔ اس میں جس اسم کے بارے میں کوئی خبر دی گئی ہو اسے مبتدا اور باقی جملے کو خبر کہا جاتا ہے۔ خبر کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ کسی اسم کے کے بارے میں کچھ بتایا جاتا ہے، اور یہ فعل ناقص ’’ہونا‘‘ پر مبنی ہوتا ہے (ہے، نہیں ہے؛ تھا، نہیں تھا؛ ہو گیا، نہیں ہوا؛ ہو گا، نہیں ہوگا؛ وغیرہ)۔ عربی اور فارسی کے اسمیہ جملوں پر عربی کے قواعد لاگو نہیں ہوتے۔

کچھ بہت معروف اور مانوس افعال ناقصہ کی مختصر فہرست، گردان کے اجزاء اور ان کی ترتیب درج کی جا رہی ہے۔ گردان کا ہر عنصر صیغہ کہلاتا ہے، صیغوں کی ترتیب وہی ہوتی ہے جیسے ہم اسمِ ضمیر کے ضمن میں بیان کر چکے۔ فرق اسم اور فعل کی گردان میں یہ ہے کہ فعل کی جو بھی صورت قواعد کے مطابق بنے اس کے آخر میں کچھ خاص حروف شامل کئے جاتے ہیں جو فاعل (یا نائب فاعل) کے قائم مقام ہوتے ہیں۔
مناسب ہے کہ پہلے مصدر کی اہمیت واضح کر لی جائے۔ مصدر ایسا اسم ہے جس کے معانی میں کام یا فعل پایا جاتا ہے، تاہم اس میں فاعل مفعول یا زمانہ مذکور نہیں ہوتا۔ اردو کا فعل تام، انگریزی کا infinitive verb اور فارسی کا مصدر قریب قریب ایک ہی چیز ہیں۔ مصدر کی موٹی شناخت یہ ہے کہ اس کے آخری دو حرف ’’تَن‘‘ یا ’’دَن‘‘ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پریہ کچھ مصادر دیکھئے:
مصدر (فارسی) :: فعل تام (اردو) :: Infinitive Verb (English)
رَفتن، جانا، to go
شنیدن، سننا، to hear, to listen
نشستن، بیٹھنا، to sit
پائیدن، قائم ہونا، to exist
نَوِشتن، لکھنا، to write
خواندن، پڑھنا، to read
برخاستن، اُٹھنا، to rise, to get out/up
مصدر کا آخری حرف ’’ن‘‘ ہٹا دیں تو بقیہ کا آخری حرف ’’ت‘‘ یا ’’د‘‘ ساکن ہو جائے گا۔ رفتن سے رفت، شنیدن سے شنید، نشستن سے نشست، پائید ن سے پائید، نَوِشتن سے نوشت، خواندن سے خواند (یہاں واو معدولہ اور نون غنہ ہے)، برخاست سے برخاست۔ یہ فعل ماضی مطلق معروف کا پہلا صیغہ بنتا ہے: وہ گیا، اس نے سنا، وہ بیٹھا، وہ رہا، اس نے لکھا، اس نے پڑھا، وہ اٹھا (یا، اُٹھ گیا)۔

افعالِ ناقصہ کی طرف واپس آتے ہیں۔ مصدر ہستن (ہونا) سے ’’فعل ماضی مطلق معروف کی گردان یوں بنتی ہے۔
مصدر: ہستن (ہونا)
صیغہ غائب (واحد) ہست، (جمع) ہستند
صیغہ حاضر (واحد) ہستی، (جمع) ہستید
صیغہ متکلم (واحد) ہستم، (جمع) ہستیم
یہاں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ ہونا سے فعل ماضی ’’ہوا‘‘ بنتا ہے۔ اس مصدر ہستن کے ساتھ خاص بات یہی ہے کہ معنوی سطح پر یہ کبھی ماضی کے معانی نہیں دیتا۔ بلکہ حال کے معانی دیتا ہے۔ ہست کو ’’است‘‘ بھی لکھتے ہیں، جس کا معنی ہے ’’ ہے‘‘۔
است؛ فعل ناقص (ہے)
صیغہ غائب (واحد) است : وہ ہے، (جمع) استند : وہ ہیں
صیغہ حاضر (واحد) استی : تو ہے، (جمع) استید : تم ہو
صیغہ متکلم (واحد) استم : میں ہوں (جمع) استیم : ہم ہیں
یہاں ایک اور بات نوٹ کیجئے کہ ہم نے مصدر کا ’’ن‘‘ ہٹایا تو بقیہ ’’فعل ماضی مطلق کا پہلا صیغہ (واحدغائب) حاصل ہوا۔ ہم نے دیگر صیغے حاصل کرنے کے لئے اس پر کچھ اضافے کئے ہیں۔ نوٹ کر لیجئے کہ ان کی ترتیب جملہ افعالِ ماضی میں یہی رہے گی۔ نقشہ حسبِ ذیل ہے:

صیغہ غائب: ۔، ۔َند (اَند)
صیغہ حاضر: ۔ی (ای)، ۔ید (اید)
صیغہ متکلم: ۔َم(اَم)، ۔یم (ایم)
۔ مصدر ’’بُودن‘‘ (ہونا) سے فعل ماضی مطلق معروف ’’بود‘‘ بنا۔ صیغے دی ہوئی ترتیب کے مطابق رہیں گے:
مصدر: بودن (ہونا)
صیغہ غائب: بود (وہ تھا)، بودند (وہ تھے)
صیغہ حاضر: بودی (تو تھا)، بودید (تم تھے)
صیغہ متکلم: بودم (میں تھا)، بودیم (ہم تھے)
شذرہ: بود کے معانی ہمیشہ ماضی کے ہوتے ہیں۔
مصدر: شُدَن (ہونا، ہو جانا)
شُد (وہ ہو گیا)، شُدَند (وہ ہو گئے)، شُدی (تو ہو گیا)، شُدید (تم ہو گئے)، شُدم (میں ہو گیا)، شُدیم (ہم ہو گئے)
مصدر ’’بائستن‘‘ (مضارع: باید)، اور مصدر ’’باشیدن‘‘ (مضارع: باشد)؛ کا تعلق اسمیہ جملوں کی نسبت فعلیہ جملوں سے زیادہ ہے۔ افعالِ ناقصہ کی مزید تفصیل مصدر اور افعال کے تحت آئے گی۔

 مزیدتفہیم کے لئے کچھ سادہ اسمیہ جملے بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسمیہ جملے کی نحوی ترتیب کچھ اِس طرح کی ہوتی ہے: پہلے وہ اسم واقع ہوتا ہے (اسم کی کوئی سی صورت یا ترکیب) جس کے بارے میں کچھ بتانا مقصود ہو؛ اس کو مبتدا کہتے ہیں۔ اس کے بعد خبر ہوتی ہے یعنی کیا بتانا ہے۔ اس میں پوچھنا بھی شامل ہے اور نفی یا اثبات بھی۔
۔۱۔ یہ کرسی ہے (سادہ بیانیہ جملہ)۔ این صندلی است۔ اس میں ’’یہ کرسی‘‘ مبتدا ہے، اور ’’ہے‘‘ خبر ہے۔ یہ (اسمِ اشارہ واحد قریب: این)، کرسی (اسمِ نکرہ واحد: صندلی)، ہے (فعل ناقص واحد غائب: است)۔
۔۲۔ یہ کرسی کِس کی ہے؟ (سوالیہ جملہ) این صندلی از کیست؟۔ یہ کرسی (این صندلی)۔ کس (اصلاً: کون، اسم استفہام: کہ)۔ کی کے لئے یہاں ’’از‘‘ لاتے ہیں۔ ہے (است)۔ ’’کس کی ہے‘‘ (لفظی ترتیب: از کہ است)۔ فارسی میں ’’کہ است‘‘ کو ملا کر ’’کیست‘‘ بنا لیا جاتا ہے۔
۔۳۔ یہ کرسی میری ہے (سادہ جملہ جس میں توجہ ’’از کیست‘‘ کے جواب پر ہے)۔ باقی جملہ وہی رہے گا، ’’از کیست‘‘ کی جگہ ’’از من است‘‘ آ جائے گا۔ این صندلی از من است۔ یہاں اگر سوال کے جواب کا عنصر شامل نہ ہوتا یا کرسی کے ’’میری‘‘ ہونے پر زور دینا مقصود نہ ہوتا تو سادہ جملہ ’’یہ میری کرسی ہے‘‘ ہوتا۔ اس میں ’’میری کرسی‘‘ سیدھی سی ترکیبِ اضافی ہے (صندلیءِ من): این صندلیءِ من است۔
۔۴۔ میرے پاس ایک دل چسپ کتاب ہے۔ یہ جملہ اردو کے حوالے سے اسمیہ مگر فارسی کے حوالے سے فعلیہ ہے۔ مفہوم: میں ایک دل چسپ کتاب رکھتا ہوں۔ کتابے دل پذیر می دارم۔ ،مزید عناصر کو ہم جملہ فعلیہ میں دیکھیں گے۔
۔۵۔ آپ کی کتاب دل چسپ ہے۔ کتابِ شما دل پذیر است۔اس کا مبتدا ’’آپ کی کتاب‘‘ مرکب اضافی ہے۔ لفظ ’’آپ‘‘ کو واحد حاضر تصور کرتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’تو‘‘ اور جمع حاضر تصور کرتے ہوئے، یا واحد میں احترام کا عنصر شامل کرتے ہوئے’’شما‘‘۔ اس ترکیب کے چار ترجمے ممکن ہیں: کتابت، کتابِ تو، کتابتان، کتابِ شما۔ ہم یہاں ’’کتابِ شما‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ’’دل چسپ‘‘ یہ لفظ بھی فارسی کا ہے تاہم وہ لوگ اس پر ’’دل پذیر‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں یا اس کا بامحاورہ ترجمہ کرتے ہیں۔

شذرہ: فارسی میں ایسے مرکب حروف کی مثالیں بہت عام ہیں جو مختلف حروف کو ملا کر بنا لئے جاتے ہیں ۔بسا اوقات یہ حروف اپنے متعلقہ اسماء و افعال کے ساتھ ملا دئے جاتے ہیں اور زبان میں حسن و اختصار پیدا کرتے ہیں۔ ذیل میں ایسے چند کثیر الاستعمال مرکبات کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ اسی قیاس پر مزید مرکبات بنائے جاتے ہیں، مثلاً: کزو (تلفظ: کَ زُو): کہ (کہ)، از (سے) اُو (وہ) : کہ اُس سے، کہ اس کی طرف سے۔ کاں: کہ  آں (وہ) : کہ وہ۔ کیں: کہ  ایں (یہ): کہ یہ۔ ورنہ: و (اور) ار(اگر) نہ (نہیں): اور اگر نہیں ( اگر ایسا نہ ہوا تو)۔ وعلیٰ ہٰذا القیاس۔


پانچواں سبق
جملہ فعلیہ، مصدر، مضارع، زمانے، فعل حال، فاعل، مفعول، فعل معروف، فعل مجہول 

جملہ فعلیہ وہ ہے جس کی بنیاد فعل پر ہو اور اس کا مفہوم زمانے (ماضی، حال، مستقبل، امر، نہی) کے حوالے سے ہو۔ مثلاً: حمید نامہ می نویسد (حمید خط لکھتا ہے یا لکھ رہا ہے)۔ استاذِ من مرا پند می کرد (میرا استاذ مجھے نصیحت کرتا تھا یاکیا کرتا تھا)، تو برائے من چہ آوردہ ای (تو میرے لئے کیا لایا ہے؟)۔ واضح رہے کہ اس جملے میں فاعل ’تو‘ نہ لگا یا جائے تو بھی مفہوم واضح ہے، لہٰذا جہاں فاعل (ضمیر کی صورت میں) لگائے بغیر بات واضح ہو جائے وہاں فاعل نہ لگانا بہتر ہے۔

اسمِ مصدر کا مختصر بیان پہلے ہو چکا۔ یہ وہ اسم ہے جس سے تمام افعال نکلتے ہیں۔ فارسی مصدر کی بڑی شناخت یہ ہے کہ اس کے آخری حروف ہمیشہ تَن یا دَن ہوتے ہیں اردو میں اس کا معنیٰ فعل تام کی صورت میں ہوتا ہے۔ مثلاً: گفتن (کہنا)، شنیدن (سننا)، رفتن (جانا)، شناختن (پہچاننا)، نوشیدن (پینا)، دمیدن (پھونکنا) وغیرہ۔ یہاں ہمیں روایتی تعریفات سے تھوڑا سا ہٹ کر دیکھنا ہو گا۔ مصدر اصلاً اسم ہے، اس میں ’’کام‘‘ کے معانی پائے جاتے ہیں، اس بنا پر اس کو ’’فعل تام‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ ’’ فعل‘‘ سے مختلف ہوتا ہے۔ مصدر میں زمانے کا تصور نہیں ہوتا، بہ الفاظِ دیگر: مصدر وہ اسم ہے جس میں ’’کام‘‘ کے معانی زمانے کی قید سے آزاد پائے جاتے ہیں۔مصدر سے فعل حاصل کیا جاتا ہے، فعل میں کم از کم تین عناصر متوازی طور کارفرما ہوتے ہیں:
(۱) ایک تو وہ کام ہے جو مذکور یا مقصودہے۔
(۲) دوسرا وہ زمانہ یا وقت جس میں وہ کام مذکور ہوتا ہے (یہ کام ہو چکا، یا ہو رہا ہے، یا ہو گا، یا ہونا چاہئے) ۔
(۳) تیسرا عنصر ہے کام کرنے والا، یا جس پر کام واقع ہو، یا دونوں۔

ابھی ہم نے پڑھا کہ فارسی میں مصدر کے آخری دو حرف ’’تَن‘‘ یا ’’دَن‘‘ ہوتے ہیں اور اردو میں ’’نا‘‘: خواندن (پڑھنا)، نوشتن (لکھنا)، گفتن (کہنا)، شنیدن (سننا)، آمدن (آنا)، رفتن (جانا)، نشستن (بیٹھنا)، برخاستن (اٹھنا)، فہمیدن (سمجھنا)، رسیدن (پہنچنا)، رسانیدن (پہنچانا)، آسودن (آرام کرنا)، خُفتن (سونا)، شدن (ہونا)، زیستن (جینا)، مُردن (مرنا)۔ اس [تَن، دَن، نا] کو ہم ’’علامتِ مصدر‘‘ کہہ لیتے ہیں کہ یہ لفظ آئندہ بہت زیادہ استعمال ہو گا۔ 

مصدر سے فعل مستقبل اور فعل مضارع حاصل کرنے کے لئے ایک کلمہ اخذ کیا جاتا ہے جسے مضارع کہتے ہیں۔ اس کی اہمیت صرف افعال اخذ کرنے تک نہیں بلکہ یہ خاصا وسیع الفوائد کلمہ ہے۔ مضارع مقررہ کلمات ہیں اور ان میں اہل زبان کا تتبع کیا جاتا ہے ، تاہم اس کی ایک پکی شناخت یہ ہے کہ اس کا آخری حرف ہمیشہ د ہوتا ہے اور ماقبل پر زبر آتا ہے۔ مثلاً: مصدر کردن (کرنا) سے مضارع کُنَد ہے، گفتن (کہنا) سے گویَد، آمدن (آنا) سے آیَد، رفتن (جانا) سے رَوَد، شناختن (پہچاننا) سے شناسد،و علیٰ ھٰذاالقیاس (گویَد، آیَد کو گوئد، آئد بھی لکھا جاتا ہے اور بالعموم درست سمجھا جاتا ہے)۔

اسم فاعل (وہ اسم جس میں ’’فاعل یا کام کرنے والا‘‘ کے معانی پائے جائیں) بنانے کے لئے علامتِ مضارع د کو ہٹا دیتے ہیں یا اس کی جگہ ندہ ماقبل پر زیر لگا دیتے ہیں۔ مثلاً: کردن سے مضارع: کُنَد، اسمِ فاعل: کُن یا کنندہ (کرنے والا): کارکن، تباہ کن، شمار کنندہ، تخصیص کنندہ۔
گفتن سے مضارع گویَد، اسم فاعل: گوی (یائے مستور)، گویِندہ یا گوئندہ (کہنے والا): حق گو، راست گو، دروغ گو، زود گو، پُر گو۔
رفتن سے مضارع: رَوَد: اسم فاعل: رَو (جانے والا، چلنے والا) : تیز رَو، سست رَو، پیش رَو، راہ رَو۔
تنبیہ: اس کو ’’رُو‘‘ سے خلط ملط نہ کریں۔ رُستن (پھوٹنا یا اُگنا) سے مضارع ’’رُوید‘‘ ہے اور اسم فاعل کی مثال خود رُو (اپنے آپ اگنے والا: وہ پودا جسے رسمی طور پر بویا نہ گیا ہو)۔ ’’رُو‘‘ (اسم نکرہ) کا معنی ’’چہرہ‘‘ ہے۔ دونوں صورتوں میں اس کی اصل املاء ’’رُوی‘‘ (یائے مستور کے ساتھ) ہے، جس پر تفصیلی گفتگو اپنے مقام پر کریں گے۔ 
شناختن سے مضارع: شناسد، اسمِ فاعل: شناس (پہچاننے والا): خدا شناس، مردم شناس، خود شناس، حق شناس، حق ناشناس؛ وغیرہ۔

اسمِ مفعول (وہ اسم جس میں مفعول کے معانی پائے جائیں، کہ اس پر کوئی کام واقع ہو) بنانے کے لئے مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس کی جگہ ہ لگاتے ہیں۔ مثلاً: شنیدن سے شنیدہ (سنا ہوا)، خوردن سے خوردہ (کھایا ہوا)، شناختن سے شناختہ (پہچانا ہوا)، پسندیدن سے پسندیدہ (پسند کیا ہوا)، فرستادن (بھیجنا) سے فرستادہ؛ وغیرہ۔

جس طرح اردو میں فعل ناقص اور انگریزی میں ’’امدادی فعل‘‘ ہوتا ہے، اسی طرح فارسی میں بھی فعل ناقص ہوتا ہے جو دوسرے افعال کے ساتھ مل کر اس کے معانی اور زمانے میں تبدیلی پیدا کرتا ہے بعض فعل ناقص جب اکیلے استعمال ہوں تو اپنی جگہ مکمل یا مختلف معانی دیتے ہیں، ان کا تفصیلی مطالعہ فی الحال مؤخر کر کے یہاں کچھ فعل ناقص (اردو میں قریب ترین ممکنہ معانی کے ساتھ) درج کئے جاتے ہیں (واضح رہے کہ فعل ناقص کا معنیٰ موقع محل کے مطابق تغیر پذیر ہوتا ہے): است، ہست (ہے)، بود (تھا)، بَوَد (ہووے)، شد (ہوا)، شَوَد (ہووے)، باشد (ہووے)، باید (چاہئے)۔

فعلیہ جملے میں فعل اپنے فاعل کے لحاظ سے مذکور ہو تو اُسے فعل معروف کہتے ہیں: اسلم یونیورسٹی میں پڑھتا ہے، بچہ صبح سے سو رہا ہے، وہ ضدی شخص مان ہی نہیں رہا، حمید بازار گیا، اسلم نے گاڑی فروخت کر دی، آپ کب آئیں گے؟، کراچی جانے والی گاڑی نکل چکی ہے، بچے سکول سے واپس آ چکے تھے؛ وغیرہ۔ جہاں فعل اپنے مفعول کے لحاظ سے ہو تو اُسے مجہول کہتے ہیں: مچھر کو مارا جا رہا ہے، گھر میں سفیدی کی جا رہی ہے، گالی کو پسند نہیں کیا جاتا، گاڑی دھو دی گئی، فلاں کام کیوں روکا گیا ہے، قاتل کو کل پھانسی دے دی جائے گی، سامان فروخت کیا جا چکا، پل توڑ دیا گیا تھا، پھول توڑے جاتے ہیں؛ وغیرہ۔

فعلیہ جملے کے تین بنیادی عناصر ہیں: فاعل، فعل اور مفعول۔ مفعول صرف فعل متعدی کے لئے ضروری ہوتا ہے اور فعل مجہول کی صورت میں فاعل کا صریحاً مذکور ہونا لازمی نہیں۔ اس کو ہم مثال کی مدد سے سمجھتے ہیں:
خواندن (پڑھنا) ایک مصدر ہے ؛ اس سے ہم پڑھنے کا کام یا عمل اخذ کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پڑھنے کا کام (۲) ہو چکا یا ہوگا یا ہو رہا ہے یا ہونا چاہئے، یا اس سے روکا جانا مقصود ہے۔ اور یہ بھی کہ پڑھنے والا کون ہے اور اگر پڑھی جانے والی چیز مذکور ہے تو وہ کیاہے۔ پڑھنا تو ہو گیا کام، اور یہ اس وقت ہو رہا ہے، میں پڑھ رہا ہوں (متکلم) اور پڑھا جا رہا ہے سبق۔فعل کے بنیادی عناصر پورے ہو گئے (میں سبق پڑھ رہا ہوں)۔ مصدر ہے : خواندن (پڑھنا)۔
اگر اس میں ’’مَیں‘‘ مذکورہ نہ ہو تو (سبق پڑھا جا رہا ہے)۔ یہاں جملے میں وسعت بھی آ گئی، اس سے قطع نظر کہ پڑھنے والا کون ہے یا کوئی بھی ہے، سبق پڑھا جا رہا ہے۔ فعل مجہول کی صورت ہوئی : خواندہ شدن (پڑھا جانا)۔
اگر سبق مذکور نہ ہو تو (میں پڑھ رہا ہوں)۔ جملے میں ’’مَیں‘‘ فاعل ہے، مفعول چونکہ متعین نہیں اس لئے پڑھنے کے امکانی معانی میں وسعت آ گئی۔
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا، فعل میں زمانہ از خود شامل ہوتا ہے۔یا یوں کہئے کہ زمانے کی تبدیلی فعل پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر: پڑھ رہا تھا، پڑھتا تھا، پڑھوں گا، پڑھ چکا ہوں، پڑھتا ہوں، پڑھ چکا ہوں گا، پڑھوں؛ وغیرہ۔

زمانے کے حوالے سے فعل بنیادی طور پر تین ہیں۔ روایتاً ان کا زمانی ترتیب میں مطالعہ کیا جاتا ہے یعنی پہلے ماضی، پھر حال اور پھر مستقبل۔ تاہم ہماری ترجیح کسی قدر مختلف ہے:۔
۔(۱) ایک وہ جو موجود ہے یعنی اس وقت، فی الوقت، معمول یا موجودہ کیفیت جو گزشتہ کچھ عرصے سے قائم ہو اور آئندہ کچھ عرصے تک چلنے کا ظاہری امکان ہو (وہ دفتر میں کام کرتا ہے، حمید بچوں پر بہت سختی کرتا ہے، اسلم سو رہا ہے؛ وغیرہ)، اس کو حال کہتے ہیں۔
۔(۲) دوسرا وہ جو حال کے بعد آئے گا،یا کسی بھی وقت واقع ہو سکتا ہے (میں کھانا کھاؤں گا، وہ دفتر جایا کرے گا، اللہ حساب لے گا؛ وغیرہ)۔ اسے مستقبل کہتے ہیں۔
لفظ مستقبِل اور مستقبَل:’’ ب‘‘ پر زبر یا زیر دونوں درست ہیں ( مصباح اللغات)۔
۔(۳) تیسرا وہ جو گزرے وقتوں میں واقع ہوا، یا شروع ہوا اور تکمیل پذیر ہو گیا یاحال میں اختتام کو پہنچا (نوشیروان بہت عدل کیا کرتا تھا، ظفر نے دس سال حکومت کی، میں نے اپنا سبق یاد کر لیا ہے؛ جاوید لاہور جا چکا ہو گا؛ وغیرہ)۔ اسے ماضی کہتے ہیں۔

گردان کا معنوی تصور: جس طرح عربی میں صَرف کا تصور ہے اسی طرح اردو اور فارسی میں گردان کا تصور ہے جو جملہ فعلیہ کو سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی وصف فعل معروف کی صورت کا فاعل کے لحاظ سے (فعل مجہول کا مفعول کے لحاظ سے) منصرف ہونا ہے۔فعل مجہول کے مفعول کو عربی صرف کے مطابق نائب فاعل کہتے ہیں۔ فاعل (یا نائب فاعل) کے اعتبار سے گردان کے چھ صیغے ہوتے ہیں، ان کی مستقل ترتیب ہم نے ضمیر منفصل میں دیکھ لی ہے: واحد غائب (وہ: او)، جمع غائب (وہ: ایشاں)، واحد حاضر (تُو: تو)، جمع حاضر (تم، آپ: شما)، واحد متکلم (میں: من) اور جمع متکلم (ہم: ما)۔ تاہم فعلیہ جملے میں ان ضمائر کا لکھا جانا از بس ضروری نہیں؛ لکھا نہیں بھی جاتا اور جہاں ضروری ہو لکھا بھی جاتا ہے۔

یہاں دو باتیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں: فارسی میں فعل، فاعل اور مفعول کے حوالے سے مذکر مؤنث کا تصور نہیں ہے، اردو میں ترجمہ کرتے وقت ہم معنوی لحاظ سے مذکر یا مؤنث اخذ کرتے ہیں۔ اوپر قوسین میں لکھے گئے اسمائے ضمیرمنفصل صرف تفہیم کے لئے ہیں، گردان میں یہ نہیں لکھے جاتے بلکہ وہاں ضمیر فاعل (یا نائب فاعل) کے اعتبار سے ہوتے ہیں اور گردان کے صیغوں کے اندر ہی پنہاں ہوتے ہیں۔ صیغوں کی ترتیب ہمیشہ یہ ہوتی ہے: واحد غائب (وہ واحد کے لئے)، جمع غائب (وہ جمع کے لئے)، واحد حاضر (تُویا آپ واحد کے لئے)، جمع حاضر (تم یا آپ جمع کے لئے)، واحد متکلم (میں کے لئے) اور جمع متکلم (ہم کے لئے)۔

شذرہ: اردو میں فعل حال کے جملوں میں فعل کی مختلف صورتیں ہیں: وہ سو رہا ہے، سو گیا ہے، سو چکا ہے، سویا کرتا ہے، سوتا رہتا ہے؛ وغیرہ۔ مگر فارسی میں ایک ہی صورت مروج ہے، اسی سے ان مختلف صورتوں کے معانی کبھی سیاق و سباق سے اور کبھی اضافی الفاظ کی مدد سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ معنوی زاویوں کا کچھ ذکر دوسرے حصے ’’زبانِ یارِ من‘‘ میں آئے گا۔

مناسب ہو گا کہ یہاں کچھ سادہ جملوں کی تفہیم کی مشق کر لی جائے۔ ذخیرۂ الفاظ کی اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں، اور یہ امر بھی مسلّمہ ہے کہ ذخیرۂ الفاظ بنتے بنتے بنتا ہے، یہاں رٹّا لگانے کا عمل چنداں مفید نہیں ہوتا۔
۱۔ آب آمد تیمم برخاست ۔ آب: پانی۔ آمد: مصدر آمدن (آنا) سے فعل ماضی سادہ: آیا، تیمم: معروف طریقہ ہے سب جانتے ہیں۔ برخاست: مصدر برخاستن (اٹھ جانا) سے فعل ماضی سادہ: اٹھ گیا۔
سادہ ترجمہ: پانی آیا، تیمم اٹھ گیا۔ مفہوم: جب وسائل میسر ہوں یا ہو جائیں تو وہ رعایات نہیں ملتیں جو اُن کی عدم موجودگی میں ملتی تھیں۔
۲۔ گربہ کُشتن روزِ اول باید۔ گربہ: بلی۔ کشتن: جان سے مار دینا۔ روزِ اوّل: پہلا دن، پہلے دن۔ باید: چاہئے۔
سادہ ترجمہ: بلی کو پہلے دن مار دینا چاہئے۔ مفہوم: ایسے مواقع پر بولتے ہیں جب کسی نقصان دِہ شخص، چیز، محرک پر قابو پانے میں تاخیر ہو چکی ہو۔ یا اس سے بچنے پر زور دینا مقصود ہو۔
۳۔ گزشت آن چہ گزشت۔ گزشت: مصدر گزشتن (گزر جانا) سے فعل ماضی سادہ: گزر گیا، گزر گئی۔ آن: وہ۔ چہ : جو، کیا (یہاں جو مراد ہے)۔
سادہ ترجمہ: جو گزر گیا سو گزر گیا۔ مفہوم: جو بیت گئی سو بیت گئی۔ جو ہونا تھا ہو چکا۔ گزشتہ باتوں پر کڑھنا بے سود ہے۔
۴۔ حق بہ حق دار رسید۔ حق: معروف ہے۔ بہ: کو، تک۔ حق دار: حق رکھنے والا، معروف ہے۔ رسید: مصدر رسیدن (پہنچنا) سے فعل ماضی سادہ۔
سادہ ترجمہ: حق حق دار کو پہنچ گیا۔ مفہوم: جو جس کا حق تھا اسے مل گیا، اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جانا چاہئے۔
۵۔ پائے مرا لنگ نیست، ملکِ خدا تنگ نیست۔ پای: پاؤں، قدم۔ مرا: لفظی ترجمہ: مجھے، مجھ کو۔ یہاں اس کی ساخت قدرے مختلف ہے۔ پائے م (میرے پاؤں) را (کو) لنگ: لنگڑا پن۔ نیست: نہ است (نہیں ہے)، ملکِ خدا (خدا کا ملک) مراد ہے دنیا، جہان۔ تنگ: معروف ہے۔
سادہ ترجمہ: میرے پاؤں میں لنگڑا پن نہیں ہے (اور) دنیا تنگ نہیں ہے۔ مفہوم: ایسے مواقع پر بولتے ہیں جب کسی شہر بستی یا لوگوں سے کنارہ کش ہونے کا ارادہ بتانا ہو۔ کہ میں کہیں اور چلا جاؤں گا یا اور لوگوں میں چلا جاؤں گا، کوئی مجبوری تو نہیں کہ نہ جا سکوں۔
۶۔ سِرِّ ظلام و نور چیست۔ سِر: راز۔ اس کی راے پر زیر اضافت کی ہے۔ ظلام: تاریکی، اندھیرا۔ و (اور) حرفِ عطف۔ نور: روشنی۔ ظلام و نور: ترکیب عطفی (اندھیرا اور روشنی)۔ سِرِ ظلام و نور (روشنی اور اندھیرے کا راز)۔ چیست: چہ است (کیا ہے)۔
سادہ ترجمہ: اندھیرے اور روشنی کا کیا راز ہے۔ مفہوم: یہ اقبال کی فارسی نظم ’’سرودِ انجم‘‘ (پیامِ مشرق) کا ایک مصرع ہے۔ نظم کے سیاق و سباق میں علامہ نے اندھیرے اور روشنی کا وسیع تر پیش منظر میں ذکر کیا ہے۔
۷۔ آمدم بر سرِ مطلب۔ آمدم: مصدر آمدن (آنا) سے فعل ماضی سادہ صیغہ واحد متکلم (میں آیا)۔ بر سرِ مطلب (مطلب کے سرے پر)۔
سادہ ترجمہ: میں مطلب کے آخر پر آ گیا ہوں۔ مفہوم: کسی طویل گفتگو، بحث، بات چیت کے بعد کہا جاتا ہے کہ’’ اس گفتگو سے میرا مقصد یا مدعا یہ ہے کہ:‘‘پھر وہ نکتہ مختصراً بیان کیا جاتا ہے، وغیرہ۔


چھٹا سبق
افعالِ ناقصہ، فعل مضارع، فعل حال، فعل امر، فعل نہی، فعل لازم، فعل متعدی، اسمِ حال، فعل ماضی کی صورتیں، فعل امر، فعل نہی، افعالِ نافیہ، فعل معروف، فعل مجہول

فعل ناقص کا جزوی تعارف پہلے ہو چکا۔ اس سبق میں ہم کسی قدر تفصیل سے کچھ کثیر الاستعمال افعالِ ناقصہ کا مطالعہ کریں گے۔ است، ہست (ہے)، بود (تھا)، بَوَد (ہووے)، شد (ہوا)، شَوَد (ہووے)، باشد (ہووے)۔ است، بود اور شد کی گردانیں پہلے ہو چکیں۔
است در اصل مصدر ہستن سے ماخوذ ہے ۔ اس میں ماضی کا تصور نہیں ہوتا۔ است کی گردان بھی اسی نہج پر ہوتی ہے مگر یہ اکیلا نہیں آتا بلکہ جملہ فعلیہ میں ہو تو کسی فعل کا حصہ بن کر آتا ہے۔ (مزید دیکھئے: فعل ماضی قریب)
بودن (ہونا، ہو جانا، واقع ہونا) سے ماضی مطلق ’’بُود‘‘ اور مضارع بَوَ د (تلفظ: بَ وَدْ) ہے یعنی ہووے، ہو جائے۔ شدن (ہونا، ہو جانا) سے ماضی مطلق ’’شد‘‘ اور مضارع ’’شَوَد‘‘ ہے۔ (مزید دیکھئے ماضی بعید، فعل مضارع اور فعل حال)۔
باشیدن (ہونا، رہنا)۔ اس کا مضارع باشد ہے یعنی ہووے، ہو جائے۔
بائستن (چاہئے ہونا)۔ اس کا مضارع باید (تلفظ: با یَد) ہے یعنی چاہئے۔ عام طور پر اس کی گردان نہیں کی جاتی۔
خواستن (چاہنا)۔ اس کا مضارع خواہد (تلفظ: خا ہَد) واوِمعدولہ کے ساتھ ہے۔
آپ نے دیکھا کہ ان تمام مصادر کے معانی میں ’ہونا، ہو جانا‘ واضح ہے۔ یاد رہے کہ ان کا استعمال متعلقہ قواعد کے مطابق اپنے اپنے مقام پر ہوتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ انہیں خلط ملط نہ کیا جائے۔

یہاں ضروری ہے کہ مضارع اور فعل مضارع کے بارے تفصیل سے جان لیا جائے۔ عربی کا فعل مضارع فعل حال اور فعل مستقبل دونوں کو احاطہ کرتا ہے، فارسی میں ایسا نہیں۔ بلکہ اردو مطالب کے لحاظ سے اس کے معانی کچھ یوں ہوتے ہیں: وہ کرے، ہم دیکھیں، تم سنو، ہوا چلے، بارش ہو، بادل گرجیں، بجلی چمکے، اگر تم سننا چاہو، کچھ تو ہو، کوئی تو آئے؛ وغیرہ۔ گویا یہ نہ تو کلی طور پر فعل حال ہوتا ہے اور نہ فعل مستقبل بلکہ ان کے بین بین کی صورت ہے۔اور فارسی والے اکثر مواقع پر فعل مضارع کو فعل حال کے معانی میں لے لیتے ہیں۔ ساخت کے اعتبار سے ہر مصدر سے ایک لفظ اخذ کیا جاتا ہے، جس کو مضارع کہتے ہیں۔ مضارع حاصل کرنے کا کوئی لگا بندھا قاعدہ موجود نہیں، جو الفاظ اہلِ زبان نے اخذ کئے ہیں ہمیں انہیں کو اعتبار دینا ہے۔ ایک پکی علامت البتہ موجود ہے کہ مضارع کا آخری حرف ہمیشہ ’’د‘‘ ہوتا ہے اور اس سے پہلے حرف پر زبر واقع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آمدن (آنا) سے آیَد (آئے)، کردن (کرنا) سے کُنَد (کرے)، گفتن (کہنا) سے گویَد (کہے)، شنیدن (سننا) سے شُنوَد (سنے) ، شدن (ہونا) سے شَوَد (ہووے) ، بودن (ہونا) سے بَوَد (ہووے)، رفتن (جانا) سے رَوَد (جائے)، شناختن (پہچاننا) سے شناسَد (پہچانے)، اندوختن (رکھنا) سے اندوزَد (رکھے) ، بُردَن (لے جانا) سے بَرَد (لے جائے)، نشستن (بیٹھنا) سے نشینَد (بیٹھے)، دیدن (دیکھنا) سے بینَد (دیکھے)، داشتن (رکھنا) سے دارَد (رکھے)، آوردن (لانا) سے آرَد (لائے)، شُستن (دھونا) سے شوید؛ وغیرہ۔ مضارع کے الفاظ یاد رکھنے پڑتے ہیں۔ اسی مضارع کی گردان فعل مضارع ہے اور اسی پر سابقہ ’’می‘‘ لگا کر فعل حال کے معانی لئے جاتے ہیں۔ ہم نے ماضی کی گردان میں صیغوں کا تعین کرنے والے لفظی اجزاء کا مطالعہ کیا۔ اس کو دہرائے لیتے ہیں:
فعل ماضی کے لئے
صیغہ غائب (واحد) ۔َد، (جمع) ۔َند (اَند)؛ صیغہ حاضر (واحد) ۔ی (ای)، (جمع) ۔ید (اید)؛ صیغہ متکلم (واحد) ۔َم(اَم)، (جمع) ۔یم (ایم)

مضارع میں یوں کرتے ہیں کہ علامتِ مضارع یعنی مصارع کے آخری حرف ’’د‘‘ کو ہٹا دیتے ہیں، اور اس کی جگہ یہی حروف داخل کرتے ہیں۔ صرف ایک فرق کے ساتھ کہ پہلے صیغے میں اسی ’’د‘‘ کو پھر سے لگا دیتے ہیں۔
مضارع کے لئے
صیغہ غائب (واحد) ۔َد، (جمع) ۔َند (اَند)؛ صیغہ حاضر (واحد) ۔ی (ای)، )جمع) ۔ید (اید)؛ صیغہ متکلم (واحد) ۔َم(اَم)، (جمع) ۔یم (ایم)

آئیے مشق کے طور پر کچھ مصادر لے کر اُن کی فعل ماضی کی گردانیں بنائی جائیں۔
۔ شدن (ہونا)، مضارع: شَوَد، شَوَد : ہووے
شَوَد: وہ ہووے، شَوَند : وہ ہوویں، شَوی : تو ہووے، شَوید : تم ہووو، شَوَم: میں ہوووں، شَویم : ہم ہوویں
۔ گفتن (کہنا)، مضارع: گویَد، گویَد: کہے
گویَد : وہ کہے، گویَند: وہ کہیں، گویی : تو کہے، گویید: تم کہو، گویَم : میں کہوں، گوییم : ہم کہیں
واضح ہو کہ جہاں دو ’’ی‘‘ جمع ہو رہی ہیں ان میں پہلی ’’ی‘‘ کو ہمزہ سے بدلا جا سکتا ، اور اکثر بدل دیتے ہیں ( اگرچہ یہ لازمی نہیں)۔ اس طرح صیغہ واحد حاضر، جمع حاضر اور جمع متکلم کی صورت یوں بن جاتی ہے۔
گوئی : تو کہے، گوئید: تم کہو، گویئم : ہم کہیں
۔بُردَن (لے جانا)، مضارع : بَرَد، بَرَد : لے جائے
بَرَد : وہ لے جائے، بَرَند: وہ لے جائیں، بَری: تو لے جائے، بَرید : تم لے جاؤ، بَرَم : میں لے جاؤں، بَریم: ہم لے جائیں
۔ نشستن (بیٹھنا)، مضارع: نشیند، نشیند: بیٹھے
نشیند : وہ بیٹھے، نشینند: وہ بیٹھیں، نشینی: تو بیٹھے، نشینید: تم بیٹھو، نشینم: میں بیٹھوں، نشینیم: ہم بیٹھیں

فعل حال: فعل مضارع کے متعلقہ صیغے سے پہلے ’مے‘ (اس کی املاء ’مے‘ اور ’می‘ دونوں طرح رائج ہے) داخل کرنے سے فعل حال حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: کَشَد (وہ کھینچے): مے کشد (وہ کھینچتا ہے)، نشینید (تم بیٹھو): مے نشینید (تم بیٹھتے ہو)، بینم (میں دیکھوں):مے بینم (میں دیکھتا ہوں)، کنیم (ہم کریں): مے کُنیم (ہم کرتے ہیں)، آیم (میں آؤں): مے آیم (میں آتا ہوں)، ترسند (وہ ڈریں): مے ترسَند (وہ ڈرتے ہیں)، خورم (میں کھاؤں):مے خوریم (ہم کھاتے ہیں)۔ یاد رہے کہ : میں آتا ہوں، میں آ رہا ہوں، میں آیا کرتا ہوں سب کا فارسی ترجمہ ’مے آیم‘ ہے۔ بعض اوقات مے کی جگہ ہمے لگایا جاتا ہے جس سے فعل میں تواتر کا معنی شامل ہو جاتا ہے۔ مثلاً: ہمے ترسند (وہ ڈر رہے ہیں یا وہ ڈرا کرتے ہیں)، ہمے رَوَم (میں جا رہا ہوں، میں جایا کرتا ہوں)، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔

فعل امر اور فعل نہی: فعل امر کے صرف دو صیغے ہوتے ہیں: واحد حاضر اور جمع حاضر ۔ علامتِ مضارع ’د‘ ہٹا دینے سے فعل امر صیغہ واحد حاضر، اور پھر اس پر ’ید‘ داخل کرنے سے فعل امر صیغہ جمع حاضر حاصل ہوتا ہے۔ کَش (کھینچ)، کشید( کھینچو)؛ کُن (کر)، کنید (کرو)؛ نشین (بیٹھ جا)، نشینید (بیٹھ جاؤ)؛ نوِیس (لکھ)، نویسید (لکھو)؛ خوان (پڑھ)، خوانید (پڑھو)۔ یہاں آپ نے نوٹ کیا کہ فعل امر کا صیغہ واحد حاضر بالکل اسم فاعل کی طرح ہے یعنی کش (کھینچنے والا): محنت کش، دُود کش۔ کن (کرنے والا): کار کن، تباہ کن۔ نشین (بیٹھنے والا): گوشہ نشین، مسند نشین۔ نویس (لکھنے والا): خوش نویس، وثیقہ نویس۔ خوان (پڑھنے والا): نوحہ خوان، نغمہ خوان، وغیرہ ۔ یعنی فعل مضارع اور فعل امر کے صیغہ واحد حاضر کی املاء میں بھی کوئی فرق نہیں۔ ایسے میں معانی کا کیا ہو گا؟ کرتے یہ ہیں کہ جہاں التباس کا اندیشہ ہو، وہاں فعل امر سے پہلے بَ لگا دیتے ہیں، اور معانی فعل امر کے ہی لیتے ہیں: بکش، بکشید؛ بکن، بکنید؛ بنویس، بنویسید؛ بخواں، بخوانید؛ وغیرہ۔ تاہم یہ لازم نہیں، سیاق و سباق سے بھی دیکھتے ہیں۔
فعل نہی بنانے کے لئے فعل امر سے پہلے مَ داخل کرتے ہیں: مَکُن (نہ کر، مت کر)، مَکُنید (نہ کرو، مت کرو)؛ مَکَش (نہ کھینچ، مت کھینچ)، مَکَشید (نہ کھینچو، مت کھینچو)؛ وغیرہ۔ مضارع پر ’م‘ کی بجائے ’ن‘ بھی داخل ہوتا ہے تاہم، وہ فعل نہی نہیں ہوتا۔ وضاحت افعالِ نافیہ کی ذیل میں آئے گی۔

فعل مستقبل بنانے کے لئے فعل ماضی مطلق سے پہلے خواہد (فعل ناقص) کا متعلقہ صیغہ داخل کرتے ہیں۔ رفتن سے فعل ماضی مطلق رفت (وہ گیا) اور فعل مستقبل خواہد رفت (وہ جائے گا)، آمدن سے فعل مستقبل خواہد آمد (وہ آئے گا)، گفتن سے خواہد گفت (وہ کہے گا)، وغیرہ۔ گردان میں تبدیلی ’’خواہد‘‘ پر واقع ہو گی، بقیہ حصہ بدستور قائم رہے گا۔
۔ زیستن (جینا) سے فعل مستقبل خواہد زیست (وہ جیے گا)
خواہد زیست: وہ جیے گا، خواہند زیست: وہ جییں گے، خواہی زیست: تو جیے گا، خواہید زیست: تم جیو گے، خواہم زیست: میں جیوں گا، خواہیم زیست: ہم جییں گے
انہیں خطوط پر ۔۔۔ رفتن سے خواہد رفت، خواہند رفت، خواہی رفت، خواہید رفت، خواہم رفت، خواہیم رفت۔۔۔ آمدن سے خواہد آمد، خواہند آمد، خواہی آمد، خواہید آمد، خواہم آمد، خواہیم آمد۔ ۔۔ گفتن سے خواہد گفت، خواہند گفت،خواہی گفت، خواہید گفت، خواہم گفت، خواہیم گفت۔

فعل لازم وہ ہے جو اپنے معانی کی تکمیل کے لئے کسی مفعول کا تقاضا نہ کرے، مثلاً: چلنا، پھرنا، بولنا، سوچنا، سونا، جاگنا، مرنا وغیرہ۔ فعل متعدی اپنے معانی کی تکمیل کے لئے مفعول کا تقاضا کرتا ہے، مثلاً: چلانا، بلانا، جگانا، کھانا، پکڑنا، پیٹنا، سمجھانا، پکانا وغیرہ۔ بہت سے افعال موقع محل کے مطابق لازم یا متعدی ہوتے ہیں، ایسے افعال کو فعل لازم و متعدی کہا جاتا ہے۔ دیگر، ایسے افعال بھی ہوتے ہیں جو بیک وقت ایک سے زیادہ مفعول کا تقاضا کرتے ہیں، مثلاً: اٹھوانا، لکھوانا، پکوانا، کھلانا، پلانا وغیرہ۔ انہیں متعدی المتعدی کہا جاتا ہے۔ ان مصادر کا فارسی ترجمہ کسی بھی اچھی قاموس، لغت یادرسی کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے۔

فعل متعدی میں جملہ فاعل کے لحاظ سے بھی ہو سکتا ہے اور مفعول کے لحاظ سے بھی۔ اول(فاعل کے لحاظ سے): میں نے کتاب پڑھی، وہ پڑھتا ہے، ہم پڑھیں گے ؛ وغیرہ۔ اس صورت کو فعل معروف کہتے ہیں، ہم نے اب تک سب مثالوں میں فعل معروف کی گردانیں کی ہیں۔
دوم (مفعول کے لحاظ سے): کتاب پڑھی گئی، سبق پڑھا جائے گا، وغیرہ۔اس صورت کو فعل مجہول کہتے ہیں اور یہ چونکہ مفعول کے حوالے سے ہوتا ہے لہٰذا یہاں مفعول کی حیثیت ’’نائب فاعل‘‘ کی سی ہوتی ہے۔ فعل مجہول بنانے کا قاعدہ یوں ہے:
مصدر کی علامت ’’ن‘‘ ہٹاکر اُس کی جگہ ’’ہ‘‘ لگائیں اور اس پر مصدر ’’شُدَن‘‘ (ہونا، ہوجانا) کا مطلوبہ صیغہ داخل کر دیں۔ مثال کے طور پر مصدر کُشتن (مارنا) سے:
کُشتہ شُد (وہ مار دیا گیا)، کشتہ خواہد شَوی (تو مار دیا جائے گا)، سگانِ آوارہ کُشتہ می شَوَند (آوارہ کتے مار دئے جاتے ہیں)، وغیرہ۔
شذرہ: یاد رہے کہ فعل لازم سے فعل مجہول نہیں بن سکتا۔

اسم حال: یہ بھی مصدر سے لیا جاتا ہے اور اس میں کسی فعل کے حوالے سے اسم کی حالت یا کیفیت کا معنیٰ پایا جاتا ہے۔ مثلاً دَوِیدن سے دَواں (دوڑتا ہوا)، رفتن سے رواں (چلتا ہوا)، کردن سے کُناں (کرتا ہوا)، شائستن سے شایاں (جچتا ہوا)، گریستن سے گِریاں (روتا ہوا)، خندیدن سے خنداں (ہنستا ہوا)، وغیرہ۔ طریقہ یہ ہے کہ مضارع کی علامت ’’د‘‘ کو ہٹا کر اُس کی جگہ ’’ان‘‘ (ماقبل سے متصل) لگاتے ہیں۔ دَوِیدن: دَوَد: دَواں (دوڑتا ہوا)، رفتن: رَوَد:رواں (چلتا ہوا)، کردن: کُنَد : کُناں (کرتا ہوا)، شائستن: شایَد: شایاں (جچتا ہوا)، گریستن: گِریدَ :گِریاں (روتا ہوا)، خندیدن : خندد : خنداں (ہنستا ہوا)؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔

فعل ماضی مطلق: گزرے ہوئے زمانے میں ہونے والا کام ، جس میں کوئی مزید تخصیص (قریب، بعید، استمرار) وغیرہ نہ ہو۔ مصدر کا ’’ن‘‘ ہٹا دیں تو فعل ماضی مطلق کا پہلا صیغہ حاصل ہوتا ہے۔ آمدن سے آمد (وہ آیا)، رفتن سے رفت (وہ گیا)، خوردن سے خورد (اس نے کھایا)، نوشتن سے نوشت (اس نے لکھا)۔ یہ مثالیں ماضی مطلق معروف کی ہیں، اس کی گردان بھی ہم جان چکے ہیں۔
ماضی مطلق مجہول بنانے کا قاعدہ بھی مختصر طور پر بیان ہو چکا، اس کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھتے ہیں۔ کسی مصدر کی علامت ’’ن‘‘ کو ’’ہ‘‘ سے بدل دیں تو اسم مفعول حاصل ہوتا ہے ، یعنی جس پر کام واقع ہوا۔ ساختن سے ساختہ (بنا ہوا) جیسے ساختۂ پاکستان (پاکستان میں بنا ہوا)؛ نوشتن سے نوشتہ (لکھا ہوا) جیسے نوشتۂ دیوار (دیوار پر لکھا ہوا)؛ سوختن سے سوختہ (جلا ہوا) جیسے جگر سوختہ، دل سوختہ؛ آزمودن سے آزمودہ (آزمایا ہوا) جیسے آزمودہ نسخہ، کار آزمودہ؛ کشیدن سے کشیدہ (کھینچا ہوا) جیسے کشیدہ قامت، دریدن سے دریدہ (پھاڑا ہوا) جیسے دریدہ دہن، دریدہ دامن؛ وغیرہ۔
ماضی مطلق مجہول بنانے کے لئے اسمِ مفعول پر مصدر شدن (ہونا) کے ماضی یعنی شُد کا اضافہ کریں اور اُس کی گردان مکمل کر لیں:
مصدر: گرفتن
گرفتہ شد: وہ پکڑا گیا، گرفتہ شدند: وہ پکڑے گئے، گرفتہ شدی: تو پکڑا گیا، گرفتہ شدید: تم پکڑے گئے، گرفتہ شدم: میں پکڑا گیا، گرفتہ شدیم: ہم پکڑے گئے
تجزیہ: صیغے کا پہلا جزو (گرفتہ) جوں کا توں رہتا ہے، صیغے دوسرے حصے [شدن (ہونا، ہوجانا) کے ماضی مطلق (شد)] کی بنیاد پر بنتے ہیں۔ کچھ جملے دیکھئے:
دُزد گرفتہ شد: چور پکڑا گیا۔ پرچہ ہای شمردہ شدند: پرچیاں گن لی گئیں۔ طعام خوردہ شد: کھانا کھا لیا گیا۔ عقلِ فلان ربودہ شد: فلاں کی عقل اچک لی گئی (مت ماری گئی)۔ وغیرہم۔

ہم نے پڑھا ہے کہ فعل لازم کو مفعول کی ضرورت نہیں ہوتی، لہٰذا اس کے لئے ’’اسمِ مفعول‘‘ بھی نہیں ہوتا۔جیسے اس تصور کے تحت ہمارے اخذ کردہ اسمائے مفعول گرفتہ، خوردہ، آمدہ؛ وغیرہ کی حیثیت اسمِ مفعول کے علاوہ بھی کچھ رہی ہو گی۔ دیدہ، شنیدہ، گرفتہ وغیرہ تو بجا کہ اسم مفعول ہوئے، آمدہ، رفتہ، مردہ؛ خوابیدہ وغیرہ کو اسمِ مفعول نہیں کہا جا سکتا جب کہ ساختیاتی سطح پر ان کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی سہولت کے لئے ان سب کو کوئی ایک نام دے لیجئے؛ مثلاً ’’کلید‘‘ کہ یہ افعال، صیغے، مرکبات، وغیرہ بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں ہم اس کو ’’کلید‘‘ کہیں گے۔

فعل ماضی قریب: وہ ماضی ہے جس میں قریب کے معنے پائے جائیں مثلاً: وہ آیا ہے یا آ گیا ہے، میں نے خط لکھ لیا ہے، حمید جا چکا ہے، وغیرہ۔
فعل معروف کے لئے طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ کلید پر فعل ناقص ’’است‘‘ داخل کرکے ’’است مخفف‘‘ کی گردان مکمل کرتے ہیں۔
است مخفف
است، اند، ای، اید، ام، ایم
۔ مصدر گفتن سے فعل ماضی قریب معروف: گفتہ است ( کہا ہے)
گفتہ است: اس نے کہا ہے، گفتہ اند: انہوں نے کہا ہے، گفتہ ای: تو نے کہا ہے، گفتہ اید: تم نے کہا ہے، گفتہ ام: میں نے کہا ہے، گفتہ ایم: ہم نے کہا ہے
۔ مصدر شگفتن (کھِلنا) سے : شگفتہ است (کھِلا ہے)
شگفتہ است: وہ کھلا ہے، شگفتہ اند: وہ کھلے ہیں، شگفتہ ای: تو کھلا ہے، شگفتہ اید: تم کھلے ہو، شگفتہ ام: میں کھلا ہوں، شگفتہ ایم: ہم کھلے ہیں

فعل ماضی مطلق مجہول بنانے کے لئے مطلوبہ مصدر کی کلید پر مصدر شُدَن کی کلید ’’شُدہ‘‘ کا اضافہ کر کے اس پر است مخفف لاتے ہیں۔
۔ مصدر آوردن (لانا) سے فعل ماضی قریب مجہول: لایا گیا ہے آوردہ شدہ است
آوردہ شدہ است، آوردہ شدہ اند، آوردہ شدہ ای، آوردہ شدہ اید، آوردہ شدہ ام، آوردہ شدہ ایم
۔ مصدر خوردن (کھانا) سے فعل ماضی قریب مجہول: کھایا گیا ہے خوردہ شدہ است
خوردہ شدہ است، خوردہ شدہ اند، خوردہ شدہ ای، خوردہ شدہ اید، خوردہ شدہ ام، خوردہ شدہ ایم

فعل ماضی بعید: وہ ماضی ہے جس میں بعید کے معنی پائے جاتے ہوں مثلاً: اس نے دیکھا تھا، وہ جا چکا تھا، ٹیم ہار گئی تھی، وغیرہ۔ فعل ماضی قریب اور ماضی بعید معروف و مجہول میں فرق صرف یہ ہے کہ ماضی بعید میں ’’است مخفف‘‘ کی جگہ ’’بود‘‘ لا کر اُس کی گردان مکمل کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر: آمدہ بودم (میں آیا تھا)، رفتہ بودید (تم جا چکے تھے)، کُشتہ بودند (انہوں نے مارا تھا)، کشتہ شدہ بودند (وہ مارے گئے تھے)، افروختہ بود (اس نے اٹھایا تھا)، افزووہ شدہ بودم (میں اٹھایا گیا تھا)۔
شذرہ: افزودن کثیرالمعانی لفظ ہے۔ اٹھانا، ابھارنا، بلند کرنا، پیدا کرنا؛ وغیرہ۔ مضارع: افزاید، فعل امر اور اسمِ فاعل: افزا؛ اردو ادب میں بہت مستعمل ہے۔ بسا اوقات اس کا اولین الف حذف کر دیتے ہیں۔ جاں فزا، راحت فزا؛ وغیرہ۔

فعل ماضی شکیہ: وہ ماضی ہے جس میں شک کا معنیٰ پایا جائے مثلاً: وہ آیا ہو گا، تم نے سنا ہو گا، آپ نے دیکھا ہو گا، وغیرہ۔ فعل ماضی قریب میں است کی بجائے باشد لگا کر اس کی گردان مکمل کر لیتے ہیں۔ مثلاً: آمدہ باشد (وہ آیا ہو گا)، شنیدہ باشی (تو نے سنا ہو گا)، دیدہ باشید (تم نے دیکھا ہو گا)، وغیرہ۔ اس میں کلید کے ساتھ باشیدن (ہونا) کے مضارع ’’باشد‘‘ پر گردان کی جاتی ہے۔
۔ مصدر باشیدن (ہونا) سے مضارع باشد (ہوا ہو گا)
باشد، باشند، باشی، باشید، باشم، باشیم
۔ مصدر خُفتن (سونا) سے فعل ماضی شکیہ معروف : خفتہ باشد (سویا ہو گا)۔
خفتہ باشد: وہ سویا ہو گا، خفتہ باشند: وہ سوئے ہوں گے، خفتہ باشی: تو سویا ہو گا، خفتہ باشید: تم سوئے ہو گے، خفتہ باشم: میں سویا ہوں گا، خفتہ باشیم: ہم سوئے ہوں گے
شذرہ: خوابیدن کا معنی بھی سونا ہے اور مضارع اِن دونوں کا ’’خوابد‘‘ ہے۔
۔ مصدر آزمودن (آزمانا) سے فعل ماضی شکیہ مجہول:آزمایا گیا ہو گا آزمودہ شدہ باشد
آزمودہ شدہ باشد: اسے آزمایا گیا ہو گا، آزمودہ شدہ باشند: انہیں ...، آزمودہ شدہ باشی: تجھے ...، آزمودہ شدہ باشید: تمہیں ...،  آزمودہ شدہ باشم: مجھے ...، آزمودہ شدہ باشیم: ہمیں آزمایا گیا ہو گا
تقابل کے لئے فعل ماضی شکیہ معروف کی گردان پیش کی جا رہی ہے۔
۔ مصدر آزمودن (آزمانا) سے فعل ماضی شکیہ معروف:آزمایا ہو گا آزمودہ باشد
آزمودہ باشد: اس نے آزمایا ہو گا، آزمودہ باشند: انہوں نے ...، آزمودہ باشی: تو نے ...، آزمودہ باشید: تم نے ...، آزمودہ باشم: میں نے ...، آزمودہ باشیم: ہم نے آزمایا ہو گا

فعل ماضی استمراری: وہ ماضی ہے جس میں استمرار اور جاری رہنے کے معنے پائے جائیں، مثلاً: میں جاتا تھا، وہ آ رہا تھا، ہم سو رہے تھے، حمید سن رہا تھا، آپ جانتے تھے، تو پوچھا کرتا تھا، وغیرہ۔ بہت سادہ طریقہ ہے : فعل ماضی مطلق سے پہلے مے لگاکر گردان مکمل کرتے ہیں۔ مثلاً: مے رفتم (میں جاتا تھا)، مے آمد (وہ آ رہا تھا)، مے خوابیدیم، مے خفتیم (ہم سوتے تھے)، مے گفتید (تم کہا کرتے تھے)، وغیرہ۔ واضح رہے کہ مثال کے طور پر ہم سنا کرتے تھے، ہم سن رہے تھے، ہم سنتے تھے ان تینوں صورتوں کا فارسی ترجمہ ایک ہی ہو گا یعنی مے شنیدیم۔ فعل حال کی طرح بسا اوقات یہاں بھی فعل میں تواتر کا مفہوم دینے کے لئے مے کو ہمے سے بدل دیتے ہیں ، مثلاً: ہمے رفتم (میں جارہا تھا، میں جایا کرتا تھا)، و علیٰ ہٰذا القیاس۔ فعل ماضی استمراری مجہول بنانے کے لئے ’’مے‘‘ کو ماضی مطلق مجہول کی کلید اور ’’شد‘‘ کے درمیان میں رکھ دیتے ہیں۔ گرفتہ مے شد (وہ پکڑا جاتا تھا)، آوردہ مے شدم (مجھے لایا جاتا تھا)، شیر نوشیدہ مے شد (دودھ پیا جاتا تھا)؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ فعل ماضی استمراری مجہول بنانے کے لئے فعل ماضی مطلق مجہول کی ’’کلید‘‘ اور ’’شد‘‘ کے درمیان ’’مے‘‘ داخل کرتے ہیں۔

ماضی شرطی یا ماضی تمنائی: ماضی کی وہ صورت ہے جو شرط، تمنا وغیرہ کے ساتھ خاص ہے۔ اس کی گردان معمول سے کسی قدر ہٹ جاتی ہے۔ در اصل تین صیغے (۱۔واحد غائب، ۲۔جمع غائب اور۵۔ واحد متکلم) اس کے اپنے ہیں جن میں فعل ماضی مطلق پر ے داخل کرتے ہیں۔ باقی تین صیغے (۳۔واحد حاضر، ۴۔جمع حاضر اور ۶۔جمع متکلم) ماضی استمراری سے لے لئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر:۔
کردن (کرنا) سے ماضی شرطی یا تمنائی کی گردان:
۔ مصدر کردن (کرنا) سے فعل ماضی شرطی یا تمنائی معروف: کرتا
کردے : وہ کرتا، کردندے: وہ کرتے، مے کردی: تو کرتا، مے کردید: تم کرتے، کردمے: میں کرتا، مے کردیم: ہم کرتے
۔گفتن (کہنا) سے ماضی شرطی یا تمنائی معروف: کہتا
گفتے: وہ کہتا، گفتندے: وہ کہتے،  می گفتی: تو کہتا، می گفتید: تم کہتے، گفتمے: میں کہتا، می گفتیم: ہم کہتے
۔ جُستن (ڈھونڈنا ) سے ماضی شرطی یا تمنائی معروف: ڈھونڈتا
جستے: وہ ڈھونڈتا، جستندے: وہ ڈھونڈتے، می جستی: تو ڈھونڈتا، می جستید: تم ڈھونڈتے، جستمے: میں ڈھونڈتا، می جستیم: ہم ڈھونڈتے
اس میں تین صیغے ماضی شرطی یا تمنائی کے خاص ہیں: واحد غائب، جمع غائب، اور واحد متکلم؛ باقی ماضی استمراری اور ماضی شرطی میں مشترک ہیں۔  ایسے میں ترجمے کا کیا ہو گا؟ (استمراری؟ یا، شرطی؍تمنائی؟)۔ اس بات کا فیصلہ سیاق و سباق سے ہو گا۔ اردو میں بھی بہت بار ہم ماضی استمراری کا ’’تھا، تھے، تھی‘‘ لکھتے نہیں مگر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ استمراری ہے۔ مثلاً:
علامہ پشتواری صاحب شہر میں رہتے تھے، وہ بہت کم اپنے آبائی گاؤں جاتے، مگر جب بھی جاتے کئی کئی دن وہاں قیام کیا کرتے۔ ان کی اماں کے زمانے کی ایک خادمہ ہوا کرتی تھی، نام تو اس کا کچھ اور تھا، مگر گاؤں والے اس کو محبت مائی کہا کرتے۔ علامہ صاحب اس کو محبت مائی کی بجائے ماں جی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ وہ جب تک گاؤں میں رہتے، محبت مائی اپنے بیٹوں سے بھی بڑھ کر اُن پر توجہ دیتی۔

افعالِ نافیہ: فعل میں نفی کے معنی دینا مقصود ہو تو اس سے پہلے ’’نہ‘‘ داخل کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس نافیہ ’’نہ‘‘ کی ہ ہٹا دی جاتی ہے اور اکیلا بچ جانے والا ’’ن‘‘ فعل سے متصل ہو جاتا ہے۔ مثلاً: کردہ بود سے کردہ نبود (اس نے کیا تھا، اس نے نہیں کیا تھا)، مے رفتم سے نمی رفتم (میں جاتا تھا، میں نہیں جاتا تھا)، خواہم گفت سے نخواہم گفت (میں کہوں گا، میں نہیں کہوں گا)، وغیرہ۔ فعل کا پہلا حرف ’’آ‘‘ ہو تو نفی بناتے وقت اُسے ’’یا‘‘ سے بدل دیتے ہیں اور پھر اُس پر ’’ن‘‘ داخل کیا جاتا ہے۔ مثلاً: آمدم سے نیامدم (میں آیا، میں نہیں آیا)، آوردند سے نیاوردند (وہ لائے، وہ نہیں لائے)، آموختی سے نیاموختی (آپ نے سکھایا، آپ نے نہیں سکھایا)؛وغیرہ۔
شذرہ:۔ فعل نافیہ کا جملہ کسی بھی فعل میں کسی بھی ضمیر کا ہو سکتا ہے اور اِس میں کسی کام کا نہ ہونا مذکور ہوتا ہے۔ جب کہ فعل نہی کا جملہ ہمیشہ ضمیر حاضر (واحد یا جمع) سے خطاب ہوتا ہے اور اِس میں کسی کام کے نہ کرنے کا حکم، درخواست،مشورہ، نصیحت وغیرہ ہوتے ہیں۔

فعل حال سے مراد ہے موجود زمانہ میں ہونے والا کام،اس میں معمول، ہنگام، یا استمرار کا عنصر یوں پایا جاتا ہے کہ ایسا جب سے بھی شروع ہوا وقتِ بیان تک ہو رہا ہے۔ اردو کے جملے: ہوتا ہے، ہوا کرتا ہے، ہو رہا ہے، ہوتا رہتا ہے، سب کے سب فارسی کے فعل حال کے تحت آتے ہیں۔ بنانے کے لئے مطلوبہ مصدر کے مضارع پر سابقہ می داخل کرتے ہیں، اور گردان مضارع کی بنیاد پر ہوتی ہے، فعل مضارع کا مطالعہ ہم گذشتہ صفحات میں کر چکے ہیں۔ اہم نکتہ ہے کہ: می کلید پر واقع ہو تو ماضی استمراری ہے اور مضارع پر واقع ہو تو فعل حال ہے۔



ساتواں سبق
وحدت و جمع، تذکیر و تانیث، مصدر اور حاصل مصدر، اسم فاعل، اسم مفعول، مرکب کلمات، عدد معدود، فاعل غیر نمایاں؛ وغیرہ

مصادر، افعال اور گردانوں پر ابتدائی بحث مکمل ہو چکی۔ان قواعد کے عملی اطلاق کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس مناسب ذخیرۂ الفاظ بھی موجود ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ ذخیرۂ الفاظ بڑھانے کے لئے مطالعہ اشد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں چند متفرق تصورات ایسے ہیں جو قواعد سے شناسائی کے ساتھ ساتھ اس ذخیرہ میں اضافہ بھی کرتے ہیں، مثال کے طور پر، واحد اور جمع، مذکر اور مؤنث، اسمِ صِفَت کی تین حالتیں، عدد اور معدود وغیرہ۔ مناسب ہو گا کہ ہم پہلے ان تصورات کو سمجھ لیں۔

واحد اور جمع: فارسی میں واحد سے جمع بنانے کے چاربڑے قواعد ہیں۔
پہلا قاعدہ: واحد اگر عاقل ہو تو اس پر ’’ان‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً: مرد سے مردان یا مردمان، بزرگ سے بزرگان، استاذ سے استاذان، مہمان سے مہمانان، زن سے زنان، اسپ سے اسپان، کودک سے کودکان، طفل سے طفلان، وغیرہ۔ اگر واحد کا آخری حرف ’’ہ‘‘ ہو تو اسے ’’گ‘‘ سے بدل کر اس پر ’’ان‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً: بچہ سے بچگان۔ یہی قاعدہ ایسے اسم مفعول اور اسم فاعل پر بھی لاگو ہوتا ہے جہاں واحد کا آخری حرف ’’ہ‘‘ ہو: مردہ سے مردگان، کشتہ سے کشتگان، درندہ سے درندگان، زندہ سے زندگان، وغیرہ۔مزید، اگر واحد کا آخری حرف الف یا واؤ ہو تو اس پر ’’یان‘‘ بڑھاتے ہیں، جیسے: گدا سے گدایان، جنگجو سے جنگجویان، وغیرہ۔ اس ’’یان‘‘ کا سبب حقیقی یہ ہے کہ ایسے اسماء کے آخر میں یائے مستور ہوتا ہے۔یعنی: گدای، جنگ جُوی (یائے مستور ساکن حالت میں غیر ناطق ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ بولتا بھی نہیں۔ تراکیب وغیرہ میں یہی یائے مستور متحرک ہو کر صوتیت میں شامل ہو جاتا ہے۔
دوسرا قاعدہ: واحد اگر غیر عاقل ہو تو اس پر ہا کا اضافہ کرتے ہیں، مثلاً: ذرہ سے ذرہ ہا، ہزار سے ہزارہا، شجر سے شجر ہا، نہال سے نہال ہا، زمزمہ سے زمزمہ ہا، سال سے سال ہا، قلم سے قلم ہا، وغیرہ۔
تیسرا قاعدہ: بعض واحد اسماء کی جمع بنانے کے لئے ان پر’’ات‘‘ کا ( اور اگر واحد کا آخری حرف ’’ہ‘‘ ہو تو ’’جات‘‘ کا) اضافہ کرتے ہیں، مثلاً: مکان سے مکانات، مندرج سے مندرجات، باغ سے باغات ، پرچہ سے پرچہ جات، ضمیمہ سے ضمیمہ جات، رسالہ سے رسالہ جات، خوشبو سے خوشبویات (بوی میں یائے مستور ہے)؛ وغیرہ۔
چوتھا قاعدہ: واحد اور جمع میں عربی قواعد(جمع سالم، جمع مکسر) کا تتبع بھی کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر: جاہل سے جاہلون اور جہلا، ارم سے آرام،دِقَّت سے دقائق، حقیقت سے حقائق، کتاب سے کتب، وغیرہ۔

مذکر اور مؤنث: اردو اور عربی میں افعال کے صیغوں کی ہیئت فاعل یا نائب فاعل کی تذکیر و تانیث کے مطابق بدل جاتی ہے، جبکہ فارسی میں ایسا نہیں ہے۔ جملہ افعال کے جملہ صیغے مذکر اور مؤنث دونوں کے لئے ہیں۔یوں، مذکر اور مؤنث کی حیثیت فارسی میں قواعدی کی بجائے معنوی ہے۔ عام طور پر مذکر اور مؤنث عربی کے قاعدہ مؤنث سماعی کے مطابق ہیں اور کسی خاص لفظی ساخت کے پابند نہیں ، مثلاً: داماد (دولھا)، عروس (دلہن)، پدر (باپ)، مادر (ماں)، بانو (بیوی)، کنیز (لونڈی، نوکرانی، خادمہ)، آتون (استانی)، خاشتہ (سالی)، زن (عورت)، دختر (بیٹی)، خواہر (بہن)، وغیرہ۔ بہت سے اسماء مذکر اور مؤنث کے لئے ایک ہی صورت مروج ہے، جیسے: خیاط (درزی، درزن)، دکتر (ڈاکٹر)، خر (گدھا، گدھی)، سگ (کتا، کتیا)، وغیرہ۔ ایسے میں تخصیص کی خاطر مذکر اور مؤنث کی مرکب صورت لائی جاتی ہے، مثلاً: خیاط زن (درزن)، بیوہ مرد (رنڈوا) اور بیوہ زن (رانڈ)، کد خدا (شوہر)، کد بانو (بیوی)، جادوگر مرد، جادوگرزن، پدرِ بزرگ (دادا، نانا)، مادرِ بزرگ (دادی، نانی)، وغیرہ۔ حیوانات کے لئے بھی مرکب کی کوئی صورت لاتے ہیں، مثال کے طور پر: بُز نر (بکرا)، بُز مادہ (بکری)، گوسفند نر (مینڈھا، قوج)، گوفند مادہ (بھیڑ، میش)، گاونر (بیل) گاومادہ (گائے) وغیرہ۔

تفضیل (اسمِ صفَت کی صورتیں): جیسا کہ ہم پہلے جان چکے ہیں، اسمِ صفت وہ اسم ہے جو کسی دوسرے اسم کی کسی خوبی، خامی، وصف وغیرہ کو ظاہر کرے۔ مثلاً: خوب، بزرگ، تیز، زیرک، سیاہ، سفید، جری، وغیرہ۔ اسمِ صفت کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔ تفضیلِ نفسی یعنی جب صفت کے حوالے سے کسی دوسرے سے تقابل نہ ہو۔ تفضیلِ بعض یعنی جب اس حوالے سے کسی ایک یا زائد اسما سے موازنہ مقصود ہو۔ اس صورت میں اسمِ صفت پر تر کا اضافہ کرتے ہیں، جیسے: خوب تر، تیز تر، بد تر، کم تر، تشنہ تر، وغیرہ۔ تفضیلِ کل میں یہ تقابل بقیہ سب سے ہوتا ہے، جیسے: بد ترین، بزرگ ترین، خوب ترین، وغیرہ۔

مصدر اور اسمِ حاصل مصدر: مصدر وہ ہے جس سے تمام زمانے اور افعال اخذ کئے جاتے ہیں۔ مصدر ہی سے اس کا ہم معنی ایک ایسا کلمہ بھی اخذ کیا جاتا ہے، جس کے معانی تو اسی مصدر کے سے ہوتے ہیں، مگر حیثیت مصدرکی نہیں رہتی۔ اسے اسمِ حاصل مصدر کہا جاتا ہے ۔ اسمِ حاصل مصدر سے افعال اور زمانے اخذ نہیں ہوتے۔ مثالیں: کردن (کرنا) سے کردار، کار، کار کردگی۔ گفتن (کہنا) سے گفتار، گوئی۔ آمدن (آنا) سے آمد۔ آوردن (لانا) سے آوری، آورد۔ شکستن (ٹوٹنا، توڑنا) سے شکست، شکنی، شکن۔ برخاستن (اٹھنا) سے برخاست، بر خیزی۔ پیراستن (سنورنا، سنوارنا) سے پیرائش، پیرایہ۔ پیچیدن (لپیٹنا، لپٹنا) سے پیچ، پیچش، پیچیدگی۔ مالیدن (مَلنا) سے مالش۔ نمودن (دکھانا) سے نمائش۔ گریستن (رونا) سے گریہ، نوشتن (لکھنا) سے نوشت، نویسی۔ پرستیدن (پوجنا) سے پرستش، پرستی، وغیرہ۔

نون ناطق اور نون غنہ: جس میں آخر میں نون ساکن اور اس سے پہلے حرف علت معروف واقع ہو (لین نہیں)وہاں نون کو غنہ بھی کر دیتے ہیں، اور اسے نون ناطق بھی پڑھا جاتا ہے بشرطیکہ اس سے معانی میں کوئی فرق نہ آئے۔ مثلاً: جہان: جہاں، مکان: مکاں، مکین: مکیں، جوین: جویں، قرین: قریں، بین: بیں، جنون: جنوں، فسون: فسوں؛ وغیرہ۔ یہ نون غنہ زیرِ اضافت، زیرِ توصیفی، واوِ عطفی وغیرہ کے زیرِ اثر متحرک ہو کر نون ناطق بن جاتا ہے۔ اہلِ زبان نون غنہ کو یوں ادا کرتے ہیں کہ نہ وہ مکمل طور پر ناطق ہوتا ہے اور نہ مکمل غنہ، بلکہ ان کے بین بین ہوتا ہے۔

اسی طرح، اہلِ زبان کے ہاں، کسی لفظ کے آخر میں (اور بسا اوقات لفظ کے اندر بھی) واقع ہونے والی ’ی؍ے‘ (حرف علت) کا تلفظ یائے مجہول (ے) اور یائے معروف (ی) کے بین بین ہوتا ہے اور املاء میں بھی دونوں صورتیں درست سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً مے: می، کسے: کسی، بارے: باری، رسمے: رسمی وغیرہ۔ تاہم معانی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ یائے لِین (جہاں ’ے‘ سے پہلے حرف پر زبر ہو) کی صورت میں بھی یہ جائز ہے۔ ہم یائے لین کی صورت میں ’ے‘ اوریائے معروف کی صورت میں ’ی‘ لکھنے کی سفارش کریں گے۔

عدد، عددِ ترتیبی اور عددِ ضعفی: فارسی میں اعداد کی ترتیب اردو کی نسبت آسان ہے۔ وہ یوں کہ اردو میں ایک سے سو تک ہر عدد کے لئے ایک خاص لفظ ہے (یا ہر عدد کا ایک نام ہے)۔ فارسی میں ایک سے بیس تک ہر عدد کا اور پھر ہر دہائی کا ایک نام ہے۔ بیس اور اس سے زیادہ ہر دہائی کے بعد ایک سے نوتک کو دہائی کے ساتھ عطف کر دیتے ہیں۔ یَک، دو، سہ، چہار، پنج، شش، ہفت، ہشت، نُہ، دہ (دَس)، یازدہ، دوازدہ، سیزدہ، چہاردہ، پانزدہ: پانژدہ، ششدہ، ہفدہ، ہشدہ: ہژدہ، نوازدہ، بیست (بیس)، بیست و یک، بیست و دو، بیست و سہ، ..... سی (تیس)، سی و یَک، سی و دو، ..... ، چِہل (چالیس)، پنجاہ (پچاس)، شصت (ساٹھ)، ہفتاد (سَتّر)، ہشتاد (اَسّی)، نَود (نَوّے)، صد (سَو)، ہزار، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ معدود ہمیشہ واحد،اور اس اعتبار سے اس کا فعل بھی واحد ہوگا۔ مثال کے طور پر چہار نفر آمد (چار لوگ آئے)، وغیرہ۔ اعداد ترتیبی یعنی پہلا، دوسرا، تیسرا .... کے لئے عدد پر ’م‘ کا اضافہ کرتے ہیں: یکم، دُوُم، سِوُم، چہارُم، ..... یازدہم، دوازدہم ....بیستم (بیسواں)، بیست و یکم، بیست و دوم، .... سِیُم (تیسواں)، سی و یکم، سی و دوم، سی و سوم، .... چِہلم (چالیسواں)، پنجاہم (پچاسواں)، .... صَدُم (سَوواں)، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔ عداد ضعفی یعنی دگنا، تگنا، چو گنا، پانچ گنا .... دس گنا تک کے لئے عدد کے ساتھ چند یا برابر لگاتے ہیں اور اس سے زیادہ کے لئے برابر۔ دو چند: دو برابر، سہ چند: سہ برابر، .... نُہ چند: نُہ برابر، دہ چند: دہ برابر۔ یازدہ برابر، دوازدہ برابر۔ بیست برابر۔ صد برابر، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔
ایک خاص بات نوٹ کر لیں بعض جملوں میں لفظ ایک گنتی کی بجائے ذکر کے طور پر آتا ہے، جیسے، ایک تھا بادشاہ، میں نے ایک شخص کو دیکھا، ایک رات بہت بارش ہو رہی تھی، وغیرہ۔ اس کے لئے اسم کے ساتھ ے لگاتے ہیں، مثلاً: پادشاہے، شبے، روزے، وقتے، وغیرہ۔ فارسی میں ترکیب یکے بمعنی ایک عام مستعمل ہے، تاہم اس کے بعد حرف جار از لگایا جاتا ہے، مثلاً: یکے از سلاطینِ خراسان را شنیدہ ام کہ خیلے نکو بود ۔اس جملے کا لفظی ترجمہ ہے: میں نے خراسان کے سلاطین سے ایک کو سنا ہے کہ وہ بہت نیک تھا۔ بامحاورہ ترجمہ ہو گا: سنا ہے، خراسان کا ایک بہت نیک بادشاہ تھا۔ و علیٰ ھٰذاالقیاس۔

اتصال اور کلمۂ مرکب: فارسی زبان کا ایک امتیازی وصف اختصار اور اتصال ہے جس کی کچھ مثالیں ہم ابتدائی اسباق میں بیان کر چکے ہیں۔ایک سے زیادہ کلمات کو (اس سے قطع نظر کہ وہ قواعد کی رو سے اسم ہیں، یا فعل کا کوئی صیغہ، حرف، اسم ضمیر، وغیرہ وغیرہ)، اگر تلفظ اور املاء کے حوالے سے آپس میں یوں مل سکیں کہ معانی میں کوئی ابہام یا تبدیلی نہ آ جائے تو آپس میں ملا دئے جاتے ہیں۔ اسے ہم اپنی سہولت کے لئے مرکب لفظ یا کلمۂ مرکب کا نام دیتے ہیں۔اتصال کا کوئی لگا بندھا قانون نہیں تاہم چند موٹی موٹی باتیں ذہن نشین کر لیجئے: کہ ، نہ ، وغیرہ کی ہ ہٹائی جا سکتی ہے۔ ا، آ، وغیرہ اپنے ماقبل سے متصل ہو سکتے ہیں یا حذف ہو سکتے ہیں، مثلاً:
کزو (کہ، از، اُو)، ازاں (از، آں)، زِ من (از، من)، کیں (کہ، ایں)، زِ تو (از، تو)، چگونہ (چہ، گُونہ)، گُفتمش (گفتم، اش : میں نے اس سے کہا)، کیست (کہ، است: کون ہے)، چیست (چہ، است: کیا ہے)، نیست (نہ است: نہیں ہے)، بدیں (بہ، ایں)، بدوں: بداں (بہ، آں)، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔

فاعل غیر نمایاں: بعض جملوں میں فاعل معنوی سطح پر موجود ہوتا ہے مگر فعل کے مقابلے میں اس کی نمائندگی چنداں اہم نہیں ہوتی؛ مثلاً: لوگ کہتے ہیں (لوگ)، سپاہی سفیر کو بادشاہ کے پاس لے گئے (سپاہی)، وغیرہ۔ ایسے جملوں کو عام طور پر صیغہ جمع غائب میں بیان کیا جاتا ہے اور اس پر کوئی ضمیر ( آنان، ایشان وغیرہ) بھی نہیں لاتے ؛ مثلاً:۔ (۱): مے گویند (وہ کہتے ہیں: لوگ کہتے ہیں)۔ (۲): ابلہے را گرفتہ، بہ پیشِ فقیرے بردند (وہ : مراد ہے لوگ: ایک دیوانے کو پکڑ کر ایک فقیر کے پاس لے گئے)۔ (۳): گفتہ اند (انہوں نے کہا ہے: مراد ہے سیانے لوگوں نے کہا ہے)۔ (۴) آوردہ اند (وہ لائے ہیں: مراد ہے کتابوں میں لکھا ہے)؛ وغیرہ۔


آٹھواں سبق
فارسی ادب سے منتخب نمونوں کا آسان اردو میں ترجمہ

فارسی زبان کے قواعد کا خلاصہ بیان ہو چکا۔ اب ہم کچھ نمونے لے کر ان کا ترجمہ کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے ایک بہت اہم بات، کہ محاورے اور ضرب الامثال کا لفظی ترجمہ ممکن نہیں ہوتا، اس کا بامحاورہ ترجمہ کرنا پڑتا ہے یا یوں کہئے کہ محاورہ کے مفہوم پر مبنی جملہ بنانا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ذخیرۂ الفاظ بھی ضروری ہے اور یہ بھی کہ جہاں تراکیب کا ترجمہ کرنا ہو یا ترجمے میں تراکیب حاصل ہوں، وہاں غیر ضروری مشکل پسندی سے گریز ہی مناسب ہے۔شاعری کا ترجمہ کرتے وقت ان شعری صنعتوں کو بھی پیشِ نظر رکھنا پڑتا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے مفاہیم و مطالب پر اثر انداز ہوتی ہوں۔ اس کے برعکس لفظی صنعتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، بدیں وجہ ترجمہ میں اصل کی سی چاشنی باقی نہیں رہتی۔ شعر سے شعر میں ترجمہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور ایسا کوئی پختہ کارشاعر ہی کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ دونوں زبانوں کا مزاج آشنا ہو، ورنہ ایسی کوشش بجائے خود مضحکہ خیز ہو سکتی ہے۔

مولانا جامی کی ’’بہارستان‘‘ سے کچھ منتخب حکایات کا سادہ ترجمہ
(۱) نابینایے در شبِ تاریک چراغی در دست و سبویی بر دوش در راہی می رفت۔ فضولی بہ وی رسید و گفت: ’’اَی نادان! روز و شب پیشِ تو یکسان است و روشنی و تاریکی در چشمِ تو برابر، ایں چراغ را فایدہ چیست؟‘‘ نابینا بخندید و گفت: ’’این چراغ نہ از بہرِ خود است، از برایِ چوں تو کُور دلانِ بے خرد است تا با من پہلو نرنند و سبویِ مرا نشکنند۔
مباحث: نابینایی: ایک نابینا۔ اس میں آخری ’ی‘ کا معنی ’ایک‘ ہے اور اس سے پہلی ’ی‘ فارسی سے خاص ہے۔ یہ ایسے اسماء کے آخرمیں لایا کرتے ہیں جو حرفِ علت ’الف‘ یا ’واؤ‘ پر ختم ہوں۔ چراغی، سبویی، فضولی میں بھی ’ی‘ کا معنی ’ایک‘ ہے۔ نوٹ کریں کہ فارسی لکھتے ہوئے ’ی‘ اور ’ے‘ میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔مے رفت: وہ جاتا تھا، وہ جا رہا تھا، وَی: وہ، بہ وَی: اسے، گفت: کہا، کہنے لگا، پیشِ تو: تیرے سامنے، تیرے لئے، در چشم تو برابر: تیری آنکھ (نظر) میں برابر، را: کو (کبھی کبھی اس کا معنی کا، کے لئے بھی کیا جاتا ہے)، بخندید: خندیدن مصدر سے خندید فعل ماضی مطلق ، صیغہ واحد غائب اور ’ب‘ تاکیدی (وہ ہنسا، وہ ہنس دیا)، نہ از بہرِ خود است: اپنے لئے نہیں ہے، چون: جب، جیسا، کور: اندھا، کور دلان: دل کے اندھے، تا: تا کہ، با من: میرے ساتھ، مجھے، نزنند: زدن (مارنا) مصدر سے مضارع زند، فعل مضارع صیغہ جمع غائب زنند،اور ’ن‘ نافیہ: وہ نہ ماریں۔ سبویِ مرا: میرے سبو کو، اسے ’سبویم را‘ بھی لکھا جا سکتا ہے۔ نشکنند: شکستن (توڑنا) مصدر سے فعل مضارع منفی، صیغہ جمع غائب: نہ توڑیں، توڑ نہ دیں۔
ترجمہ: ایک نابینا، اندھیری رات میں، ہاتھ میں دیا اور کندھے پر صراحی، راہ میں جارہا تھا۔ایک بیہودہ شخص اس تک پہنچا (اسے ملا) اور بولا: ’’اے نادان! تیرے لئے دن اور رات ایک ہیں اور روشنی اور اندھیرا تیرے لئے برابر، اس دیے کا کیا فائدہ؟‘‘ نابینا ہنس دیا اور بولا: ’’یہ دیا میرے اپنے لئے نہیں ہے، تیرے جیسے بے وقوف، دل کے اندھوں کے لئے ہے کہ میرے ساتھ ٹکرا نہ جائیں اور میری صراحی نہ توڑ دیں۔

(۲) اعرابی ای شتری گم کردہ، سوگند خورد کہ چون بیابد بہ یک درم بفروشد۔ چون شتر یافت، از سوگندِ خود پشیمان شد۔ گربہ ای در گردنِ شتر آویخت و بانگ می زد کہ: ’’کہ می خَرد شتری بہ یک درم و گربہ ای بہ صد درم؟ امّا، بی یک دیگر نمی فروشم۔‘‘
مباحث: اعرابی ای، شتری میں ’ی‘ بمعنی ’ایک‘۔ سوگند خورد: قسم کھائی، بیابد: یافتن (پانا، حاصل کرنا) مصدر سے فعل مضارع، ب تاکیدی، بفروشد: فروختن (بیچنا) مصدر سے فعل مضارع، ب تاکیدی۔ گربہ ای: ایک بلی، آویخت: آویختن (سجانا، لگانا، ڈالنا) مصدر سے فعل ماضی مطلق، بانگ می زد: آواز دیتا تھا، آواز دینے لگا، کہ: کون، مے خَرَد: خریدن (خریدنا) مصدر سے فعل حال، یاد رہے کہ اس کا تلفظ خَ رَد ہے، خَرِد (عقل) کا تلفظ خِ رَد ہے۔ کہ می خَرد: کون خردیدتا ہے؟ یک: ایک، صد: سو، اما: لیکن، مگر، بے یک دیگر: ایک کے بغیر دوسرا، الگ الگ، نمے فروشم: فروختن مصدر سے فعل مضارع منفی، صیغہ واحد متکلم۔ میں نہ بیچوں ، نہ بیچوں گا۔
ترجمہ: ایک بدو کا اونٹ گم ہو گیا۔ اس نے قسم کھائی کہ اونٹ مل گیا تو ایک درم میں بیچ دوں گا۔ جب اونٹ اسے مل گیا تو اپنی قسم پر پشیمان ہوا۔ ایک بلی اونٹ کی گردن سے لٹکا دی اور آواز دینے لگا: ’’کوئی ہے جو ایک درم میں اونٹ اور ایک سو درم میں بلی خرید لے، مگر میں (ان دونوں) کو الگ الگ نہیں بیچوں گا۔‘‘

(۳) طبیبی را دیدند کہ ہرگاہ بہ گورستان رسیدی، ردا در سر کشیدی۔ از سببِ آنش سؤال کردند۔ گفت: ’’از مُردگانِ این کورستان شرم می دارم۔ بر ہر کہ می گزرم ضربتِ من خوردہ است، و در ہر کہ می نگرم از شربتِ من مردہ‘‘۔
مباحث: طبیبی: ایک طبیب، دیدند: انہوں نے دیکھا۔ لوگوں نے دیکھا، ہرگاہ: جب بھی، جب کبھی، رسیدی، کشیدی: یہ ماضی شرطی کے صیغے (واحد غائب) ہیں، ان کو ماضی مطلق کے صیغوں (واحد حاضر) سے خلط ملط نہ کیا جائے، یہاں معنی ماضی استمراری کا آ رہا ہے، وہ پہنچتا، وہ کھینچ لیتا، سببِ آنش: یہاں ’آن‘ اسم اشارہ عمل کی طرف ہے اور ’ش‘ ضمیر طبیب کی طرف۔ از سبب آنش سؤال کردند: (لوگ) طبیب سے اس کی وجہ پوچھتے، بر ہر کہ: جس کسی پر۔ مے گزرم: میں گزرتا ہو، مے نگرم: میں دیکھتا ہوں۔
ترجمہ: لوگوں نے ایک طبیب کو دیکھا کہ وہ جب کبھی قبرستان میں جاتا، چادر کو سر پر کھینچ لیتا (منہ چھپا لیتا)۔ طبیب سے اس کا سبب دریافت کیا، وہ کہنے لگا: مجھے اس گورستان کے مُردوں سے شرم آتی ہے، میں جس کے پاس سے گزرتا ہوں، میری چوٹ کھایا ہوا ہے، اور جسے دیکھتا ہوں، میرے شربت کا (میرا شربت پینے کی وجہ سے) مرا ہوا ہے۔

(۴) روباہ را گفتند: ’’ہیچ توانی کہ صد دینار بِسِتانی و پیغامی بہ سگانِ دِہ رسانی؟‘‘ گفت: ’’واللہ، مُزدی فراوان است، اما در این معاملہ خطرِ جان است‘‘۔
مباحث: روباہ: لومڑی، عیاری اور چالاکی کی علامت، ہیچ توانی: ہیچ کا لفظی معنی ہے ’کم، تھوڑا‘ مصدر توانیدن (طاقت ہونا) سے فعل مضارع صیغہ واحدحاضر، تو کر سکتا ہے۔ با محاورہ ترجمہ ہوا: کیا تیرے لئے ممکن ہے؟ ستانی: تو لے لے، ب تاکیدی، پیغامی: ایک پیغام، سگانِ دِہ: گاؤں یا بستی کے کتے، رسانی: تو پہنچائے، مزدی: اجرت، فراوان: بہت، زیادہ۔
ترجمہ: کسی نے لومڑی سے کہا: کیا تو یہ کر سکتی ہے کہ ایک سو دینار لے لے اور ایک پیغام بستی کے کتوں تک پہنچا دے؟ اس نے کہا: خدا کی قسم، اجرت بہت (مناسب) ہے مگر اس معاملے میں جان کا خطرہ ہے۔

(۵) روباہ بچہ ای با مادرِ خود گفت: ’’مرا حیلہ ای بیاموز کہ چون بہ کشا کشِ سگ درمانم، خود را از او برہانم‘‘۔ گفت: ’’حیلہ فراوان است، اما بہترین ہمہ آن است کہ در خانہ خود بنشینی، نہ او ترا بیند نہ تو او را بینی‘‘۔
مباحث: حیلہ: چال، مکر، طریقہ، مرا: مجھے، بیاموز: آموختن (سکھانا) مصدر سے فعل امر: آموز، ب تاکیدی، کشا کش: کشتی، ہاتھا پائی، کھینچا تانی، درمانم: درماندن (عاجز آ جانا) سے فعل مضارع صیغہ واحد متکلم: میں بے بس ہو جاؤں، برہانم: ب تاکیدی، رہانم: چھڑا لوں، بہترینِ ہمہ آن است: سب سے بہتر یہی ہے، بنشینی: تو بیٹھ رہ۔
ترجمہ: لومڑی کے بچے نے اپنی ماں سے کہا: ’’مجھے ایسی چال سکھا کہ جب کتے سے کھینچا تانی میں بے بس ہوجاؤں تو خود کو چھڑا لوں‘‘۔ اس نے کہا: ’’طریقے بہت ہیں، مگر بہترین یہی ہے کہ تو اپنے گھر میں بیٹھ رہ، نہ وہ تجھے دیکھے اور نہ تو اسے دیکھے۔

مولانا جلال الدین رومی کے متعلق ڈاکٹر عبدالحسین زرین کوب  کے مضمون کے منتخب حصے کا ترجمہ
(۶) مولانا، صحبت با فقرای اصحاب را بیش از ہر چیز دوست می داشت و آن را بر صحبت با اکابرِ شہر ترجیح می داد۔ شفقتِ او شامل حیوانات ہم می شد وہ یاران را از آزارِ جانوران مانع می آمد۔بہ یاران تعلیم می داد کہ جوانمرد از رنجاندنِ کس نمی رنجد، و کسی را نمی رنجاند۔ در گزر از کویی، یک روز دو تن را در حالِ نزاع دید۔ یکی بہ دیگری پرخاش می کرد کہ: ’’اگر یکی بہ من گوئی، ہزار بشنوی‘‘۔ مولانا رو بہ آن دیگری کرد و گفت: ’’ہر چہ خواہی بہ من گوی کہ اگر ہزار گویی یکی ہم نشنوی‘‘۔..... زندگی وی با قناعت و گاہ با قرض می گزشت۔ اما ازین فقرِ اختیاری ہیچ گونہ نا خورسندی نشان نمی داد۔ سادہ، بی تجمل و عاری از رُوی و ریا بود۔ با اہل خانہ دوستانہ می زیست۔ لباس و غذا و اسباب خانہ اش سادہ بوہ۔ غذای او غالباً از نان و ماست یا ما حضری محَقَّر تجاوز نمی کرد۔ از زندگی فقط بہ قدرِ ضرورت تمتع می برد۔
مباحث: باذوق احباب کو مندرجہ بالا اقتباس کی لفظیات نامانوس نہیں لگی ہو گی۔ پہلے ایک نظر ان الفاظ کو دیکھ لیں جو اردو اور فارسی میں معمولی معنوی فرق کے ساتھ یا یکساں مستعمل ہیں: مولانا، صحبت با فقرا، اصحاب، بیش، ہر چیز، دوست، داشت، صحبت، اکابرِ شہر، ترجیح، شفقت، شامل، حیوانات، یاران، آزار، جانوران، مانع، آمد، تعلیم، کہ، جوانمرد، رنج، کس، کسے، در گزر، کوی، یک روز، دو، در حالِ نزاع، دید، یکے بہ دیگرے، پرخاش، اگر، گوئی، ہزار، رو، ہر چہ، زندگی، با قناعت، گاہ، با قرض ، گزشت، فقرِ اختیاری، ہیچ، گونہ، نا خورسندی، نشان، سادہ، بی تجمل، عاری از رُوی و ریا، اہل خانہ، دوستانہ، لباس و غذا و اسباب خانہ، سادہ، غذا، غالباً، نان و ماست، ما حضر، تجاوز، فقط، بہ قدرِ ضرورت، تمتع۔آپ نے دیکھا کہ الفاظ کی یہ فہرست اصل (مکمل) عبارت کے تین چوتھائی کے قریب ہے، باقی ایک چوتھائی حصہ افعال اور گردان وغیرہ کا ہے، جس کی تفہیم چنداں مشکل نہیں، بہت سے افعال و الفاظ پر مولانا جامی کی حکایات کی ذیل میں بحث ہو چکی، چند قابل توجہ نکات ملاحظہ فرمائیے: اس اقتباس میں زیادہ جملے فعل ماضی استمراری کے ہیں، ایک آدھ جملہ فعل مضارع اور فعل ماضی مطلق کا ہے۔ بعض الفاظ کے ساتھ ’ے‘ غیر ناطق آئی ہے۔یاد رہے کہ فارسی میں ایسے اسماء اور افعال کے آخر میں جو کسی حرف علت پر ختم ہوں، ’ے‘ غیر ناطق موجود ہوتا ہے جسے بالعموم لکھا نہیں جاتا (ڈاکٹر عبدالحسین زرین کوب نے اسے لکھا ہے) مثلاً کوے (گلی)، گوے (کہہ)، وغیرہ۔ دوست می داشت: عزیز رکھتا تھا، بیش از ہر چیز: سب سے زیادہ، ہم: بھی، مانع می آید: منع کرتا تھا، رنجیدن: دکھ ہونا، رنجانیدن: دکھ دینا، کس کسے: کوئی شخص، دو تن: دو شخص، اگر یکی بہ من گویی، ہزار بشنوی: اگر تو مجھے ایک کہے گا تو ہزار سنے گا، ہر چہ خواہی بہ من گوی: مجھے جو چاہے کہہ لے، اگر ہزار گویی یکی ہم نشنوی: اگر تو ہزار کہہ لے گا تو ایک بھی نہیں سنے گا، گاہ: کبھی، ہیچ گونہ: ذرہ بھر، ناخرسندی: ناخوشی، غم، رنج، نشان نمی داد: دکھائی نہ دیتی تھی، بے تجمل: دکھلاوے سے پاک، عاری از روی و ریا: ٹھاٹ باٹ اور شہرت سے پاک، اسبابِ خانہ اش: اس کے گھر کا سامان، نان و ماست: روٹی اور دہی، ما حضری محقر: روکھی سوکھی، تمتع می برد: فائدہ اٹھاتا تھا۔ ایک خاص بات نوٹ کریں کہ فارسی میں ’ی‘ اور ’ے‘ کی املا میں فرق نہیں رکھا جاتا، اس لئے یہاں اِشکال سے بچنے کے لئے الفاظ سے شناسائی بہت ضروری ہے۔
ترجمہ: مولانا فقیر لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو ہر شے پر مقدم رکھتے تھے اور اسے شہر کے اکابرین کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے پر ترجیح دیتے تھے۔ آپ کی شفقت حیوانات پر بھی تھی اور ساتھیوں کو جانوروں پر آزار سے منع کیا کرتے۔ ساتھیوں کو تعلیم دیتے کہ جوانمرد وہ ہے جسے کوئی دکھ دے تو وہ رنجیدہ نہ ہو اور خود کسی کو دکھ نہ دے، ایک گلی سے گزرتے ہوئے، ایک دن، دو آدمیوں کو جھگڑتے دیکھا، ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا: اگر تو مجھے ایک کہے گا تو ہزار سنے گا۔ مولانا نے اس کی طرف منہ کیا (مخاطب کیا، توجہ دلائی) اور کہا: مجھے جو چاہے کہہ لے، اگر تو ہزار کہہ لے گا تو ایک بھی نہیں سنے گا۔ .... آپ (مولانا) کی زندگی قناعت کے ساتھ اور بارہا قرض کے ساتھ گزرتی، مگر اس اختیاری فقر کی وجہ سے کسی رنج کا نشان نہ ملتا۔ (آپ کی زندگی) سادہ، ٹھاٹ باٹ سے اور نام و نمود سے پاک تھی۔ اہلِ خانہ کے ساتھ آپ دوستوں کی طرح رہتے۔ آپ کا لباس، غذا اورگھر کا سامان سادہ تھا۔ آپ کی غذا میں روٹی اور دہی یا بچے کھچے کھانے سے زیادہ کچھ نہ ہوتا۔ وہ زندگی سے بہ قدرِ ضرورت فائدہ اٹھاتے۔

فارسی شاعری سے اردو ترجمہ
(۷) اس مقصد کے لئے ہم نے اقبال کی ’’پیامِ مشرق‘‘ سے ایک نظم ’’محاوہ ما بین خدا و انسان‘‘ (خدا اور انسان کا مکالمہ) اور دوسری نظم ’زندگی‘‘ کا انتخاب کیا ہے۔ ہمارا مقصداشعار کی تشریح کرنا نہیں بلکہ اس کے سادہ اور مختصر معانی کو اردو میں رقم کرنا ہے۔پہلی نظم کے دو حصے ہیں: پہلے چھ مصرعے اقبال نے خدا کی طرف سے اور دوسرے چھ مصرعے انسان کی طرف سے ادا کئے ہیں۔ دوسری نظم میں زندگی کا مفہوم مظاہرِ فطرت کی زبان سے بیان کیا گیا ہے۔
خدا
جہاں را زِ یک آب و گل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
من از خاک پُولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
انسان
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
مباحث: زیک: (از، یک)، آفریدم: میں نے پیدا کیا، آفریدی: تو نے پیدا کیا، پولادِ ناب: فولاد، تفنگ: توپ، تبر: کلہاڑی، را: کو، کے لئے، سے، ساختی: تو نے بنایا، سفال: مٹی، ایاغ: برتن، پیالہ، راغ: خار و خس، من آنم ( من آن ہستم): میں وہ ہوں، کہ: جو، جس نے، جسے، سازم: بناؤں، بناتا ہوں، نوشینہ: پینے کی چیز، مشروب، دوائی، تریاق۔
ترجمہ: خدا کہتا ہے: میں نے تو جہان کو ایک ہی آب و گل سے پیدا کیا اور تو نے ایران، تاتار اور زنگ (نسلی اور علاقائی امتیازات) پیدا کرلئے۔ میں نے مٹی سے فولاد جیسی مفید شے پیدا کی اور تو نے تلوار، تیر اور توپ (تباہی کے سامان) بنا لئے۔ تو نے نہالِ چمن سے کلہاڑا (درخت کاٹنے کا اوزار) بنا لیا،اور (اس نہال کی شاخوں سے) گیت گانے والے پرندے کے لئے پنجرہ بنا ڈالا۔
انسان کہتا ہے: تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنا لیا، تو نے مٹی بنائی اور میں نے پیالہ (کام کی شے) بنا لی۔ تو نے صحرا، کہسار، اور خار و خس پیدا کئے، میں نے (انہی کو کام میں لا کر) سڑکیں، گلزار اور باغ بنا لئے۔ میں وہ ہوں جو پتھر سے آئینہ بناتا ہوں ، میں وہ ہوں جو زہر سے تریاق بنا لیتا ہوں۔

زندگی
شبی زار نالید ابرِ بہار
کایں زندگی گریۂ پیہم است
درخشید برقِ سبک سیر و گفت
خطا کردۂٖ، خندۂ یک دم است
ندانم بہ گلشن کہ برد ایں خبر
سخن ہا میانِ گل و شبنم است
مباحث: شبی: ایک رات، زار: زار و قطار، بہت زیادہ، نالید: رویا، کایں: (کہ، ایں)، گریۂ پیہم: مسلسل رونا، درخشید: چمکی، سبک سیر: تیز دوڑنے والی، خطا کردۂٖ (خطا کردہ ای): تو نے غلطی کی، تو بھول گیا، تو نے غلط کہا، خندہ: ہنسی، ندانم(نہ دانم): مجھے نہیں معلوم، میں نہیں جانتا، کہ: کون، سخنہا: باتیں۔
ترجمہ: ایک رات ابرِ بہار زار و قطار رویا (اور کہا) کہ یہ زندگی تو متواتر رونے کا نام ہے۔ سبک سیر بجلی چمکی اور بولی: تو نے غلط کہا! (یہ زندگی) ایک لمحے کی ہنسی ہے۔ مجھے نہیں معلوم (اس مکالمے کی) خبر گلشن میں کون لے گیا۔ پھول اور شبنم کے درمیان (اس پر) باتیں ہو رہی ہیں۔


دوسرا حصہ
زبانِ یارِ مَن

جب ہم کسی زبان کے قواعد کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم موجود الفاظ سے جملے بنانے کے ساتھ ساتھ ان سے نئے الفاظ بھی حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے نئے الفاظ کو ہم دو بڑے گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا گروہ مشتقات کا ہے اور دوسرا مرکبات کا۔ مشتقات ایسے الفاظ ہیں جو کسی دوسرے لفظ سے مشتق ہوں۔ جیسے مصدر سے اس کا مضارع، افعال اور افعال کے تمام صیغے، واحد سے جمع وغیرہ حاصل کرنا۔مرکبات کی دو صورتیں ہیں ایک تو معنوی سطح پر ہے جن کو ہم مرکب تام یا مرکب ناقص کے طور پر زیرِمطالعہ لا چکے ہیں اور دوسری لفظی سطح پرہے۔ اس سطح پر بننے والے نئے الفاظ سے نئے معانی بھی حاصل ہو سکتے ہیں تاہم زیادہ توجہ الفاظ کی ساخت اور صوتیت پر دی جاتی ہے، جسے سادہ الفاظ میں املاء اور ادائیگی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

مناسب ہے کہ فارسی کے مروج حروف ہجا اور اُن کی صوتیت کو پہلے سمجھ لیا جائے۔ اس مقصد کے لئے ہم حسبِ ضرورت اردو اور دیگر فارسی الخط زبانوں کے علاوہ رومن خط والی زبانوں سے بھی کریں گے تاکہ تفہیم میں آسانی ہو سکے ۔ صوتیت کے اعتبار سے حروف کی دو صورتیں ہیں۔حروفِ علت اور حروفِ ناطق۔ حروفِ علت تین ہیں: الف، واؤ، اور یائے۔ ایک واوِ معدولہ ہے، ایک یائے غیرمتلؤ ہے۔ باقی سب حروف ناطق ہیں۔ یاد رہے کہ فارسی میں حروف مرکب اور حروف مدغم کا کوئی تصور نہیں۔ یائے کو ی یا ے دونوں صورتوں میں لکھا جاتا ہے اور یائے معروف پڑھا جاتا ہے تاآنکہ اعراب اسے لین نہ ثابت کریں۔ایسا ہی معاملہ واؤ کا ہے تا آنکہ وہ لین یا معدولہ ثابت نہ ہو جائے۔ (یہاں جدول الف تھا جسے غیر ضروری جانتے ہوئے حذف کر دیا گیا ہے) کچھ اشارات درجِ ذیل ہیں:
الف:متحرک ہونے کی صورت میں یہ ناطق ہوتا ہے اور صوتیت (اس پر واقع ہونے والی حرکت کے مطابق) انگریزی کےinitial vowel مصداق ہوتی ہے۔ ساکن ہو تویہ حرف علت ہوتا ہے اور اس سے پہلا حرف مفتوح سمجھا جاتا ہے۔ فارسی لہجے کے مطابق الف علت کی حرکت واو علت کی طرف مائل ہوتی ہے۔
واو: واوِ علت سے پہلا حرف مضموم سمجھا جاتا ہے۔ فارسی لہجے کے مطابق واوِعلت کی حرکت اردو کے واوِمجہول اور عربی کے واوِمعروف کے بین بین ہوتی ہے۔ واوِ علت کا ماقبل مفتوح ہو تو یہ واوِ لین بن جاتا ہے۔
یائے: یائے علت کو اس کی شکل (ی یا ے) سے قطع نظر یائے معروف پڑھا جاتا ہے، اور اگر اس کا ماقبل مفتوح ہو تو اس صورت میں یہ یائے لین بن جاتا ہے۔
ہ اور ھ: فارسی میں چونکہ مرکب حروف بھ، پھ وغیرہ نہیں ہوتے اس لئے یہ دونوں صورتیں ہائے ہوز کی ہوتی ہیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ ہائے مجزوم سے پہلا حرف کو مکسور ہوتا ہے،ماسوائے نَہ (نہیں)، بَہ (ساتھ) کے یا جہاں اسکے ماقبل پر بالفعل فتحہ یا ضمہ واردہو۔ اردو میں قاعدۂ کسرہ کی سختی سے پابندی نہیں جاتی اور اکثر مقامات پر اس کے ماقبل کو مفتوح سمجھ لیا جاتا ہے۔
واوِ معدولہ: یہ فارسی کے ساتھ خاص ہے۔اسے واو سے ممتاز کرنے کے لئے اس کے نیچے علامت کسرہ سے ملتی جلتی علامت لگا دی جاتی ہے۔ واوِ معدولہ صرف خ کے بعد آتا ہے اور وہ بھی ہر جگہ ضروری نہیں ۔ عمومیت کے لئے جان لیں کہ جہاں خو (خ و) کے فوراً بعد ا، د، ر، ش، ے میں سے کوئی حرف واقع ہو تو ایسی واو پر واوِ معدولہ کا احتمال ہوتا ہے بشرطیکہ اس طرح بننے والا لفظ فارسی الاصل ہو۔ مثلاً: خواب، خوار، خواہش، خود، خودی، خورشید،خوردہ، خوش، خوشا، خویش، وغیرہ میں واو معدولہ ہے جب کہ خوف،خوب،خون، وغیرہ میں واوِ علت ہے۔اور خواص، اخوان،خواتین، وغیرہ میں یہ واوناطق ہے۔

یہاں تک کی بحث میں حرف اور لفظ کی بہت تکرار ہوئی ہے۔ تکرار مزید نے بچنے کے لئے مناسب ہے کہ حرف، لفظ اور کلمہ کی توضیح ہو جائے۔ حرف سے عام طور پر حرف ہجاء مراد لیا جاتا ہے ،حرفوں کے ملنے سے الفاظ بنتے ہیں۔ کلمہ وہ لفظ یا حرف ہے جس کا کوئی مفہوم بنتا ہو،اس کا متضاد مہمل کہلاتا ہے۔ فارسی میں ایک حرف پر مشتمل کلمات بھی ملتے ہیں۔ علم صرف میں ف، ع، ل کو حرف کی بجائے کلمہ کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے حرف ضروری نہیں کہ اکیلا حرفِ ہجا ہو، یہ دراصل کلمات ہوتے ہیں جنہیں اصطلاحاً حرف کہا جاتا ہے اور حرفِ عطف، حرفِ جر، حرفِ اضافت وغیرہ اسی ذیل میں آتے ہیں۔ اسم فعل اور حرف مل کر مرکبات بناتے ہیں۔

کلمات کی صوتیت اور اعراب کے تعین کے لئے ان کے اصل کا معلوم ہونا از بس ضروری ہے۔ مصدر کو لے لیں۔ مصدر اسمِ معرفہ کی وہ صورت ہے جس کے معانی میں کسی کام کا واقع ہونا (زمانے کے تعین کے بغیر) پایا جائے۔ اردو میں اس کا متقابل فعل تام اور انگریزی میں infinitive verb کہلاتا ہے۔ عمومی گفتگو میں فعل تام کو مصدر بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ فارسی کا مصدر ایک یا ایک سے زائد کلمات پر مشتمل ہو سکتا ہے،تاہم کلیہ یہ ہے مصدر کا قافیہ ہمیشہ تَن یا دَن ہو گا۔کوئی تیسریْ صورت ہو ہی نہیں سکتی۔ قافیہ سے پہلے واقع ہونے والے حروف اور ان کی حرکات متعین ہیں اور اِس میں ہمیں اہل زبان کا تتبع کرنا ہو گا۔ اسی طور پر مضارع کے الفاظ بھی متعین ہیں، تاہم وہاں شرط یہ ہے کہ مضارع کا آخری حرف بہر صورت دال مجزوم ہوتا ہے اور اس سے ماقبل پر ہمیشہ زبر (فتحہ) واقع ہوتا ہے۔ مصدر کا نون ہٹا کر آخری حرف کو ساکن کرنے سے فعل ماضی حاصل ہوتا ہے۔ اردو میں فعل تام کی علامت یہ ہے کہ اس کے آخر میں ہمیشہ نا آتا ہے۔ اسی طرح انگریزی کا infinitive verb ہمیشہ to سے شروع ہوتا ہے اور to کے بعد verb کی پہلی فارم آتی ہے۔ یہاں بھی ہمیں اہلِ زبان کا تتبع کرنا ہوتا ہے۔ مصدر سے حاصل ہو نے والے مشتقات کا ذکر آگے آئے گا۔ جملہ مصادر، اُن کے مضارع اور اعراب کا احاطہ اس مضمون میں قطعاً ممکن نہیں۔
۱۔ عام طور پر اعراب لگائے نہیں جاتے اور قواعد سے نابلد قاری مغالطے کا شکار ہو سکتا ہے۔بالفاظِ دیگر: تقریباً جملہ مشتقات کے اعراب اور تلفظ کا فیصلہ قواعد کرتے ہیں، اور ان اعراب میں تبدیلی بھی کسی نہ کسی قاعدے کے تحت ہوتی ہے۔ مختلف لہجوں اور اسالیب کی وجہ سے التباس البتہ پیدا ہو جاتا ہے، جس کا بہترین حل مطالعہ ہے۔ قاعدے کی تفہیم کے لئے ہم ان تینوں مصادر کے مذکورہ مشتقات کا تجزیہ کرتے ہیں: (۱) خواندن کاآخری ن ہٹا دیں، اُس سے پہلا حرف ازخودساکن ہو جائے گا ، اس طرح فعل ماضی خوانْد حاصل ہوتا ہے۔ جس کا تلفظ خانْد ہے ( خ کے بعد واوِمعدولہ ہے)۔ مضارع متعین ہے جس کے کلمہ ماقبل د (اس مضارع میں ن) پر قاعدے کے مطابق زبر آتا ہے اور علامتِ مضارع ( د) پر جزم۔ لہٰذا یہاں مضارع کا متن خوانَدْ ہے۔ (۲) بُردَن کا ن ہٹانے سے بُرد باقی بچا جو فعل ماضی ہے ، مضارع بَرَدْمذکورہ بالا شرائط پر پورا اترتا ہے۔ (۳) اسی قیاس اور قاعدے کے مطابق مصدر بُودَن کا فعل ماضی بُوْد اور مضارع بَوَدْ حاصل ہوتا ہے۔
۲۔ کچھ مصادر (ساختن برخاستن شناختن انگیختن گریستن داشتن) میں قافیہ تَن سے فوراً پہلے واقع ہونے والا حرف (جو عام طور پر خ، س، ش ہوتا ہے) ساکن مگر غیرمجزوم ہے۔ ان کلمات کی قرأت میں اس خ، س، ش کو ہم نہ تو اس کے ماقبل سے ملا سکتے ہیں اور نہ مابعد سے۔ یہاں مصدر اور فعل ماضی کا تلفظ بالترتیب یوں ہو گا: سا خ تَن اور ساخ ت، بَر خا س تَن اوربَر خا س ت، شَ نا خ تَن اور شَ نا خ ت، اَن گے خ تَن اور اَن گے خ ت، گَ رِی س تَن اور گَ رِی س ت، دا ش تَن اور دا ش ت۔ بے شمار مصادر ایسے مزید ہیں مثلاً: فروختن (بیچنا) فروخت، اندوختن (سمیٹنا) اندوخت، سوختن (جلانا) سوخت وغیرہ۔ ایسے کلمات کی ادائیگی توجہ طلب ہوا کرتی ہے۔ان کو ساخَت، برخاسَت، شناخَت، انگیخَت، گریسَت، داشَت، فروخَت، اندوخَت، سوخَت پڑھنا غلط ہے۔
۳۔ مصادر آمدن،گفتن،شستن،نمودن،رُستن کے مضارع (آید، گوید، شوید، نماید، روید) میں علامت مضارع سے پہلے ی آتا ہے جسے بسا اوقات ہمزہ مکسور سے بدل دیتے ہیں (آئد،گوئد، شوئد، نمائد، روئد) اور اسے درست سمجھا جاتا ہے۔
مضارع سے علامتِ مضارع (د) ہٹا دیں تو فعل امر کا صیغہ واحد حاضر حاصل ہوتا ہے، اور یہی کلمہ اسم فاعل کا معنیٰ بھی دیتا ہے۔ بسا اوقات فعل امر سے پہلے بَ کا اضافہ کرتے ہیں، یوں وہ اسمِ فاعل سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ اہلِ زبان مضارع پر بَ داخل کرکے مضارع تاکیدی بناتے ہیں۔

یائے غیر متلو (یائے مستور) : درجِ ذیل مصادر اور ان کے مشتقات کا بغور مطالعہ کیجئے:
مصدر :: مضارع :: اسمِ فاعل :: فعل امر (صیغہ واحد حاضر) :: مضارع تاکیدی
نوشتن (لکھنا)، نویسد (لکھے)، نویس (لکھنے والا)، نویس، بنویس (لِکھ)، بنویسد (لکھے)
نوشیدن (پینا)، نوشد (پئے)، نوش (پینے والا)، نوش، بنوش (پی)، بنوشد (پیوے)
رفتن (جانا)، رَوَد (جائے)، رَو (جانے والا)، رَو، برَو (جا)، بَرَوَدْ (جاوے)
آموختن (سِکھانا)، آموزد (سِکھائے)، آموز (سِکھانے والا)، آموز ، بیاموز (سِکھا)، بیاموزد (سِکھاوے)

ان کے مقابلے میں درج ذیل فہرست ملاحظہ کیجئے اور فرق دیکھئے:
مصدر :: مضارع :: اسمِ فاعل :: فعل امر (صیغہ واحد حاضر) :: مضارع تاکیدی
آمدن (آنا)، آید،  آ (آنے والا) آ، بیا (آ)، بیاید (آوے)
آسُودن (آرام دینا)، آساید، آسا (آرام دینے والا)، آسا،بیاسا (آرام دے)، بیاساید (آرام دیوے)
گفتن (کہنا)، گوید، گو (کہنے والا)، گو، بگو (کہہ)، بگوید (کہے)
شُستن (دھونا)، شوید، شُو (دھونے والا)، شُو، بشو (دھو)، بشوید (دھووے)
نمودن (دکھانا)، نماید، نما (دکھانے والا)، نما، بنما (دکھا)، بنماید (دکھاوے)
رُستن (اُگنا)، رُوید، رُو (اُگنے والا)، رُو، بَرُو، (اُگ)، بَرُوْیَد (اُگے)
۱۔ آموز، آموزد، آ، اور آمد پر جب بَ تاکیدی داخل ہوا تو یہاں ی کیونکر پیدا ہو گیا؟ ہوا یوں ہے کہ: الف ممدودہ (آ) جسے عرف عام میں الف مدّہ کہا جاتا ہے، عربی میں ہمزہ اور الف کا مجموعہ ہے۔ جب کہ فارسی اور اردو میں یہ دو(۲) الف کا مجموعہ مان لیا گیا ہے، صوتی اصل اس کی وہی ہے ۔ اس سے قبل بَ شامل ہونے سے لفظ کے اتنے حصے کا تلفظ بآ ہوتا جو خاصا مشکل ہے۔ اہلِ زبان نے ہمزہ کی جگہ ’’ی‘‘ کی آواز رکھ کر اسے آسان کر لیا، اور املاء میں بھی ہمزہ کی جگہ ی نے لے لی۔ اسے یائے غیر متلو پر محمول نہ کیا جائے، اس کا قاعدہ آگے آتا ہے۔ متعدد الفاظ ایسے بھی موجود ہیں (عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں) جہاں ایک متحرک حرف کے فوراً بعد ہمزہ (یا اس کا قائم مقام الف) متحرک آتے ہیں، مثلاً: مآل (نتیجہ)، قاآنی یا قآنی(ایک ایرانی قبیلہ)، کَآن (کہ،  آن)، کَاِین (کہ  این)، وغیرہ۔ کآن، کاین کو کان اور کِین بھی لکھتے اور بولتے ہیں جبکہ معنیٰ یہی رہتا ہے۔
۲۔ اس جدول کی دوسری فہرست میں شامل مضارع یہ ہیں: آید، آساید، گوید، شوید، نماید، رُوید۔قاعدے کے مطابق فعل امر یا اسم فاعل بنانے کے لئے علامت مضارع (د) کو ہٹایا جائے تو بقیہ الفاظ کی املا بالترتیب آی، آسای، گوی، شُوی، نمای، رُوی بچتی ہے جس میں شامل ی اپنے ماقبل سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔ اہل زبان ایسی ی کو ادا نہیں کرتے اور بسا اوقات لکھتے بھی نہیں۔ اس کو یائے غیرمتلؤکہتے ہیں (غیر متلؤ: جس کی تلاوت یا ادائیگی نہ کی جائے،(اس کو یائے مستور بھی کہتے ہیں: یائے مستور جہاں پڑھا جائے گا، ’’متلؤ ‘‘ کہلائے گا اور جہاں نہیں پڑھا جائے گا ’’غیرمتلؤ‘‘ کہلائے گا)۔ ایک عام قاعدہ یہ بھی ہے کہ کسی کلمہ کا آخری حرف الف علت یا واوعلت ہو تو وہاں یائے غیرمستور کا ہونا تسلیم کر لیا جاتا ہے۔اس سے نہ معانی میں فرق پڑتا ہے اور نہ قواعدمیں۔ کیونکہ یائے غیر متلو اپنی اصل میں قائم رہتی ہے اور جب کہیں ایسے کلمے کو متحرک کرنا مقصود ہو(جمع، مرکب اضافی،مرکب توصیفی وغیرہ بنانے کے لئے) تو حرکت اس یائے غیرمتلو پر واقع ہوتی ہے اور اِسے متلو بنادیتی ہے۔ مزید یہ کہ اگر ایسی یائے متلو پر کسرہ واقع ہو تو اسے ئے سے بدل دیتے ہیں۔ مرکب عطفی کی صورت میں بالعموم یہ غیر متلو رہتی ہے۔ مثال کے طور پر:
خدا: خدایان، خدائے بزرگ، خدا و اِنسان
گو: قصہ گویان، قصہ گوئے معروف،یاوہ گوئی
آسا: دل آسایان، دل آسائے کودکان
رُو: خوب رُویان،رُوئے سخن
ادا: ادائے ناز،خوش ادایانِ دشت، کج ادائی
نوا: خوش نوایانِ چمن، نوائے سروش
بو: بوئے گل، خوشبویات
سرا: نغمہ سرایان، نوا سرائے صحرا، نوحہ سرائی
خدائے بزرگ،قصہ گوئے معروف، دل آسائے کودکان، روئے سخن، ادائے ناز، نوائے سروش، بوئے گل، نوا سرائے صحرا، کا حقیقی تلفظ خدایِ بزرگ،قصہ گوےِ معروف، دل آساےِ کودکان، روےِ سخن، اداےِ ناز، نواےِ سروش، بوےِ گل، نوا سراےِ صحرا تھاجسے آسانی کے لئے مذکورہ بالا املاء اور تلفظ دے دیا گیا۔

اردو اور فارسی کے تلفظ میں ایک نمایاں فرق کسی کلمہ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوزکے معاملہ میں واقع ہوا ہے۔ بچہ، شگوفہ، آبلہ، سلسلہ، واقعہ، اور ایسے کلمات کو ادا کرتے ہوئے، ہم بلاتفریق حرف ما قبل ہائے ہوز کو مفتوح پڑھتے ہیں، یعنی: بچَّہ، آبلَہ، سلسلَہ، شگوفَہ، واقعَہ، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ اہلِ زبان کے ہاں ایسا نہیں، وہ حرف ماقبل ہائے ہوز کو مکسور پڑھتے ہیں یعنی: بچِّہ، آبلِہ، شگوفِہ۔ یاد رہے کہ واقعہ اور سلسلہ عربی الاصل کلمات ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کچھ مستثنیات بھی ہیں، جیسے:نہَ (نہیں)، نہُ (نو، nine)، دَہ (دس، ten ) وغیرہ۔ ایک دل چسپ مثال دیکھئے: کَہ (کاہ: گھاس) کُہ (کوہ: پہاڑ) کِہ (چھوٹا)؛ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لازمی نہیں کہ ہائے ہوز پر ختم ہونے والے ہر لفظ کا ماقبل ہاے مکسور ہو گا۔ یاے کو،جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، ی اور ے دونوں طرح لکھتے ہیں اور یائے مجہول کی ادائیگی بھی کم و پیش یائے معروف کی طرح کرتے ہیں۔ واوِ مجہول کی ادائیگی قریب قریب واوِ معروف کی طرح کی جاتی ہے۔ مرکب کلمات پر اسباقِ فارسی میں بحث ہو چکی ہے۔

املاء، اعراب اور قرأت کی بہت زیادہ مثالیں دینے کی بجائے ہم نے اس مضمون میں کلمات کی تشکیل و تشقیق کو اہمیت دی ہے اور ایسے قواعد بیان کر دئے ہیں، جو اعراب کے تعین میں نمایاں اثر رکھتے ہیں۔حاصلِ بحث یہ ہے کہ اعراب اور قرأت کا انحصار بنیادی طور پر تو قواعد پر ہے۔ علاقائی اور مقامی لہجوں اور کسی کلمے کے ایک زبان سے دوسری زبان میں داخل ہونے کے عمل میں کسی نہ کسی سطح پر فرق یا تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسی تبدیلیوں پرمباحث کے لئے الگ مضمون درکار ہے۔

اختتام


2 تبصرے:

  1. باقی یاروں کا تو علم نہیں البتہ آپ نے اور بہت سے احسانات (کتابوں) کی طرح میری ذات پر اس کتاب کی صورت ایک اور احسان کر دیا۔ واہ! یہ تو گویا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا! بہت شکریہ استاد محترم!

    جواب دیںحذف کریں