ہفتہ، 8 ستمبر، 2018

خوب سمجھ گیا





خوب سمجھ گیا


استاد بسمل بزمی ایک معروف سماجی شخصیت ہیں، اور سنا ہے کہ اوپر تک رسائی رکھتے ہیں؛ ایک مشہور اخبار کے ادبی صفحے کے انچارج بھی ہیں اور اپنا ایک سیاسی سماجی پرچہ بھی نکالتے ہیں۔ پرچے میں چند صفحات ادب کے نام پر بھی شامل کر رکھے ہیں۔ ان صفحات میں صرف چوٹی کے اہلِ فن کو جگہ ملتی ہے۔ چوٹی بھی تو ظاہر ہے، اوپر ہی ہوا کرتی ہے! پروانہؔ یزدانی کی تازہ کتاب آئی تو انہوں نےچوٹی کے اور با رسوخ شعراء کو اعزازی کاپیوں سے نوازا۔ استاد کو بھلا کیسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا!
انہی دنوں استاد سے ایک محفل میں ملاقات ہو گئی۔ کہنے لگے: ”پروانہؔ کی تازہ کتاب ہے تمہارے پاس؟“۔
عرض کیا: ”نہیں“۔
بولے: ”میرے پاس ہے، مجھے بھجوائی ہے انہوں نے“۔
کہا: ”چلئے اچھا ہے“۔
بولے: ”کتاب یقیناً اچھی ہو گی، پڑھو“۔
عرض کیا: ”مجھے بھی بھجوا دیتے تو پڑھ لیتا“۔
کہنے لگے: ”تمہیں پتہ ہے وہ ہما شما کو کتاب نہیں بھیجتے، خرید کر پڑھ لو“۔
عرض کیا: ”آپ کو بھی پتہ ہے کہ میں ہما شما کی کتاب خریدنے کا قائل نہیں ہوں“۔
بولے: ”پروانہؔ ہما شما نہیں ہے۔ تم ادب کے قاری ہو، تمہیں چاہئے کہ کتاب خرید کر پڑھو“۔
کہا: ”مگر آپ کے پروانہؔ صاحب کے قاری تو صرف وی آئی پی ہیں، مثلاً آپ جنہیں کتاب مل گئی“۔
ارشاد ہوا: ”تم وی آئی پی نہیں ہو نا،  ادب کے قاری تو ہو! قاری کی بھی کچھ ذمہ داری ہوتی ہے، ادب کو پروموٹ کرے۔۔۔“۔
ہم نے ہاتھ کھڑا کر دیا: ”بس کیجئے استاد! پروانہؔ اچھی طرح جانتا ہے کہ آپ ادب کے قاری نہیں،نہ سہی! بڑے لوگوں کا زینہ ضرور ہیں“۔
تنک کر بولے: ”میں ایک اخبار کے ادبی صفحے کا انچارج ہوں، اپنا پرچہ نکالتا ہوں اس میں ادب کے لئے صفحات رکھے ہیں! تم نے کیسے کہہ دیا کہ میں اد ب کا قاری نہیں ہوں؟“۔
عرض کیا: ”آپ ہی نے تو کہا کہ کتاب یقیناً اچھی ہو گی۔ پڑھی ہوتی تو کہتے کہ اچھی ہے!“۔
استاد نے چیں بہ جبیں ہو کر بات بدل دی اور ہم نے بھی مزید کچھ نہ کہنے میں عافیت جانی۔

کچھ ہی دنوں بعد ہماری ایک تازہ کتاب آ گئی۔ حسبِ دستور اپنے خاص خاص دوستوں کو اس کی کاپیاں بھجوا دیں، ایک کاپی استاد بسمل بزمی کو بھی پیش کر دی۔ کہنے لگے: ”پروانہؔ  یزدانی کو کتاب بھیجی ہے؟“۔
کہا: ”نہیں“۔
فرمایا: ”کیوں؟“۔
کہا: ”انہیں پڑھنی ہو گی تو خرید کر پڑھ لیں گے، نہیں تو نہیں خریدیں گے“۔
بولے: ”تم ادیب ہو؟“۔
عرض کیا: ”ہوں تو سہی، مگر ذرا کم درجے کا۔ چوٹی کا بھی نہیں، زینہ بھی نہیں! ہوتا تو آپ کے پرچے میں مجھ پر کئی آرٹیکل چھپ چکے ہوتے“۔
ہماری طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے استاد بسمل بزمی فرمانے لگے: ”دیکھو، تم ادیب ہو، تم یقیناً چاہو گے کہ تمہارا لکھا ہوا دوسروں تک پہنچے۔ چاہو گے نا؟“۔
کہا: ”یہ تو ہے“۔
بولے: ”تو پھر اپنی کتاب اپنے قاری تک پہنچاؤ!“۔
عرض کیا: ”پہنچا تو دی ہے! قاری بھی تھوڑی سی زحمت کرے نا، خرید کر پڑھ لے؛ آپ سے عاریتاً لے کر پڑھ لے“۔
ارشاد ہوا: ”قاری تمہاری کتاب خریدنے کا پابند نہیں ہے، اس تک کتاب پہنچانا تمہارا کام ہے! سمجھ گئے؟“۔
ہم نے استاد بسمل بزمی کے چہرے پر نگاہیں گاڑ کر کہا:”جی سمجھ گیا! خوب سمجھ گیا“۔ انہوں نے نظریں چرا لیں، ہم بھی چپکے ہو رہے۔


تحریر: محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
ہفتہ: 8 ستمبر 2018ء

2 تبصرے:

  1. بہترین تحریر۔۔۔
    ویسے تحفتاً بھیجی گئی کتابیں اکثر الماریوں میں ہی پڑی رہ جاتی ہے۔ قیمتاً لی گئی کتابوں کی قدر ہوتی ہے۔ ویسے ہم خود کسی لکھاری سے اس کی کتاب مفت میں لینے کے سخت مخالف ہے کیونکہ عموماً لکھاریوں کے پاس کتب کی اشاعت کیلیے پیسے نہیں ہوتے ہیں اور ایسے میں فری میں ان سے کتابیں لینا ظلم ہے۔

    جواب دیںحذف کریں