ہفتہ، 8 اکتوبر، 2016

پریشانم، چہ ویرانم






پریشانم، چہ ویرانم

جی، میں بات کر رہا تھا، مسلم معاشروں میں زمانہ جاہلیت کے نظریات کا نفوذ۔ یہاں ایک بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ فی زمانہ دنیا کے مختلف خطوں میں مسلم معاشروں کے اندر جو کچھ عملاً ہو رہا ہے، وہ سارا کچھ اسلامی اصولوں سے منطبق نہیں ہے، یہ ہمارا المیہ ہے۔ اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کو غلط تسلیم کرنے پر تیار نہیں بلکہ عذر گناہ کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔دنیا میں اسلامی نظام خلافت کہیں رائج نہیں۔ سود کو حلال سے آگے لازمی کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ جہاد کے تصور کو تنقیص کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کے نام پر ان کو شمع محفل بنایا جا رہا ہے۔ مخلوط تعلیم عین عنفوان شباب تک چلتی ہے جہاں ۔۔۔ اس سے آگے کیا کہوں؟ نماز اور رقص دونوں عبادت سمجھ لئے گئے ہیں۔ موسیقی کو روح کی غذا کہا جا رہا ہے اور خاکم بہ دہن، کچھ لوگ اس کو اللہ کی کتاب پر ترجیح دینے والے بھی ہیں۔
نماز، روزہ، زکوۃ کا کہیں کھلم کھلا اور کہیں گھما پھرا کر انکار کیا جا رہا ہے۔ جہیز کو وراثت کے اسلامی قانون پر فوقیت دی جا رہی ہے۔ قرآن شریف کی زبان کو سیکھنا تضییع اوقات سمجھا جاتا ہے۔ یعنی ہمیں کچھ سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک بندہ مال کمانے کے لئے پیچ در پیچ علوم کے علاوہ تین چار پانچ زبانیں سیکھ لیتا ہے مگر قران اور حدیث کی تفہیم کے لئے عربی سیکھنا کارِ بے کار سمجھتا ہے۔ تفرقہ، فرقہ واریت، شیعہ سنی وہابی دیوبندی بریلوی تبلغی وغیرہ وغیرہ میں ہر ایک کو کلیتاً درست تسلیم کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کا نیا فلسفہ دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ سارے درست ہیں تو ان کے عقائد اور افکار میں جتنے فاصلے ہیں وہ بھی درست؟ تو پھر اللہ اور اس کا رسول کہاں رہ گئے۔
اور اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ جو کچھ عملاً ہو رہا ہے اسے اسلام کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ اسلام کا نام لینے والے ہم نام نہاد مسلمان یا تو اپنے سوا سب کو بیک جنبش زبان کافر قرار دے دیتے ہیں یا یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ یار چھوڑو جو کوئی جس راستے پر ہے سب ٹھیک ہے۔ یعنی حق نا حق برابر؟ ظلم اور کس چیز کو کہا جا سکتا ہے؟ بلکہ اب تو اتحاد بین المذاہب کی پرشور تبلیغ کی جا رہی ہے۔ یعنی اللہ اور رسول کو تسلیم کرنے والا اور اللہ اور رسول کا انکار کرنے والا دوست ہو گا۔ چہ عجب؟ شیطان کی امت اور محمد الرسول اللہ کی امت میں دوستی، کیا تماشا ہے!!!؟ ۔
ترک دنیا کا تصور بھی ایک ایسا ہی شوشہ ہے۔ ارسطو، افلاطون کا زمانہ تو حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے، سو، ان کے افکار انسانی اختراع ہی کہلائیں گے کہ اس دور میں انسان من حیث المجموع اللہ سے کٹ چکا  تھا اور سوفسطائی انداز فکر معاشرے میں فساد برپا کئے ہوئے تھا۔ آج ہم اگر ان لوگوں کی فکری راہنمائی کو تسلیم کرتے ہیں تو قصور وار نہ قرآن ہے نہ صاحب قرآن۔ اسلام نے تو رُہبانیت کا انکار کیا ہے، کوئی شخص خواہ وہ جتنا بڑا عالم ہو، اگر وہ رہبانیت کی کوئی صورت اپنا لے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ رہبانیت جائز ہو گئی۔ اگر ترک دنیا، قوالی، ناچ، شراب، عشق بازی، چلتے دریا میں کھڑے ہو کر چلے کاٹنا؛ یہی سب کچھ حقیقی اسلام ہے تو پھر نبی اور نبی کے صحابی تو ہمارے بابوں ملنگوں فقیروں پیروں سے بہت پیچھے رہ گئے؟ اللہ معاف کرے!۔
مسلمان ہونے کے لئے صوفی، سادھو، سنت، جوگی ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ تو خطرے والی بات ہے۔ اللہ کی شان میں گستاخی، بابا جی کو جائز بلکہ ان کے وقار میں اضافہ؟؟ اللہ رحم کرے۔ اللہ کی شان میں گستاخی جدید شاعری کا خاصہ؟ خدا ایسی زبانوں اور ایسے اقلام پر رعشہ طاری نہیں کرتا تو اس لئے کہ اس نے مہلت کا قانون دے دیا ہے۔ رہی مسلمان کی اس دنیا میں زبوں حالی کی وجوہات اور کفار کی بظاہر پر تعیش زندگی، تو اس پر قرآن اور حدیث میں سب کچھ کھول کر بیان کر دیا گیا ہے، مگر اس کا کیا کیجئے کہ دانشِ افرنگ کے پروردہ اذہان اس کو ایک جھوٹے وعدہ حور کی صورت بنا کر پیش کر دیتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ بات کرنے والا اور بات سننے والا دونوں حیات بعد الموت پر حقیقی  ایمان سے محروم ہیں۔
سچ اور جھوٹ کا ملغوبہ سچ نہیں کہلا سکتا۔ اگر کسی نے سچ میں ایک فیصد جھوٹ ملا دیا تو بھی وہ سچ کے درجے سے گر گیا، اور اگر کسی نے ۹۹ فیصد جھوٹ ملا دیا تو بھی حاصل جھوٹ ہی ہوا۔ میں جی میں آدھا مسلمان ہوں، وہ جی وہ مجھ سے بھی آدھا مسلمان ہے جی اور آپ تو جی آپ مجھ سے اچھے ہیں آپ اسی فیصد مسلمان ہیں جی ۔ استغفراللہ !!!۔ مسلمان وہ ہے جو سو فیصد مسلمان ہے، ورنہ وہ خود کو اور لوگوں کو تو دھوکا دے سکتا ہے، اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
لوگ دھڑلے سے قران شریف کی آیات کی غلط املا لکھتے ہیں اور پھر اس کا جواز بھی بناتے پھرتے ہیں اور دعوے بھی کرتے ہیں کہ جی ہم دانشور ہیں۔ شراب کو جائز سمجھنے والے بھی مسلمان، زناء کو قانونی اور جائز بنانے والے بھی مسلمان، سود پر معیشت استوار کرنے والے بھی مسلمان، رشوت کو طاقتور بنانے والے بھی مسلمان، تو ایسوں کے فکری سربراہ بھی ویسے ہی ہوں گے؛ رقص کو نماز قرار دینے والے، سازینوں پر قرآن کی تلاوت کرنے والے، مساجد میں شور مچا کر لوگوں کی مت مارنے والے، تشریح اور تفسیر میں ڈنڈی بلکہ ڈنڈا مارنے والے۔
نظریہء ضرورت اور دور حاضر کا تقاضا قرار دے کر اسلام کے احکام کو موقوف کرنے والے کسی ایسے اسلام پر ہی متفق ہو سکتے ہیں جو ترک دنیا میں ملتا ہے۔ اسلام کی حقیقی روح تو یہ ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں اسلام نافذ ہو گا تو وہاں اس کا پھل ملے گا۔ یہاں کوئی ملغوبہ چلتا رہے گا تو وہاں بھی ویسا کچھ ہی ملے گا۔
دیگر مذاہب کے لوگوں سے لین دین تجارتی معاہدے جنگی معاہدے تک تو درست مگر ان سے دوستی؟ نہیں ہر گز نہیں۔ ہاں آپ کہتے ہیں کہ جی اگر میں ان سے دوستی نہیں کرتا تو میری سلامتی کو خطرہ ہے۔ سلامتی کو خطرہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ میں مسلمان کیوں کہلاتا ہوں؟ تو پھر دوستی نہ کرنا بلکہ دشمنی کرنا فرض عین ہے۔ ورنہ دوستی کے نام پر غلامی کر کے جو سلامتی حاصل ہو گی، وہ تذلیل کے سوا کچھ نہیں اور سلامتی کب تک، کہاں تک؟ کیا یہ سلامتی واقعی سلامتی ہے؟
پریشانی تو کجا، اب تو اس پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔ فکر و احساس پر ویرانی چھا جائے تو اس کا حاصل یہی کچھ ہو گا۔ پریشانم نہ حیرانم؛ چہ ویرانم!۔


فقط: محمد یعقوب آسیؔ           ہفتہ: 8۔ اکتوبر 2016ء۔

6 تبصرے:

  1. آپ نے جو کچھ فرمایا ٹھیک فرمایا اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
    اگر شاعری کے حوالے سے بات کی جائے افلاطون نے ایک فلاحی جمہوری ریاست سے شاعر کو صرف اسی وجہ سے نکال دیا کہ شاعر کی وجدانی کیفیت بعض اوقات اس سے دیوتا کے بارے میں غلط لکھنے پر اکساتی ہے اور دیوتا کی توہین کی صورت میں ایک سچی فلاح ریاست کا قیام ممکن نہیں۔
    ہم لوگ زندگی کے ہر شعبے میں طبیعت کے مطابق شریعت لوگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتائج آنے پر سارا الزام اسلام کے سر دھر دیتے ہیں۔ اور اب حالات یہ ہیں کہ شاعر و ادیب ، جو معاشرے کے نہایت اہم لوگ ہوتے ہیں ، اسلام کا تمسخر اڑانا نہ صرف ضروری سمجھتے ہیں بلکہ جدید تر شاعری کی بنیاد اسی کو کہتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. سب سچ
    لیکن....... مسلمان مسلمان اتحاد بھی کہاں ہے؟
    فرقہ + فرقہ اتحاد ہے
    مسلمانوں کوآپسی اتحاد سے دور کردیاگیا ہے اور اب یہ خام خیالی ہی لگتی ہے کہ افحاد بین المسلمین بھی ہو

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. سوال تو یہ بھی ہے کہ مسلم اتحاد میں رخنے ڈآلنے والے کوئی باہر کے لوگ رہے ہیں یا اندر کے۔ باہر والوں کو اندر کا راستہ کیسے ملا؟ اور کیا اب اس امت کی قسمت میں تذلیل ہی لکھ دی گئی ہے؟ اللہ تو ظلم نہیں کرتا۔ وہ تو صدیوں سے منتظر ہے کہ اس کے بندے اس کی طرف پلٹ آئیں اور وہ انہیں پھر نہال کر دے۔ یہ بندوں پر ہے کہ کون پلٹ کر آنا چاہتا ہے اور کون اتنی دور نکل گیا ہے کہ واپسی کا راستہ بھول بیٹھا ہے۔
      اللہ ہم سب پر رحم کرے۔

      حذف کریں
  3. سر! مجھے لگتا ہے کہ بحث کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے ۔ آپ کی فکر اور پریشانی بجا، لیکن کیا ہم اتنے وسیع تر مضامین پہ معروضی انداز میں کوئی سائنسی تجزیہ پیش کر سکتے ہیں ؟
    مجھے یقین ہے کہ آپ نے یہ سب اصلاح اھوال اور دل پہ پڑتی خراشوں کے کچھ مداوا کے لیے لکھا ہے ، لیکن مجھے لگتا ہے کہ کسی آپ جیسے بڑے اہل علم اگر ایک کاص دائرہ چن لیں اپنی اپنی مہارت کے مطابق اور اس میں کام کریں اور اصلاح کی کوشش کریں تو امید ہے کہ بہت زیادہ بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔
    اوپر والی بات میں اپنے لیے بھی لکھ رہا ہوں ۔
    جہاں تک اتھاد بین المسلمین اور دوسرے مسائل ہیں تو اس بوجھل دل اور ایک رومان پسند کی تھکی آنکھوں کو ابھی کسی نئے آدرش کی ضرورت نہیں ہے ، پہلوں نے ہی بہت دکھ دیے ہیں ۔ بچپن سے اس دھندے میں پڑا ہوں ، لیکن جدھر بھی گئے ، کسی کے منہج کو ہم نہ مان سکے ، کسی نے ہمیں کمیوں کجیوں سمیت قبول کیا ۔ اب تو اتنا ہی ہے کہ معاشرے میں عدل کی کوئی صورت پیدا ہو جائے ، لوگوں کی جان سلامت ہو، روٹی ملے ، اور وہ اپنے فیتھ کو پریکٹس کریں ، اسلام کو اس سے کوئی کد نہیں یقین کیجیے ۔
    مجھے آج ایسا لشکر بتائیے ، جو محض خدا کے دین کے لیے عصری بصیرت کے ساتھ برسرپیکار ہو، اس کے جھنڈے تلے سر کٹوانے کے لیے نکل پڑوں گا ، مگر چہار طرف دھندا ہے اور کہیں سارا اور کہیں تھوڑا گندا ہے :(

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. لشکر ہے نا! آپ لشکر ہیں، میں لشکر ہوں۔
      پتہ نہیں اسے ترجیحات کی ترتیب میں فرق کا نام دیا جائے گا یا کیا ۔۔ کہ معاشرے میں عدل، سلامتی، اور روٹی کو اول رکھ کر اسلام کا تعلق ایک کد نہ ہونے تک رکھ لیا جائے۔ اس پر مستزاد "فیتھ اپنے اپنے" یعنی؟ ہم نے بنیاد کو ثانوی حیثیت میں رکھ دیا۔ بنیاد تو عدل کو ہونا چاہئے، روٹی تو لکھ دی گئی ہے اور سانسیں بھی لکھ دی گئی ہیں۔ ایک اور مسئلہ "عصری بصیرت" ہے۔ کیا یہ کتاب اللہ کی تفہیم سے الگ کوئی چیز ہے؟ اس کی وضاحت فرما دیجئے تو بہت نوازش۔

      حذف کریں