جمعرات، 6 اکتوبر، 2016

ہم یہ کچھ تو کر ہی سکتے ہیں




قومی سطح پر اردو کے مؤثر نفاذ میں ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ یہ سوال ہے۔
اس کے جواب میں عرض کیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم یہ کچھ تو کر ہی سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔1۔ ماضی کو کریدنے اور اُس زمانے کی ذمہ داریاں نبھانے نہ نبھانے وغیرہ کا سلسلہ ترک کر دیں۔

۔2۔ اپنے اپنے ماحول میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق درست اور شائستہ اردو کو رواج دیں۔ مادری زبان کی نفی مقصود نہیں۔

۔3۔ اس وقت مختلف املاء کمیٹیوں کی جو سفارشات منظر پر موجود ہیں ان کا اپنی استعداد کے مطابق جائزہ لیں اور ان میں بہتری تجویز کرتے رہیں۔

۔4۔ اصطلاحات سازی اور دیگر زبانوں میں رائج اصطلاحات کو اردو میں ڈھالیں۔ ڈھالنا اور ترجمہ کرنا دو مختلف عمل ہیں۔

۔5۔ کوئی فرد یا ادارہ (سرکاری ہو تو بہتر ہے) ایک آدھ ایسی ویب سائٹ بنائے (اور چلائے بھی) جہاں احباب اپنی تجاویز اور مشورے پیش کر سکیں۔

۔6۔ عمومی ذریعہ تعلیم اردو ہو۔ چھوٹی سطح سے مقامی زبان میں پڑھایا جائے۔ تیسری چوتھی جماعت سے اردو کا تعارف ہو اور چھٹی جماعت سے ذریعہ تعلیم ہی اردو ہو۔ ہائی سکول میں دیگر زبانیں جن کا ہماری معاشرت سے تعلق ہے (عربی، فارسی) اور انگریزی (بین الاقوامی) بطور مضمون پڑھائی جائیں۔ کالج کی سطح پر انگریزی اور اردو متوازی چلائی جائیں۔ یونیورسٹی میں چونکہ میدانِ مطالعہ کی تخصیص ہو جاتی ہے، لہٰذا ذریعہ تعلیم سکالر کی ضرورت کے مطابق ہوں۔ تاہم اردو ادب اور اطلاقی اردو کو قائم رکھا جائے۔ نصاب کا تعین کرنے والے اداروں کو واضح ہدایات دی جائیں جن میں قومی مقاصد کا بہت واضح تعین بھی ہو جائے۔

۔7۔ مقامی اور مادری زبانوں کی اردو کے خلاف محاذ آرائی کا ماحول ختم کیا جائے۔ ان زبانوں کے اسماء و افعال کو اردو میں شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ فطری حد بندی مزاج کے اشتراک سے از خود طے پا جائے گی۔ اس میں کوئی قدغن لگانے کی نہ ضرورت ہے نہ فائدہ۔

۔8۔ سرکاری اداروں اور دفاتر کی زبان اردو ہو، بین الاقوامی سطح کے ادارے ملک کے اندر اردو چلائیں اور ملک کے باہر اپنی ضروریات کے مطابق جیسے بھی چل سکے۔ اسلام اور پاکستان ۔ ان دونوں کا احترام بہر طور ہر سطح پر ملحوظ رہے۔

۔9۔ مقتدرہ قومی زبان اور اکادمی ادبیات میں اردو کی ترویج کے حوالے سے خصوصی پیش رفت کا اہتمام کیا جائے۔ تاکہ محض قابل ہی نہیں بلکہ قابل اور مخلص لوگ اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کر سکیں۔

۔10۔ اردو کی ترویج پر بہت سارا کام جو پہلے ہو چکا ہے اس سب کو یک جا کیا جائے اور اس کی عام قاری تک رسائی آسان کی جائے۔ کتابوں کی اشاعت کو ممکنہ حد تک سستا کیا جائے کہ زیادہ تر کتابیں عام قاری کی رسائی آسان ہو سکے۔ سادہ اور سستے ایڈیشن کا رواج ایک بار چلا تھا، اسی نہج کو پھر سے زندہ کیا جا سکتا ہے۔

۔11۔ گھروں میں بولی جانے والی زبان کو انگریزی کی غیرضروری ترجیح کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اپنی اپنی مادری اور علاقائی زبانوں کے ساتھ اردو کو رواج دیا جائے۔

۔12۔ سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت خلوص کی ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اس کے ہم رکاب کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

فقط ۔۔ محمد یعقوب آسی (ٹیکسلا) پاکستان ۔ جمعرات 6 اکتوبر 2016ء۔
 


1 تبصرہ: