بدھ، 19 اگست، 2020

ڈراما ۔ صفحۂ قرطاس سے پردۂ سیمیں تک

کچھ موٹی موٹی باتیں


کوئی بھی کھیل ہو (سٹیج ڈراما، ریڈیو ڈراما، ٹیلی ڈراما، فیچر فلم، وغیرہ وغیرہ)؛ آپ اپنی تہذیب اور ثقافت سے جس قدر جُڑ کر رہیں گے، اپنی معاشرتی نفسیات کے مطابق چلیں گے، اپنی تاریخ کو پیش کریں گے، اپنی اخلاقی اقدار اور ایمانیات کو وزن دیں گے، پروڈکشن کے اجزاء (کہانی، مکالمہ، مناظر، لباس، اوزار، جانور، گھر، میدان، وغیرہ وغیرہ) جتنے فطری، حقیقی اور غیر ملمع شدہ ہوں گے، اتنا ہی آپ کا کھیل مؤثر اور مقبول ہو گا۔ کہانی کے ایک کردار کو برا، یا اچھا، یا بااختیار، یا مجبور دکھانا ہے تو صرف مکالمے کافی نہیں، ہر کردار کا ایک فطری گیٹ اپ بنانا ہو گا۔ پلاٹ اور منظر آفرینی میں توازن بہت ضروری ہے۔ کوئی ڈراما کس حد تک ان عناصر کا پاس کر رہا ہے؛ یہی اس کا معیار ہے۔

ان سب عناصر کے مقابلے میں اگر آپ دوسروں کی نقالی کریں گے، دوسروں کی تہذیب کا پرچار کریں گے، آپ کے کھیل میں سطحیت اور ابتذال کی سطح بھی اتنی ہی ہو گی۔ یہاں تک کہ آپ کا تیار کیا ہوا ڈراما ایک شریف فیملی کے افراد اکٹھے بیٹھ کر دیکھیں تو انہیں شرم آئے گی۔

ڈراما صرف یہ نہیں کرتا کہ اس نے ایک سچائی کو ٹھیک ٹھیک پیش کر دیا، اور بس۔ ڈراما پورے معاشرے کی ذہن سازی کرتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل ڈرامے کے کرداروں جیسا بننا چاہتی ہے۔ ڈرامے کو پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ مثبت اور تعمیری سوچ پر مبنی ہونا چاہئے۔


محمد یعقوب آسی۔ ۳۰۔ اپریل ۲۰۲۰ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں