اتوار، 20 ستمبر، 2015

ایک وہ حرفِ مدعا



ایک وہ حرفِ مدعا

محمد ابن الحسن سید کی کتاب ’’جوئے تشنہ‘‘ پر ایک نظر 

یہ مضمون ۲۹؍ اگست ۱۹۸۸ء کو لکھا گیا اور  ۱۰؍ ستمبر ۱۹۸۸ء کو پاکستان یوتھ لیگ واہ کینٹ کے زیرِ اہتمام ہونے والی تقریب میں پڑھا گیا۔ صاحبِ محفل جناب ابن الحسن سید تھے۔

رشتوں کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ملت و مذہب، ملک و قوم، رنگ و نسل، زبان و بیان وغیرہ۔ یہاں اس پلیٹ فارم پر میں جس رشتے کا ذکر کرنے والا ہوں وہ حرف و معنی اور قرطاس و قلم کا رشتہ ہے، یہی رشتہ ہے مجھ سے جناب ابن الحسن سید کا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ذاتی حوالے سے محترم ابن الحسن سید سے شناسا نہیں تھا۔ اللہ بھلا کرے پاشا راز کا، کہ انہوں نے میری ملاقات جوئے تشنہ کے شاعر  سے کروائی۔ اس کتاب میں مجھے جو سید ابن الحسن ملے ان کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرتا ہوں۔

کتاب کا نام جوئے تشنہ ایک سوال ہے۔ وہ ندی جو خود پیاسی ہے، کیا ہے؟ وہ شخص جو عطا کرنا جانتا ہے، کون ہے؟ وہ زمین جو سب کچھ مہیا کرتی ہے، کیا وہ خود محرومِ دُوُل ہے؟ اگر وقعی ایسا ہے تو کیوں؟ اس سوال کا جواب سید صاحب کی زبانی:
حوالہ ہے مرا سنت نبی کی
مجھے اک بوریا بھی شہ نشیں ہے

سید صاحب نے اپنے احساسات کی تمام دولت بانٹ دی اور اپنے پاس صرف ایک چیز رکھی ہے، اس میں بھی اپنے قارئین کو شامل کر لیا ہے۔ وہ ہے ایک نامکمل سی آسودگی۔ کتاب کا انتساب اپنی شریکِ حیات کے نام ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جو سب سے پہلے انسانوں کے درمیان قائم ہوا۔ یٰآدمُ اسْکنْ انتَ و زوجُک الجنَّہ۔ حصہ نظم کی ابتدا ایک اور اہم رشتے سے ہوتی ہے۔ اس رشتے کا نام ہے ’’میرا پاکستان‘‘۔ اس پاک سرزمین کے حوالے سے ہمارا رشتہ صرف ہم وطنی کا رشتہ نہیں، اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ یہ وطن رنگ، نسل اور وطنیت کے محدود تصور سے بالاتر ایک مقدس تحریک کا حاصل ہے۔ وہ تحریک جو اللہ کا دین ہے، جو سب کے لئے ہے، سب رشتوں سے بالاتر اسلامی مواخات کا رشتہ، یہ میرا رشتہ اور وطن عزیز کا رشتہ ہے، جو میرے لئے سب کچھ ہے۔
روزِ ازل کا پیماں ہے یہ
حرفِ خودی کا عرفاں ہے یہ
مجھے میں پیدا پنہاں ہے یہ
میری کل پہچان .... میرا پاکستان

سید صاحب نے شاعری کو شکر کا مقام قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ میں ’’شاعری اصل میں ایک خود کلامی ہے، زبان و بیان کا ایک ایسا وسیلہ ہے جس سے فرد کو اپنی اور اپنے اطراف و جوانب کی پہچان حاصل ہوتی ہے، ایک حسی اور معنوی پہچان۔ دوسرے لفظوں میں شاعری اس عمل کا نام ہے جس کے ذریعے فرد محسوسات سے معنویت کی طرف سفر کرتا ہے اور منزل پر دونوں کو یک جان پاتا ہے۔‘‘ سید صاحب کے اس فن کا جو معیار مقرر کیا ہے وہ یہ ہے کہ:
اپنا چہرہ ہو ہر اک تصویر میں
فن یہی ہے اور یہی معراجِ فن

فن، فن کار کی ذات کا حصہ ہوتا ہے۔ فن کار، بطورِ خاص قرطاس و قلم کا وارث اگر خلوص اور سلیقہ رکھتا ہے تو وہ اپنی بات، اپنے فن اور اپنی ذات کو منوا لیتا ہے:
ڈھنگ کی بات لوگ سن لیں گے
شور و غوغا کے باوجود حسنؔ

شاعر کا ادراک عامۃ الناس کے ادراک سے آگے ہوتا ہے، وہ احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنا سکتا ہے اور معنی پیدا کر سکتا ہے جب کہ عام آدمی ایسا نہیں کر سکتا۔ شاعر اپنی ذات سے ماورائے ذات کی آگہی حاصل کرتا ہے:
..... مری شاعری کوئی لفظوں کی آوارہ گردی نہیں ہے
..... مری شاعری دل دہی، ہم کلامی، دعا ہے
..... مری شاعری آپ اپنی جزا ہے
..... یہ دیروز و امروز و فردا سے باہر کا اک راستہ ہے
..... یہ اک نامکمل سی آسودگی ہے

اور یہی وہ دولت ہے جو سید صاحب اپنے قارئین میں بانٹ رہے ہیں۔ یہ نامکمل سی آسودگی زندگی ہے جس میں امیدیں، ارادے، خدشات، واہمات، اسباب، علل، ابتلاء، مسرت، خوف، تأسف سب کچھ ہے۔ یہی زندگی ہے۔
اٹھا لیں راہ سے افتادگاں کو
یہاں ایسے بہت کم دیکھتا ہوں

جتنی آنکھیں ہیں اتنے نظارے
جتنے نظارے اتنی حیرانی

آنکھ رکھتے ہو دیکھنا ہو گا
وقت جو کچھ بھی تم کو دکھائے

یہ وہ حقیقت پسندانہ رویہ ہے جو بہت کم لوگوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس خاص احساس کا آئینہ دار ہے جو زندگی کی علامت اور دلیل ہے:
زندگی نام اسی کا ہوگا
یہ جو احساسِ زیاں ہوتا ہے

جو بھی آیا خدا ہی بن بیٹھا
اس سفینے کو ناخدا نہ ملا

احساسِ زیاں نعمت ہے اگر وہ مہمیز کا کام کرے اور ابتلاء ہے اگر وہ یاسیت کی طرف لے جائے۔ سید صاحب ان دونوں صورتوں سے آشنا ہیں، وہ احساسِ زیاں کی مہمیز سے انسانی کی قوتِ تعمیر کو ہانکتے ہیں اور ایک نئی دنیا کی تخلیق کی رغبت دلاتے ہیں:
ایک اپنی کائنات سی تعمیر کیجئے
سارے جہاں سے دور یہیں سب کے درمیاں

بہائے جو لئے جاتی ہیں تجھ کو تند خو موجیں
یہی موجیں سفینہ ہیں انہی موجوں کو ساحل کر

امید اور آرزوؤں کے سہارے آگے بڑھتے انسان کو خطرات سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ وہ کبھی خوشی سے سرشار ہوتا ہے تو کبھی غم سے دو چار ہوتا ہے، کبھی خدشات و واہمات کی زد پر ہوتا ہے تو کبھی یقین و ایمان کی حفاظت میں ہوتا ہے کہ انسان کا زندگی سے رشتہ ہی ایسا ہے:
..... تو اب تو یہی ہے
..... یہ بے اختیاری کھٹکتی بہت ہے، مزا بھی بڑا ہے

اپنے ارد گرد پھیلی اور پھیلتی کائنات کے اندر انسان کا سفر جاری ہے۔ وہ جا رہا ہے، دنیا کو دیکھ رہا ہے، زندگی کو پرکھ رہا ہے اور ایک مسلسل جستجو میں ہے:
ایک یہ شام و سحر کا سلسلہ
ایک تیری جستجو کرتے ہیں ہم
..... ایک ذرے میں ہیں ساتوں آسماں
..... ایک قطرہ اشک کا
..... بحرِ ناپیدا کنار

اس جستجو کا حاصل چاند پر انسان کے قدموں کے نشان ہیں اور اب وہ مریخ و مشتری کو بھی سر کرنے نکلا  ہے۔ سید صاحب پرواز کے اس عمل کو سراہتے ہیں، تاہم وہ قدرے متامل بھی ہیں کہ انسان مریخ و مشتری پر پہنچ تو جائے گا ... مگر!
..... کس کو معلوم وہاں
..... دردِ ہستی کی دوا ہے کہ نہیں
..... اور اکسیرِ بقا ہے کہ نہیں
..... پھر بھی اک جرأتِ پرواز تو ہے!

وہ تمناؤں کو ابھارتے ہیں اور تمنائی کو اس منزل کی طرف کھینچے لئے جاتے ہیں جہاں بقا ہی بقا ہے:
یہ کارواں نمود کا
یہ سلسلہ وجود کا
جو کچھ بھی نزد و دور ہے
شجر حجر
یہ بحر و بر
خبر، نظر، ہر ایک شے
ہر ایک شے میں ایک ہی وجود کی نمود ہے
بس ایک ہی وجود ہے
نہ ابتدا نہ انتہا
فقط بقا!!

تری کبیدہ خاطری ہے بے محل
یہ بے بسی یہ عاجزی ہے بے محل
کہ زندگی ہے جاوداں
مثالِ آبجو رواں
یہاں وہاں جو پھولتے ہیں بلبلے
تو اِن کے واسطے نہیں یہ امتیازِ ما و تو
کہ امتیازِ ما و تو میں قید و بند ذات ہے
کہ ذات بے ثبات ہے
اسیرِ حادثات ہے
ہمارے درد کی دوا
سپردگیء و بے خودی
سپردگیء و بے خودی ثبات ہے نجات ہے
خدا کا اس پہ ہاتھ ہے

وہ انسان کا مطالعہ کرتے ہیں تو احسنِ تقویم اور اسفل سافلین کی حقیقت سے شناسا ہوتے ہیں:
اس میں بلندیاں تمام، اس میں تمام پستیاں
یعنی یہ آدمی جو ہے، اس میں کوئی کمی نہیں

سید صاحب کی اسلام اور عالمِ اسلام سے محبت ان کے اشعار اور نظموں میں جا بجا عیاں ہے اور ایسا لگتا ہے یہ کسی ارادی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ دل سے اٹھتی ہوئی آواز اور رشتوں کی پکار ہے:
لے کے آیا ہوں تری دہلیز پر
جان و تن، عرضِ ہنر، نقد سخن

سر انتہائے کمال پر مری ابتدائے زوال ہے
مجھے احتیاط محال ہے مجھے خود ہی آ کے سنبھالئے

کوئی آہٹ تھی رگِ جان کے قریب
تیرے ہونے کا گماں ہوتا ہے

یہ وارفتگی کا وہ عالم ہے جہاں سید صاحب کی شاعرانہ حسیات پوری طرح بیدار ہوتی ہیں اور وہ ایسے خوب صورت اشعار تخلیق کرتے ہیں:
اچھا ہے تعلق میں کشاکش کا تاثر
مردہ کبھی جذبات ہمارے نہیں ہوتے

حسنؔ بربادیء دل کی کہانی
پرانی بھی، نئی بھی، عام بھی ہے

کار و بارِ روز و شب کے ساتھ ساتھ
راستہ دیکھیں گے تیرا عمر بھر

زہے نصیب طبیعت میں بے نیازی ہے
تمہاری دل کو طلب تو ہے بے حساب نہیں

دیکھئے چٹکی ہوئی ہے چاندنی
آئیے جادو جگانے بام پر

ان کی نظمیں: ’’کیا یہ ممکن نہیں؟‘‘، ’’تکاثر‘‘، ’’مری کی ایک صبح‘‘، ’’ڈھاکہ کی ایک دوپہر‘‘، ’’شام‘‘؛ ایسی خوبصورت نظمیں ہیں، جن کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ان پر کچھ کہنا ان کا مقام کم کرنا ہے۔

عمرِ رواں کو روکنا کسی طور بھی ممکن نہیں تاہم یاد وہ تعلق ہے جو حال کے رواں دواں لمحوں کو ماضی کے تھمے ہوئے لمحات سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔
یاد سی اک رہ گئی ہے دل کے پاس
ہم بھی ہیں باقی کہ جب تک یاد ہے

اس سب کچھ کے باوجود محمد ابن الحسن سید کبھی اپنے فن سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ایک عمر کارزارِ حرف و معنی میں گزار کر بھی انہیں یہ احساس متواتر رہتا ہے کہ جو کہنا تھا وہ کہہ نہیں پائے۔
تھکن ہے حوصلے ہیں پا شکستہ
مسافر پر ورودِ شام بھی ہے

یہ احساس ایک تحریک بھی ہے، مزید کہنے پر اکساتا ہے۔ شاید! کہ حرفِ مدعا اپنے مکمل معانی کے ساتھ نوکِ زبان اور نوکِ قلم پر آ سکے:
عمر بھر جوڑتے رہے الفاظ
ایک وہ حرفِ مدعا نہ ملا


محمد یعقوب آسیؔ ۲۹؍ اگست ۱۹۸۸ء

2 تبصرے:

  1. جوابات
    1. بہت شکریہ الماس۔ آپ کا حسنِ نظر ہے۔ یہ میرا اولین مضمون ہے جو کسی ادبی ماہنامے میں شائع ہوا۔
      ۔۔ ماہنامہ روایت راولپنڈی، (مدیر احمد ہاشمی) 1989 کا کوئی شمارہ تھا، میں گم کر بیٹھا ہوں۔

      حذف کریں