جمعہ، 13 اپریل، 2018

کیا آپ واقعی سنجیدہ ہیں



کیا آپ واقعی سنجیدہ ہیں؟


اگر آپ اچھا شاعر بننے میں واقعی سنجیدہ  ہیں تو ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ آپ کو شعر کی مبادیات اور تقاضوں کے متعلق بتا سکتے ہیں، زبان و بیان پر بھی مشورہ دے سکتے ہیں، جمالیات اور صنائع بدائع کا تصور بھی واضح کر سکتے ہیں (بات اردو کی ہو رہی ہے)۔ یہ جو ہم نے کہا نا، کہ ایک شخص اپنی فطرت میں شاعر ہے یا نہیں ہے؛ اس پر بات کر لی جائے۔ شعر کہنے کا شوق آپ کے ذوق کے علاوہ بھی کچھ عناصرسے مشروط ہے، مثلاً:

۔1۔آپ شعر کو (گا کر، گنگنا کر یا تحت اللفظ) اس کے لفظی مد و جذر کے مطابق درست پڑھ سکتے ہوں۔ بہت سارے ملے جلے اشعار میں ایک ہی لے، سُر، چال کے اشعار کو الگ الگ کر سکتے ہوں ( لے، سُر، چال ہی شعر کا وزن ہوتا ہے)۔

۔2۔ آپ کی اردو اچھی نہیں، بہت اچھی ہونی چاہئے۔ الفاظ کی درست املاء اور درست ادائیگی آپ کی بنیادی ضرورت ہو گی؛ سب سے پہلی توجہ اس پر دینی ہوگی۔ مزید یہ کہ ہم ایک ہی بات کو متعدد مختلف پیرایوں میں بیان کر سکتے ہیں، آپ میں یہ صلاحیت ہونی چاہئے۔

۔3۔ اپنی بات کو بنانے سنوارنے مکمل ڈھنگ تو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے تاہم کسی دوسرے کی بات، شعر، مضمون میں ایک بات کتنی سنور کر بیان ہوئی ہے؛ یا یہ کہ فلاں بات کو ٹھیک انداز میں پیش نہیں کیا گیا اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے؛ آپ کو اس کا اندازہ ہو جانا چاہئے۔تفصیلی مباحث بعد کا مرحلہ ہے۔

۔4۔ کسی بات کو سجانے کے لئے ہم کچھ لفظوں سے یا علامتوں سے کام لیتے ہیں۔ کسی کی آواز کو بلبل کی چہکار قرار دینا؛ غصے کو آگ یا غم کو گھُن کہنا؛ معصومیت کے لئے یا کمزوری کے لئے میمنا، بھیڑ کا بچہ، چڑیا وغیرہ کے الفاظ؛ مشکلات کو دھوپ کہنا؛ رحمت کو سایہ کہنا؛ وغیرہ وغیرہ ۔ ایک نہیں کئی کئی طریقے اور انداز ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے مطالعہ درکار ہے! یاد رہے کہ مطالعے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ ہمارا تلخ مشاہدہ ہے کہ بہت لوگ، خاص طور پر نوجوان مطالعے سے بھاگتے ہیں۔ اگر آپ بھی اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں تو دوسروں کو امتحان میں مت ڈالئے۔

۔5۔ شعر و شاعری کے بنیادی تصورات نصاب کی کتابوں میں بھی دئے ہوتے ہیں؛ ان سے ایک عمومی آئیڈیا ضرور مل جاتا ہے کہ مثال کے طور پر: مصرع اور عام جملہ کس طرح مختلف ہیں؛ موٹے طور پر شعر کی صورتیں (یعنی غزل، قطعہ، رباعی، نظم، مسدس، مخمس، بیت وغیرہ)کیا ہوتی ہیں؛ اور ان کے نام الگ الگ کیوں ہیں؛ وغیرہ۔

۔6۔ شعر کی زبان میں ٘”زمین“ سے کیا مراد ہے؛ وزن کیا ہوتا ہے؛ قافیہ کسے کہتے ہیں؛ ردیف کیا ہوتی ہے؟ آپ کو شعر پڑھنے میں ان چیزوں کا اگر پورا ادراک نہیں بھی ہوتا، تو ان کے متعلق ذہن میں کوئی سوال ابھرتاہے؟ اگر کوئی سوال بھی نہیں ابھرتا، تو اپنے ساتھ دوسروں کا بھی وقت ضائع نہ کیجئے۔علم سوال سے پیدا ہوتا ہے اور سوالی کی تشفی مطالعے سے ہوتی ہے، اس میں کوئی پتلی گلی نہیں ہے۔

۔7۔ آپ شعر کہنے کی مشق کرتے ہیں (یہاں عرصہ نہیں دیکھا جائے گا، آپ کا شعری سفر دیکھا جائے گا)؛ اس میں اپنے لکھے ہوئے یا کہے ہوئے کا کس حد تک دفاع کرتے ہیں؟ اگر آپ کی سوچ کی گہرائی میں بھی کہیں یہ بات ہے کہ ”یہ میں نے کہا ہے، اس لئے درست ہے“ یا، یہ کہ ”میں اس سے بہتر نہیں کہہ سکتا“؛تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سیکھنا نہیں چاہ رہے۔

۔8۔ شعر میں عام طور پر اور غزل کے شعر میں خاص طور پر، آپ اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔ سچائی کو محسوس کیجئے، سچائی سے محسوس کیجئے، اور اس کو سچائی سے بیان کیجئے! ہاں، بیان کو آپ خوبصورت بنا سکتے ہیں، اتنا کہ آپ کی تلخ بات بھی پڑھنے سننے والے کو اچھی لگے یا اس میں کوئی ایسی چیز ہو جو لطف دے جائے۔ اس کو شعر کی زبان میں جمالیات کہا جاتا ہے۔

۔9۔ اوزان و بحور کو سمجھنے اور اپنے شعر کو ان کی حدود میں رکھنے کے لئے عروض کا مطالعہ بہت مفید بلکہ کسی حد تک ضروری ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں کہ آپ کو عروض نہیں آتا تو آپ شاعر نہیں بن سکتے، یہ بات ذہن سے نکال دیجئے۔ عروض سے کام لیجئے؛ اس کی باریکیوں میں الجھ کر اپنی شعری صلاحیتوں اور زبان و بیان پر پابندیاں لگا لینا اپنے ساتھ ظلم ہے۔ اگر آپ کو عروضی بننا ہے تو وہ بات ہی الگ ہے، اگر آپ کو شعر کہنا ہے تو عروض کے اطلاقی پہلو سے شناسائی بہت کافی ہے۔

۔10۔ لے، سر، تال، چال (وزن اور بحر)؛ قافیہ اور ردیف؛ آپ کے کلام کو جمالیات عطا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ اپنے مطالعے میں آنے والی شاعری میں سے اپنی مشقِ سخن کے لئے ان اوزان و بحور کو منتخب کیجئے جس میں شعر کہنا آپ کو آسان لگتا ہے یعنی زیادہ تر شاعری ان اوزان و بحور میں ہے۔ خود کو مشکل میں ڈالنے اور مبارزت قبول کرنے کا مرحلہ بہت بعد میں آئے گا۔ ابتدائے سخن میں اس سے گریز کیجئے۔ آسان اور مانوس بحروں میں شعر کہئے۔

۔11۔ شعری اصطلاحات اس لئے وضع کی جاتی ہیں کہ ان کی مدد سے بات مختصر طور پر کی جا سکے۔ ایک نو مشق کے لئے ان کو سمجھ لینا کافی ہے، تحقیقی اور تنقیحی مباحث میں الجھنے کی نہ ابھی کوئی ضرورت ہے نہ فائدہ۔ جیسے جیسے آپ پختہ ہوتے جائیں گے، سارا کچھ کھلتا چلا جائے گا مطالعہ یہاں بھی ناگزیر ہے۔

۔12۔ شاعری سکھانے والے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں! جی ہاں، پریشان مت ہوئیے۔ مختلف شہروں، بستیوں، محلوں میں مصروف عمل ادبی تنظیمیں آپ کے لئے درس گاہوں کا درجہ رکھتی ہیں، وہاں آپ کو ادب اور ادب پر گفتگو کا ماحول ملتا ہے، اور آپ شعوری طور پر محسوس کئے بغیر بہت کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے قریب کی کسی ادبی تنظیم کو منتخب کر لیجئے اور ان کے معمول کے اجلاسوں میں شرکت کیجئے۔ اگر آپ وقت دے سکیں تو مزید تنظیموں میں شامل ہو جائیے۔

۔13۔ فاصلاتی تربیت قطعی مختلف چیز ہے، وہ بالمشافہ گفتگو جتنی مفید ہو ہی نہیں سکتی۔ اس میں آپ کی موجود صلاحیتیں ہوتی ہیں جن کو آپ کام میں لاتے ہیں، تنظیموں میں آپ کی صلاحیتوں میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ ایک شخص فاصلاتی تربیت کا کام کر رہا ہے تو وہ ان سارے لوگوں سے زیادہ محنت کر رہا ہے، جو کسی ادبی محفل میں گفتگو کے شرکاء کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر تاثیر اس گفتگو کی زیادہ ہوتی ہے۔

۔14۔ ایک وہ شخص جسے آپ ”استاد“ کہتے ہیں؛ وہ آپ کے لئے محنت کرتا ہے، آپ کی مشقی شاعری کو پڑھتا ہے، اس پر مشورے مرتب کرتا ہے اور پھر اس سب کچھ کو ٹائپ کرتا ہے، آپ تک پہنچاتا ہے، اس کے لئے شکریے کے چند الفاظ کافی نہیں ہیں۔ اگر آپ اس کا حقِ محنت ادا کرنا بار سمجھتے ہیں تو اُس کو بھی کوئی زحمت نہ دیجئے۔

۔15۔ مکتبہ القرطاس والوں نے جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس میں کچھ ضابطے بنائے ہوں گے۔ اس سلسلے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو طریقہ ء کار اُن سے معلوم کر لیجئے۔ آپ سے ٹیوشن فیس لینے والا ”استاد“ کے منصب سے گر نہیں جاتا، ضوابط کے ساتھ ساتھ اس کا اِکرام بھی آپ پر لازم ہو گا۔
………….


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں