تھا وہ اک یعقوب آسیؔ
ایک گھنٹے کا بریک ٹائم؛ میرے دفتر میں کچھ مہربان جمع تھے۔ ایک بزرگ تھے، چوہدری صاحب، فزکس کے پروفیسر؛ عمر اور عہدے دونوں میں میرے سینئر تھے، اور ہم میں خاصی بے تکلفی تھی۔ وہ مجھے ’’اوئے یعقوب!‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے اور میں انہیں ’’تایا جی‘‘ کہا کرتا۔ پانچ بلکہ سات وقت کے پکے نمازی تھے؛ ان کی ٹھوڑی گھُٹنے کی طرح صاف تھی۔ دوسرے ایک مقامی مسجد کے امام تھے، میرے ساتھ دوسرے درجے کے افسر، مختصر سا وجود، مختصر سا چہرہ اور اس پر مختصر سی داڑھی (داڑھی کے بال گھنے نہیں تھے)، تاہم بہت مناسب لگتی تھی۔ تیسرے ایک حافظ صاحب تھےاسلامیات کے پروفیسر، فربہ جسم، بھرا بھرا چہرہ، گھنی مگر چھوٹی چھوٹی داڑھی جسے وہ ایک انچ تک نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک ملک صاحب تھے شعبہ جسمانی تربیت کے اکلوتے افسر؛ داڑھی کبھی رکھ لیتے، کبھی مونڈ دیتے، کبھی سفید رہنے دیتے کبھی بسمہ لگا لیتے؛ اُس دن تازہ مُنڈی ہوئی تھی۔ ایک مہر صاحب تھے۔ ایم دوسری مسجد کے نائب امام، معمر شخص تھے، داڑھی بے ترتیب، جیسے بڑھتی گئی بڑھتی گئی، وہ خط کرنے کے بھی حامی نہیں تھے۔ اور ایک میں تھا، تقریباً ویسا ہی جیسا آپ مجھے میری فیس بک والی تصویروں میں دیکھتے ہیں؛ تب بال اتنے سفید نہیں تھے۔
تایا جی نے ایک دم سوال داغ دیا: ’’اوئے یعقوب! اک گل دس، داڑھی دے بارے توں کیہ کہندا ایں، کس طرح دی ہووے، کنی وَڈّی ہووے؟‘‘ ..... بات وہی ہو گئی کہ
؏: اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے
عرض کیا: ’’آپ اپنے سمیت ہم سب نمونوں کو دیکھ لیجئے! گوڈے والے سب ایک سے ہیں، فرق داڑھی والوں میں ہے‘‘۔ تایا جی نے مجھے گھُورا مگر بولے کچھ نہیں، میں نے جسارت جاری رکھی۔’’داڑھی کا ایک بال بھی نہ مونڈا جائے، نہ کاٹا جائے، خط کر سکتے ہیں، چھوٹی بڑی ہو سکتی ہے، ایک مٹھی کی ہو، اتنی ہو، اتنے لمبے بال چھوڑ کر کترا لیں؛ یہ ہو، وہ نہ ہو؛ یہ ساری باتیں دیکھی جانی چاہئیں اور درست ترین، مستند ترین کو اپنانا چاہئے؛ مگر پہلی بات یہ ہے کہ داڑھی رکھنی ہے!! اس میں کوئی کلام نہیں۔ ..... ہم چاروں میں کم از کم ایک اشتراک تو ہے! دیکھنے والے کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اِس بندے نے داڑھی رکھی ہوئی ہے شیو نہیں بڑھی ہوئی۔ ایک شخص روزانہ سویرے اٹھ کر پہلا کام یہ کرے کہ سنتِ رسول کو چہرے پر سے کھرچ کر دھو کر بہا دے، یا اگر روز نہیں تو کم از کم ہر جمعے کے مبارک دن کا آغاز لازماً سنت کُشی سے کرے، کہ ’اَج مسیتے جانا اے یار‘ ۔۔ تو میں کیا کہہ سکتا ہوں‘‘۔۔۔ پھر؟ کوئی بھی، کچھ بھی تو نہیں بولا۔
۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تب بھی کچھ اور نہیں کہنا پڑا، اور اب بھی مجھے کچھ اور نہیں کہنا۔ ماسوائے اس کے کہ اگر آپ کی داڑھی قدرتی طور پر اگتی ہی نہیں یا بالوں کے کسی مرض وجہ سے پھوٹنا بند کر دیتی ہے، جھڑ جاتی ہے؛ تو آپ معذور ہیں۔
محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ جمعہ: ۱۵۔ مئی ۲۰۲۰ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں