سنت اور فرض کا فرق
مسئلہ (سنت اور فرض کا فرق) شروع کہاں سے ہوا۔ اللہ کریم نے اپنے انبیاء کے وظائف میں کچھ ایسی باتیں رکھ دی ہیں، کہ امتی ان باتوں کے مکلف نہیں۔ جو چیز نبی پر فرض ہے ہو سکتا ہے امت اس چیز سے واقف ہی نہ ہو۔ جو چیز امت کے لئے مستحب ہے وہ نبی کے لئے لازم بھی ہو سکتی ہے۔ کیوں؟ وہ ہمارے پاس اللہ کا نمائندہ اور رسول ہے، اس کی ذمہ داریاں (اللہ کے حوالے سے) امتی سے کہیں زیادہ ہیں۔ ایسے امور بھی ہو سکتے ہیں جن میں نبی کو اختیار دیا گیا ہو اور امتی کو نہ دیا گیا ہو۔ ہم امتی ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ایک امتی ہونے کے ناطے ہمیں کیا کرنا ہے۔ یہاں تک احکام بالکل واضح کر دئے گئے اور ان کا قابلِ عمل ہونا بھی یقینی بنا دیا گیا۔ ان سے آگے؟ اللہ جانے اور اس کا نبی جانے، آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟
عبادات اور مناسک میں مثلاً نماز اور روزے میں توجہ فرمائیے۔ جسے ہم عرفِ عام میں فرض کہتے ہیں، وہ ہے جسے کتاب اللہ نے کُتِبَ علَیکم کہا ہے کہ ان کا کرنا لازم ہے مثلاً نمازِ ظہر کے چار فرض (جمعے کی نماز میں وہی فرض دو رہ گئے)۔ کچھ مناسک وہ ہیں جن کا اللہ کریم نے ویسے حکم نہیں دیا، نبی ان کو کرتا ہے؛ وہ سنت ہیں۔ جیسے ظہر سے پہلے کی (چار، یا دو) اور بعد کی (دو) سنتیں ہیں۔ ان کو سنتِ مؤکدہ کا نام دے دیا گیا۔ کچھ مستحبات ہیں جن کی اپنی اہمیت ہے تاہم حکم ہے کہ کر لو تو اچھا ہے، جیسے ظہر کی نماز کے بعد دو نفل ہیں۔ ظہر کی مثال ہم نے اس لئے لی ہے کہ اس میں وہ مناسک کے تینوں درجے آ گئے۔ عصر کی نماز (چار فرض) سے پہلے دو یا چار رکعت پڑھنا مستحب ہے، اس کو سنتِ غیرمؤکدہ کا نام دے دیا گیا۔
یوں کچھ وضاحتیں خود اپنے اوپر لاد لی گئیں اور وہی کہ فرض کا انکار نہیں ہو سکتا، سنت کا انکار ہو سکتا ہے؛ وغیرہ۔ خدا کے بندو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ ایک عمل سنت ہے اور مؤکدہ ہے تو تم اس کا انکار کیسے کر سکتے ہو جس کی تاکید نبی نے کی؟ کیا مذاق ہے! اور جسے تم غیر مؤکدہ کہتے ہو، وہی تو مستحب ہے کہ بھائی پڑھ لو تو اچھا ہے، نہ پڑھنے سے نماز کو کچھ نہیں ہوتا، ہاں تم ان کی برکات سے محروم رہنا پسند کرو تو تمہاری مرضی۔ بیماری میں سفر میں جہاں قصر ہے وہ فرض نمازوں پر ہے۔ بیٹھ کر، لیٹ کر، اشاروں سے نماز پڑھنا بھی فرض نمازوں پر ہے۔
سفر، جنگ، بیماری میں سنت رکعتوں سے ویسے ہی رخصت مل جاتی ہے (دلوں کا حال اللہ جانتا ہے)۔ جنگ کی حالت میں نماز کیسے پڑھی جائے، اس کا مختصر بیان قرآن شریف میں آ گیا۔ تفصیلات کتابوں میں میسر ہیں۔ جیسے نماز کے اوقات کا بیان قرآن شریف میں آ گیا، کتنی رکعتیں پڑھنی ہیں، وہ کون کون سی ہیں، نماز کے ارکان (قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ، قعدہ) کی تفصیلات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان بھی فرما دیں کر کے بھی دکھا دیں۔
جب قرآن نازل ہو رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ سوالات سے منع کر دیا تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم قومِ موسیٰ کی طرح سوال کرتے جاؤ اور ان کے جواب میں عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے۔ کون جانے! جب حکم ہوا کہ گائے ذبح کرو تو وہ سوال کرنے لگے اور سوال پر سوال کرتے گئے۔ گائے کی ڈیفینیشن ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ ویسی گائے کا ملنا محال ہو گیا۔ حکم ملتے ہی وہ لوگ کوئی سی گائے ذبح کر دیتے، حکم کی تعمیل بہ سہولت ہو جاتی۔ ان کا تو رویہ ہی عجیب تھا کہ: موسیٰ! تم ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ تفصیللات سب جانتے ہیں، اشارہ کافی است۔
اب کیا نئی بات ہو گئی ہے، کیا نماز بدل گئی ہے؟ نہیں نماز تو نہیں بدلی پڑھنے والے نہیں رہے اور جو رہ گئے ہیں ان میں موشگافیاں کرنے والے زیادہ ہیں اور تسلیم کرنے والے کم۔ تلقین کرتے رہئے۔ جو سچ اور درست ہے بیان کرتے رہئے، مفروضات سے گریز کیجئے، اللہ بھلی کرے گا۔ اپنا دل میلا نہ کیا کیجئے!۔
محمد یعقوب آسی ۔۔ جمعہ: ۱۵۔ مئی ۲۰۲۰ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں