جمعہ، 15 مئی، 2020

شاعری؛ کیا اور کیوں




شاعری؛ کیا اور کیوں

سوال دراصل یہ بن گیا ہے کہ شاعری میں ہو کیا رہا ہے اور ہونا کیا چاہئے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اور ہمارے شعر پر کون سی حدود لاگو ہوتی ہیں۔

دین وہ ہے جو انسان کی نجی اور معاشرتی زندگی کے ہر ہر شعبے میں مکمل راہ نمائی کرے اور جہاں ضروری ہو، حدود و قیود کا تعین بھی کرے۔ یہ کام اللہ کا ہے اور اللہ نے اس کے لئے انبیاء کو مبعوث فرمایا؛ جنہوں نے اس دین کو عملاً نافذ کر کے دکھایا۔ اسی بات کو یوں کہہ لیجئے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہم اپنی زندگی کے جملہ معاملات و مسائل میں قرآن اور حدیث کے پابند ہیں؛ اور آزادیاں یا گنجائشیں بھی وہیں تک لے سکتے ہیں، جہاں تک کی اسلام اجازت دیتا ہے؛ اس سے آگے حدود اللہ ہیں۔ اس امر کو یوں دیکھئے کہ اسلام محض چند مناسک کا مجموعہ نہیں اور نہ یہ کسی خاص لباس، زبان، ثقافت اور علاقے سے مشروط ہے۔ اسلام مکمل دین ہے اور اس کا تقاضا ’’کافّۃ‘‘ ہے۔ یعنی اسلام میں داخل ہونا ہے اور کلی طور پر داخل ہونا ہے۔ اسلام کا کوئی حصہ، کوئی رکن نہیں چھوڑا جا سکتا ہے اور دنیا کا کوئی معاملہ ایسا نہیں جو اسلام سے بالاتر ہو۔

شاعری بھی انسانی زندگی اور معاشرت کا ایک حصہ اور ایک مؤثر ذریعہء اظہار و ابلاغ ہے۔ اس پر اسلامی قدر کا نفاذ بھی ویسا ہوتا ہے، اور ہونا بھی چاہئے جس قدر اس فن کی اثر آفرینی ہے۔ جنابِ نادمؔ کے سوال کے جواب میں شاعری کی علمی حیثیت اور اس پر احکام کے اطلاق کے حوالے سے اتنا کچھ کہہ دیا گیا ہے اور وہ اتنا کافی ہے کہ اس پر مزید کوئی اضافہ کرنا، کم از کم میرے لئے ممکن نہیں۔ میں یہاں صرف ایک بگاڑ کی بات کروں گا جسے میں بنیادی بگاڑ سمجھتا ہوں۔

امتیں صرف دو ہیں: ایک اسلام اور ایمان والے ہیں، دوسرے منکرین ہیں۔ واضح رہے کہ منافقین عام منکرین کی نسبت بدتر ہیں کہ وہ ہیں تو منکرین مگر دعویٰ مسلم ہوتے کا کرتے ہیں، اور اپنی معاشرتی زندگی میں بظاہر مسلمانوں جیسا دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں یہ لوگ ’’اللہ کو اوراہلِ ایمان کو دھوکا دیتے ہیں‘‘۔ اشارہ کر دیا ہے، تفصیلی شناخت اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کے فرمودات میں میسر ہے۔ رہے منکر، وہ تو منکر ہیں؛ انہیں اللہ کے حکم کی تعمیل سے کوئی غرض ہوتی تو انکار ہی نہ کرتے۔

ہوا یہ، کہ منکرین اور ان کے فکری بالکوں نے مختلف امور پر ایک ایک کر کے کچھ ایسی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی اور ہنوز کر رہے ہیں کہ: نماز اسلام میں ہے، اسلام نماز میں نہیں؛ داڑھی اسلام میں ہے، اسلام داڑھی میں نہیں؛ سود سے پیسہ بڑھتا ہے اور زکوٰۃ سے گھٹتا ہے؛ اسلام کو آپ کی زندگی کی سائنس سے غرض ہے فن سے نہیں؛ ناچ، گانا، مصوری، موسیقی، سنگ تراشی، فنِ تعمیر، ادب، شعر اور دیگر فنون مذہب سے بالاتر ہیں یا مذہب کو ان سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ بنیادی کج فکری کا یہ فتنہ آج کا تازہ فتنہ نہیں ہے، اس کو صدیوں سے (پوری دنیا میں عام طور پر اور مسلم معاشروں میں خاص طورپر) پھیلایا جا رہا ہے۔ بہت سارے ذہن تو اس فتنے کا شکار ہو چکے ہیں اور بہت سارے بڑی تیزی سے شکار ہورہے ہیں۔ شعر کی اثرپذیری کو معاشرتی بگاڑ پیدا کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر برتنے کا صیہونی دجالی منصوبہ اپنے خطوط پر عمل پیرا ہے اور’’ نیو ورلڈ آرڈر‘‘ اور ’’نیو روڈ میپ‘‘ کے کارپرداز اِس میں بھی سارے شیطانی حربوں سے کام لے رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے شاعروں سے واقف ہوں جو ’’پورا شاعر‘‘ بننے کے شوق میں شراب اور نشے تک کے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کے لحاظ سے یہ ’’کچھ بڑے شاعروں‘‘ کی سنت ہے۔محبوب کے سِفلی تصور نے کتنے ہی شاعروں کو اس گناہ پر بھی لگا دیا جسے ’’برا راستہ‘‘ فرمایا گیا ہے۔

شاعروں کو معاشرہ ’’باشعور‘‘ لوگوں میں شمار کرتا ہے۔ اور کتنے ہی لوگ ایسےہیں جو اپنے عقائد اور ایمانیات میں بھی شعراء کےکلام کو بنیاد مانتے ہیں۔وعید حقیقت میں انہی لوگوں کےلئے ہے کہ انہوں نے شاعر کی بات مان لی اور اس کے پیچھے چل پڑے؛ اللہ اور رسول کی بات جاننے کی پروا نہیں کی، ماننا تو بعد کی بات ہے۔ شاعر پر قدغن یہ لگتی ہے کہ نامعلوم وادیوں میں نہیں بھٹکنا؛ انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے، جس سے محرومی اپنے لئے بے راہ روی کا اور دوسروں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ مسلمان کے پاس تو ضائع کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ہوتا۔ اس پر تو بہت عظیم ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں اور اسے اللہ کے ہاں وقت کا حساب بھی دینا ہے ۔ بھلائی دینِ اسلام کی روح ہے بلکہ اسلام سراسر بھلائی ہے۔ پروفیسر انور مسعود سےکہا گیا کہ نئے لکھنے والوں کے لئے کوئی نصیحت کریں؛ انہوں نے کہا: محسنات اور منکرات کا کسے نہیں پتہ! بھائی محسنات کو اپنا لو، منکرات کو چھوڑ دو! اور ہاں! یہ بات خوب سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بے مقصد نہیں بنائی۔ سنتِ الٰہی یہی ہے کہ آدمی کوئی بے مقصد کام نہ کرے۔

شعر تو ہر موضوع پر کہا جاتا ہے، کہا جاتا رہے گا۔ مگر یاد رہے کہ ہمیں جو بھی کرنا ہے، ایسے کرنا ہے کہ اس میں بھلائی ہو، برائی نہ ہو۔ شعر بے مقصد نہ ہو، بامقصد ہو؛ اور مقصد بھی نیک ہو۔ نیک وہ ہے جو اللہ اور رسول کی ہدایات کی روشنی میں نیک ہے۔ ظاہر ہے انداز بھی نیک، شستہ اور شائستہ اپنانا پڑے گا۔

وما توفیقی الا باللہ۔

محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ جمعہ ۱۵۔ مئی ۲۰۲۰ء

1 تبصرہ:

  1. کیا ہی زبردست باتیں ہیں جو سوچ کا دھارا بدل دیں ۔ ۔ میری کوئ حیثیت نہیں کہ تبصرہ کروں پر مگر سراہے بنا رہا نہیں جا سکتا ۔ ۔

    جواب دیںحذف کریں