ہم
دیکھتے ہیں کہ فارسی کے مصادر کے آخری دو حرف ’’تَن‘‘ ہوتے ہیں یا ’’دَن‘‘۔ اس پر
بحث نہیں کہ ان کے علاوہ کوئی اور کیوں نہیں۔ دیکھنا یہ مقصود ہے کہ ’’تن‘‘ آخر سے
پہلے حروف میں اور ’’دن‘‘ آخر سے پہلے حروف میں کوئی امتیاز کیا جا سکتا ہے یا
نہیں۔ چلئے ہم یہاں اپنی سہولت کے لئے ’’تن‘‘ یا ’’دن‘‘ سے فوراً پہلے واقع ہونے
والے حرف کو ’’تیسرا حرف‘‘ (یعنی اختتام کی طرف سے تیسرا) یا ’’ثالث‘‘ کہے لیتے
ہیں۔ مثلاً: فروختن (خ)، شگفتن (ف)، خریدن (ی)، نمودن (و)، آوردن (ر)، شکستن (س)،
آفریدن (ی)، آزمودن (و)، نشستن (س)؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ میں نے کچھ باتیں نوٹ
کیں، ان میں آپ کو شریک کر رہا ہوں۔
۔۱۔ ثالث اگر حرف علت(الف، واو، یاے) ہو تو علامتِ مصدر ’’دَن‘‘ ہوتی ہے: نمودن،
آزمودن، کشیدن، دریدن، بریدن، خوابیدن، نہادن، افتادن، فرستادن، دادن، آسودن
۔۲۔ اگر ثالث (ماسوائے حرفِ علت) مجزوم ہو تو مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے ایک واقع ہوتی
ہے۔
(الف)۔
ثالث (س، ف، ش) کے ساتھ علامت مصدر ’’تن‘‘ ہوتی ہے، ماسوائے صورت ۳ کے جو آگے آتی ہے:
شکستن، شگفتن، نوشتن، گرفتن
(ب)۔
ثالث ماسوائے مذکور کے ساتھ علامت مصدر ’’دَن‘‘: بُردن، آوردن، گزاردن
۔۳۔ اگر ثالث ساکن غیر مجزوم (خ، ف، س، ش) میں سے کوئی ہواور اس سے
پہلے حرف علت واقع ہو تو علامت ’’تن‘‘ ہوتی ہے: ریختن، خواستن، برداشتن، پرداختن،
تافتن، کوفتن، فریفتن، انگیختن، برخاستن، آموختن، ساختن، یافتن، بافتن، فروختن،
انداختن، اندوختن، وغیرہ
۔4۔ ثالث کی جگہ ’’الف، نون غنہ‘‘ آئیں تو علامت مصدر ’’دن‘‘ ہوتی ہے: خواندن، ماندن، نشاندن
۔۵۔ شُدَن اور زَدَن اپنی نوعیت کے صرف دو مصدر ہیں (غالباً) کہ ان
میں علامت مصدر ’’دن‘‘ سے پہلے صرف ایک حرف ہے، جو ظاہر ہے متحرک ہو گا۔
حاصلات:
اول: صورت ۔۳ کے تحت آنے والے مصادر سے فعل ماضی پہلا صیغہ (جو اِسم حاصل مصدر
بھی ہے): خواست، برداشت، پرداخت، تافت، کوفت، فریفت، ساخت، آموخت، شناخت، یافت؛
وغیرہ .... اِن کا آخری ت وہی ہے جسے ’’فاعلات‘‘ میں تائے فارسی کا نام دیا گیا
ہے۔ عروضی وزن میں یہ تائے فارسی ساکن ہو تو کالعدم ہوتا ہے، متحرک ہو تو معمول کے
مطابق گنتی میں آتا ہے۔
دوم: واوِ معدولہ کا رویہ مصادر کی ساخت میں: اگر اس کے بعد کوئی حرفِ
علت واقع ہو تو یہ کوئی آواز نہیں رکھتا۔ اگر کوئی اور (غیر حرفِ علت) ہو تو یہ پیش کے
برابر حرکت پیدا کرتا ہے، نہ کہ واوِ علت کی طرح۔ واوِ معدولہ کی معنویت بہر حال
مسلم ہے؛ ’’خار‘‘، ’’خوار‘‘ برابر نہیں ہو سکتے۔
سوم: حرفِ ثالث عام طور پر ان میں سے کوئی ہوتا ہے: خ، ر، س، ش، ف، ن،
نون غنہ، حروفِ علت (ا،و، ی)؛ ص (شاذ ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد
یعقوب آسی ۔ 16 مارچ 2015
زیرِ ترتیب رسالہ "آسان علمِ قافیہ" سے ماخوذ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں