اتوار، 5 جولائی، 2015

بے چارہ (3) ۔

بے چارہ (3)

یوں تو اُس کی چال میں بھی لڑکھڑاہٹ تھی، اس نے دو کی بجائے چار برس کی عمر میں چلنا سیکھا تھا وہ بھی جھولتے جھالتے۔ مگر زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ بچہ ٹھیک طور پر بول نہیں سکتا تھا۔ بچے کے کتنے ہی ٹیسٹ ہوئے، آنکھیں کان گلا سب ٹھیک تھے۔ ڈاکٹر کہتے تھے اس کے اعضاء درست ہیں مسئلہ اعصاب کے ساتھ ہے۔  سیروں کے حساب سے سیرپ اور دوائیاں اس کے پیٹ میں اتاری جا چکی تھیں؛ ٹیکوں کے نشانات سے سارا جسم بھرا پڑا تھا۔

لاڈلے میاں کے والد کو ایم ڈی صاحب کا شوفر ہونے کے ناطے جائز کے ساتھ ساتھ دیگر نوع کی مراعات بھی حاصل ہیں جن کے استعمال میں اس نے ہمیشہ فراخ دلی سے کام لیا ہے۔ سپیشل سکول نہ تو ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں اور نہ ان کی فیسیں ادا کرنا ہما شما کے بس میں ہوتا ہے۔ ایسے اداروں میں بچوں کے دیگر ہوش ربا اخراجات کے لئے بھی معقول اور مستقل ذرائع درکار ہوتے ہیں جب کہ خود ساختہ مراعات کی عمر قلیل اور غیر یقینی ہوا کرتی ہے۔

عام سکول میں لاڈلے میاں کو داخلہ دلوانا جنابِ شوفر کے شایانِ شان نہیں تھا۔ سو، اسے ایک اقامتی دینی مدرسے میں داخل کرا دیا گیا۔ اور کچھ نہیں تو مولوی تو بن ہی جائے گا، نا!مسیں بھیگنے تک وہ خاصا چالاک ہو چکا تھا۔ اس کی زبان اور قدم دونوں ہنوز لڑکھڑاتے تھے مگر اسے اس کی چنداں پروا نہیں تھی۔ اس کی تربیت بھی ہزاروں ایسے بچوں کی نہج پر ہوئی تھی جنہیں سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی؛ انہیں بڑے استاد جی جو کچھ بتا دیں اس پر مکمل ایمان لانا ہوتا ہے۔ بڑے استاد جی کی تربیت بھی تو ایسے ہی ایک مدرسے میں ہوئی تھی اور وہی نسل در نسل منتقل ہوتی اس تک پہنچی تھی۔

وہ اذان بھی کہا کرتا، اقامت بھی اور نعتیں بھی۔ موقع بموقع اعلانات بھی وہی کرتا۔ اہلِ محلہ نے بڑے استاد جی سے مکرر درخواست کی کہ لاڈلے میاں کے الفاظ سننے والوں کی سمجھ میں نہیں آتے، اعلانات کسی اور کے ذمے لگا دیں۔ جواب ملا:’’ ہماری سمجھ میں تو آتے ہیں!‘‘

لالہ مصری خان کے بقول لاڈلے میاں مطبخ کے انچارج ہیں اور خوب صحت مند ہیں۔ متعدد انواع کی راتوں اور عیدوں کے مواقع پر لذات کام و دہن کا انتظام و انصرام انہیں کے ذمے ہوتا ہے۔ بڑے استاد جی کی آشیرواد حاصل کرنے میں جہاں جہاں لاڈلے میاں طباقوں سے کام لیتے ہیں وہیں کچھ ایسے ذرائع سے کام لینے میں بھی ماہر ہیں جن کا ذکر کرنے کی قلم اجازت نہیں دیتا۔

تازہ خبر یہ ہے کہ لاڈلے میاں کو مدرسے کے نصاب میں غیر اعلانیہ طور پر شامل ایک کتاب میں سے درس دینے کا سلسلہ بھی تفویض کر دیا گیا ہے۔ کسی منہ پھٹ بدتمیز کی اس ہرزہ سرائی پر  کہ موصوف کے ارشادات کو سمجھنا  عام انسانی کانوں کے بس کا روگ نہیں؛ بڑے استاد جی نے فرما دیا: ’’سہولت اس میں یہ بھی ہے کہ کتاب کے متن میں نثر کم اور ابیات زیادہ ہیں، بنا بریں عقائد و نظریات کی تدوین بہتر انداز میں ہو سکتی ہے۔ رہا بولنے کا مسئلہ،  تو وہ  اس  بے چارے کی طبعی مجبوری ہے، اس پر تنقید سے گریز کیا جائے۔‘‘ خان لالہ شدت سے اس دن کے منتظر ہیں جس دن لاڈلے میاں خطیب کی اور پھر بڑے استاد جی کی مسند پر رونق افروز ہوں گے۔



بدرِ احمر کے قلم سے: اتوار ۵؍ جولائی ۲۰۱۵ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں