جمعہ، 3 جولائی، 2015

بے چارہ ۔(2)۔

 
بے چارہ (2)

کالے رنگ کی ریشمی چادر پر سنہری، نقرئی اور دیگر شوخ رنگ کے دھاگوں سے بیل بوٹے بنے ہوئے تھے۔ ان کے بیچوں بیچ کلمۂ شہادت، آیت الکرسی، اور دیگر کلمات عمدہ اور منقش خطوط  میں کشیدہ کئے ہوئے  تھے۔ مخصوص طرز کی ایک چارپائی پر چادر اس سلیقے سے رکھی تھی کہ اس پر  لکھا قرآن شریف کی آیت کا جزو ’’کُلُّ نفسٍ ذائقَۃ المَوت‘‘ قبلہ کی طرف بھی رہے، اور جنازے میں آئے ہوئے لوگوں سے ہر ایک کی نظر میں بھی نہ آئے۔ بڑے خواجہ صاحب تو اپنی زندگی گزار گئے تھے، اب ہر ایک کو اُس کی موت یاد دلا کر کیا فکرمند کرنا!
خواجہ صاحب کا نام جو مدت ہوئی محلے داروں کے ذہن سے محو ہو چکا تھا؛ صبح سویرے مسجد کے سپیکر پر اس اعلان کے طور پر پکارا گیا کہ وہ اِس دارِفنا سے کُوچ کر چکے ہیں، ہما شما ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ’’کَون خواجہ خیر دین یار؟‘‘ کسی نے جواب میں بڑے خواجہ صاحب کہا تو لوگوں کا ہجوم ’’خواجوں کی حویلی‘‘ پر پِل پڑا۔ اس میں خواجہ اینڈ سنز کی انسانی شہرت سے  کہیں زیادہ کشش خواجہ مارکیٹ کی تھی۔ رزق تو اللہ کریم دیتا ہے؛ جسے چاہے جتنا عطا کر دے! یرزقُ مَن یشاءُ بغیرِ حساب۔ یہاں تک کہ رزق جو ایک انسان کے لئے لکھ دیا گیا ہے اس کی مثال موت کی سی ہے؛ وہ ملے گا، ضرور ملے گا اور مقررہ وقت پر ملے گا۔ یوں کہئے رزق مَوت کی طرح انسان کےپیچھے پڑا ہوا ہے۔ اس امر کا انحصار البتہ انسان پر ہے کہ وہ اپنے نصیب میں لکھے ہوئے رزق کو حاصل کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کرتا ہے اور اس کے صائب یا غیرصائب ہونے پر کتنی توجہ دیتا ہے۔
کمائی تو ہر کوئی کرتا ہے۔ کماتا وہ بھی ہے جس کی ایک فون کال پر لاکھوں روپے کا حساب ادھر سے ادھر ہو جاتا ہے۔کماتا وہ بھی ہے جو سرِراہ ہاتھ پھیلا کر آواز لگا رہا ہوتا ہے: ’’دے جا انھیا! سخی نوں پیسہ‘‘ کمائی وہ بھی کرتا ہے جو بس کی بھیڑ میں پھنسے ایک سفید پوش بابو کی وہ جیب صاف کر جاتا ہےجس میں اس کی مہینے بھر کی تنخواہ ہوتی ہے اور اس کی بیوی اپنے چار بچوں کو بہلا رہی ہوتی ہے کہ: ’’آج بابا کو تنخواہ ملی ہے، شام کو بازار جائیں گے اور کھلونے بھی لائیں گے اور نئے کپڑے بھی۔ ‘‘ حالانکہ وہ جانتی ہے کہ اتنے میں تو چولھا بھی مشکل سے چلتا ہے۔ کمائی وہ بھی کرتا ہے جو ایک کار کی ڈرائیور سیٹ پر بیٹھے شخص کی کنپٹی پر ٹھنڈی فولادی نالی رکھ کر اس کے زور پر گاڑی میں سوار خواتین کا سارا زیور اتروا لیتا ہے۔ کمائی وہ بھی کرتا ہے جو ایک جعلی ٹیکا تیار کرتا ہے اور اسےکیمسٹوں اور ہسپتالوں تک یوں پہنچاتا ہے کہ اصلی لائف سیونگ ڈرگ کا ٹیکا  سرے سے غائب ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہو جاتا ہے کہ اس کا اپنا جوان بیٹا  وہی زہر سپلائی کرتے ہوئے اپنے ابا جیسے کسی قارون کی گاڑی سے ٹکرا کر ہسپتال پہنچ جاتا ہے اور اسی جیسی جعلی ’’لائف سیونگ ڈرگ‘‘ کا شکار ہو جاتا ہے۔
کمائی وہ بھی کرتا ہے جو سارا دن گدھا گاڑی  پر دوسروں کا سامان ڈھوتا ہےاور خود بھی  گدھے کی طرح جان کھپاتا ہے۔ وہ بھی جو سارا دن اینٹیں ڈھوتا ہے، وہ بھی جو منشی گیری کرتا ہے اور تب تک کرتا ہے جب تک اس کی آنکھیں دیکھنے سے انکار نہیں کر دیتیں۔ کمائی وہ بھی کرتا ہے جو مونگ پھلی کی بھٹی کے ساتھ اپنا خون بھی جلاتا ہے؛ کہ خون جلے گا تو چولھا جلے گا۔اور کمائی وہ بھی کرتا ہے جو سارا دن چھابڑی سر پر اٹھائے پھرتا ہے؛ موسم کے مطابق چھوٹی موٹی اشیاء کچھ گھر پر تیار کر کے اور کچھ بازار سے خرید کر ان کی پڑیاں بناتا ہے اور پانچ دس پیسے پڑیا پر اپنی محنت کے کما کر شام کوآٹا دال  خرید لاتا ہے۔ مال اور مشقت، قیمت دونوں کی لگتی ہے۔ خالص پر جو ملتا ہے بھلے تھوڑا ہو پر اسے کھا کر رات کو نیند بے فکری کی آتی ہے۔ ناخالص پر کچھ زیادہ مل جاتا ہے اور جیبیں بھرنے لگتی ہیں، نیند کا کیا ہے خالص نہ سہی، ناخالص سہی!
اگلا مرحلہ خرچ کرنے کا ہے جو کمانے سے زیادہ نازک ہوتا ہے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں! بڑے خواجہ صاحب نے ایسی ’’چھوٹی چھوٹی‘‘ باتوں کی کبھی پروا نہ کی؛ نہ کمانے میں نہ خرچ کرنے میں۔پروا کرتے تو چھابڑی سے مارکیٹ تک کی ملکیت؟ اتنا ضرور ہوا کہ ہر نومولود کو چمچ سونے کا مل گیا۔ یہی بڑے خواجہ صاحب کی کمائی تھی، یہی بچت اور جمع پونجی؛ جسے اب چار پانچ چھوٹے خواجاؤں کے بیچ بٹنا تھا۔ بڑے خواجہ صاحب کالے رنگ کی منقش چادر میں سفید براق ریشمی چادروں میں لپٹے پڑے تھے،بڑے خواجہ صاحب جو ٹھہرے! کھدر لٹھا بھی کوئی سستا نہیں پر ہے تو کھدر لٹھا ہی نا!
اتنی ساری باتیں کرنے کا موقع یوں مل گیا کہ مولوی صاحب کی زوجہ محترمہ کو ہنگامی حالت میں  ہسپتال جانا پڑا۔ خاصے انتظار کے بعد خبر ملی کہ موبائل فون کی گھنٹیاں پڑوسی سن رہے ہیں، جسے مولوی صاحب پریشانی کے عالم میں گھر کے صحن میں چارجنگ پر لگا چھوڑ گئے ہیں۔ جنازہ گاہ میں شور سا ابھرا کہ کوئی ہم مسلک بندہ تلاش کرو جو بڑے خواجہ صاحب کی نماز پڑھا سکے۔ اس شور میں کئی منٹ اور لگ گئے تو ایک کھنک دار آواز نے سب کو چونکا دیا۔ کوئی کہہ رہا تھا: ’’مرحوم کے بیٹے کہاں ہیں؟ ان میں سے کوئی آگے بڑھ کر نماز  کیوں نہیں پڑھا دیتا!؟‘‘ ادھر سے کوئی اور چلایا: ’’یہ کون بدتمیز ہے؟ کیسے موقعے پر کیسی باتیں کر رہا ہے۔ کوئی مولوی ڈھونڈ کر لاؤ، اعلان کراؤ پانچ سو، ہزار کے اس مجمعے میں کوئی مولوی ہے؟‘‘ پتہ نہیں اس پکار کا جواب ملا یا نہیں، اور ملا تو کتنی دیر بعد ملا۔       


بدرِ احمر کے قلم سے: جمعہ ۳؍ جولائی ۲۰۱۵ء

2 تبصرے: