منگل، 2 فروری، 2021

مجھے اپنی کتاب ضرور بھیجئے گا

مجھے اپنی کتاب ضرور بھیجئے گا


اس سے قطع نظر کہ کوئی آپ کو اور آپ کی کتاب کو جانتا بھی ہے یا نہیں؛ مجھے دنیا جانتی ہے۔ اور یقین جانئے کہ جتنا جانتی ہے وہ بہت کم ہے؛ اہلِ علم ہنوز بے قدری کا شکار ہیں۔ بہ این ہمہ، کسی نے میرا نام سن رکھا ہو، اس کی کوئی کتاب شائع ہو، اور وہ مجھےنہ بھیجے؛ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ کتاب میں شامل مواد تو ہوا آپ کا، اس کی تو کوئی قیمت لگائی ہی نہیں جا سکتی؛ وہ تو ’’بے بہا‘‘ ہے، اور اس کی قدر کرنا ہر اہلِ ذوق کی ذمہ داری ہےتاہم یہ ذمہ داری بنتی ہی تب ہے جب کتاب اس تک پہنچے۔ اس امر کو یقینی بنانا تو آپ پر ہے، نا۔ کتاب کی اشاعت البتہ کاروباری معاملہ ہے۔ اس پر آپ کا یا کسی اور کا جو بھی خرچہ آیا ہے، وہ تو آنا تھا۔ ایک خوش ذوق قاری اور ناقد کو اتنا حق تو دیجئے کہ اسے آپ کی کتاب خریدنی نہ پڑے؛ ورنہ اس کے ذوق کی توہین ہو گی۔ ہو گی نا! اہلِ قلم طبقہ بہت حساس ہوتا ہے، آپ بھی یقیناً کسی کی توہین نہیں کرنا چاہیں گے۔ ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ آپ نے ایک کتاب تخلیق کی، مرتب کی، اس کی اشاعت کا بوجھ اٹھایا، کس لئے؟ کہ آپ کی کتاب کو پڑھا جائے۔ گویا کتاب کو پڑھا جانا آپ کی ضرورت بھی ٹھہرا، ضرورت ذمہ داری کو جنم دیتی ہے۔ یہاں تک تو واضح ہو گیا۔

سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کتاب مجھے ہی کیوں بھیجی جائے؟ اس کا جواب چنداں مشکل نہیں۔ میں آپ کی کتاب کا کماحقہٗ مطالعہ کرنے اور اس پر اپنی ناقدانہ رائے دینے کا اہل ہوں۔ اس امر میں البتہ آپ کے عمل کا بہت دخل ہے جو میری تنقید کو کتاب کی تنقیص، تحسین یا تقریظ کا راستہ دکھائے گا۔ ورنہ میں تو کتاب سے محبت کرنے والا آدمی ہوں۔ میں تو کتاب سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ اس کو کھولنا اور اس کی ورق گردانی کرنا بھی مجھ پر شاق گزرتا ہے کہ کہیں اوراق کو نقصان ہی نہ پہنچ جائے۔ جو کتابیں میں نے کسی ضرورت کے تحت خریدی تھیں، ان کی ورق گردانی اور ویرانی میرا مسئلہ ہے۔ آپ مجھے کتاب بھیجیں گے تو ہدیہء محبت کے طور پر بھیجیں گے اور اس توقع پر بھیجیں گے کہ میں اس کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کسی معروف پلیٹ فارم پر کروں۔ یہ آپ کا عین فطری حق ہے اور یہ بھی کہ آپ کی کتاب میرے ہاتھوں میں محفوظ رہے۔ اس لئے مجھ پر لازم ہے کہ میں آپ کے تحفے کو مکمل حفاظت میں رکھوں، چاہے مجھے آپ کی کتاب سات پردوں میں رکھنی پڑے، اور میں برسوں سے یہی کرتا آ رہا ہوں۔ بلند بانگ دعوے رکھنا میرے مزاج میں شامل نہیں، آپ چاہیں تو میرے ہاں برسوں پہلے موصول ہوئی کتابوں کا معائنہ کر لیجئے۔ آپ کو یقین ہو جائے گا کہ ان کو کبھی کھول کر بھی نہیں دیکھا گیا۔ نہیں؟ ارے کیوں! کیا آپ کو اب بھی میری محبت پر یقین نہیں ہے؟ اگر ہے تو ۔۔۔
مجھے اپنی کتاب ضرور
بھیجئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔ 

 محمد یعقوب آسیؔ(ٹیکسلا) پاکستان

منگل: ۲؍ فروری ۲۰۲۱ء


 

جمعرات، 7 جنوری، 2021

ریڈیو ڈراما ۔۔۔ خوشبو ۔۔۔

جمعرات ۱۱؍ مئی ۲۰۱۷ء

خوشبو

(ریڈیو ڈرامے کا مسودہ)

یہ ڈراما میری طبع زاد کہانی ’’خوشبو اور پہیلی‘‘  (۲۵؍ اکتوبر ۱۹۹۷ء) سے ماخوذ ہے۔

ٔٔٔٔ٭٭٭٭٭٭٭


۔(۱)۔

پچیس برس پہلے: بے جی کے گھر کا آنگن

بے جی، ماسٹر جی

بے جی: توقیر! یہ کیا ہے؟ آج پھر تیری جوتی کو گوبر لگا ہے اور پجامہ گارے سے بھرا ہے۔ کیا کرتا پھرتا ہے تو؟ گھر میں تو صابن بھی نہیں کہ میں ان کو دھو کر ڈال دوں۔ کل پھر ماسٹر موا مارے گا گندے کپڑے دیکھ کر ۔۔۔(ٹھنڈی سانس لے کر)  ۔۔۔ پر ماسٹر بے چارے کا بھی کیا قصور، وہ تو بچوں کو صفائی کا درس دیا کرتا ہے۔ اب وہ کیا جانے کہ ۔۔۔ خیر چھوڑ! بستہ رکھ اور روٹی کھا لے، سکول کا کام بھی کرنا ہے۔ آ میرا بچہ، شاباش ۔۔۔  (گم شدہ آواز میں)  میں صدقے میں واری، میرا دل کہتا ہے کہ  تو بڑا ہو گا تو بڑا ٓدمی بنے گا۔ پر، پتہ نہیں! ۔۔

(مختصر وقفے کی موسیقی)

ماسٹر جی: تجھے پتہ ہے بہن!  اللہ بخشے نور دین میرا یار تھا۔ اس کی وجہ پتہ ہے تجھے؟

بے جی: نہیں بھاء، آپ مردوں کے بیچ ہمیں کیا لینا۔ بہشتی آپ کا دوست تھا، اس لئےتیری عزت  میں بھی کرتی ہوں، بچے بھی کرتے ہیں۔

ماسٹر جی: وہ  باتوں سے ان پڑھ نہیں لگتا تھا۔ ایسی بات کرتا،کہ کالج کے پروفیسر بھی سنیں تو استاد مان لیں۔ اور کبھی میں تعریف کر دیتا تو وہ کہتا: ’’ اوہ، چھڈ یار فتح محمدا، یہ تو نچوڑ ہے زندگی بھر کی غلطیوں کا اور بزرگوں کی باتوں کا، بابے دادے سے سنا ہے، ورنہ یار! ہم تو کھوتے ہیں، اندھے۔ ماں نے نور دین نام رکھا، پر یار، نہ تو دین کی سمجھ آئی اور نہ علم کا نور پلے پڑا،میرا کیا بنے گا یار؟‘‘ اور اس کی آواز بیٹھ جاتی تھی۔ میں اسے کہنا کہ نور دینا! تو اِس طرح سوچتا ہے نا، شکر کر۔ آج کل تو کوئی سوچتا بھی نہیں! بات یہ ہے کہ مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ پر ۔۔۔۔

 بے جی: کہہ دو بھاء آپ کوئی غیر تو نہیں ہیں نا۔

ماسٹر جی: میں چاہتا ہوں کہ آپ کے بچوں کو مہینے کے مہینے کچھ دے دیا کرو، دال روٹی آسان ہو جائے گی۔ 

بے جی: بھاء فتح محمدا! بیوہ ہوں، غریب ہوں۔یہ میری بیٹی کملو، توقیر سے بڑی ہے۔ لگر کی طرح بڑھ رہی ہے، پر  بھائی، خدا کا شکر ہے ایسے تیسے بِیت رہی ہے۔ بچہ کسی کام جوگا ہو گیا تو سب دھونے دھل جائیں گے۔ غریبی کٹ جاتی ہے بھاء، بدنامی نہیں کٹتی۔ میں بھلا چاہوں گی کہ کوئی میری اولاد پر انگلی اٹھائے۔ تو نے ہمارا درد ونڈایا ہے، خدا تجھے اور بھی خوشیاں دے، مجھے کچھ نہیں چاہئے۔

ماسٹر جی: بہن، سنو تو!

بے جی:  توقیر کا ابا بہشتی تیرا یار تھا،تجھے پتہ ہے اس کا سبھاؤ کیسا تھا۔ یہ، اس لڑکے کا سبھاؤ بھی ویسا ہی ہے۔ کسی نے مذاق میں بھی کچھ کہہ دیا تو مر جائے گا میرا بچہ یا کسی کو مار دے گا۔ بڑا انکھی ہے باپ کی طرح۔ ایک دن میں نے کہہ دیا: پتر، تیرا چاچا زکات دیتا ہے ہر سال، اس سے کہہ ہماری کچھ مدد کر دے۔ کہنے لگا: بے جی سکول چھوڑ دیتا ہوں دیہاڑی کر لوں گا، کسی زمیندار کے پاس نوکر رکھوا دے، پر، یہ جو تو نے کہا ہے نا، مجھ سے نہیں ہو گا۔  میں نے زور دے کر کہا تو روٹھ گیا،  دو دن پورے روٹی نہیں کھائی میرے پتر نے۔ اب تو ہی بتا وِیر! ماں ہوں نا، کلیجہ پاٹنے لگا تھا میرا۔ وہ دن، آج کا دن، شام کو سکول سے آ کے اِدھر اُدھر کوئی چھوٹا موٹا کام کر لیتا ہے اور رات ساری بیٹھ کر پڑھتا ہے، دیوے کی روشنی میں۔ نہ یار، نہ بیلی، نہ کھیڈ نہ اکھاڑہ۔ کہتا ہے: ’’کسی سے مانگوں گا نہیں!‘‘دو مہینے چھٹیوں والے، شہر چلا گیا، جُھورے ترکھان کے ساتھ، روئی کے کارخانے میں نوکری کر لی، کام بھاری تھا، روزے آ گئے تو میں نے اٹھوا دیا کہ روزہ رکھ کے سارا دن جان مارے گا تو پڑھے گا کیسے۔ بڑی منتوں سے ٹالا ہے میں نے۔ بھاء، تو خوش رہ، میں راضی، میرا رب راضی۔‘‘

ماسٹر جی: دیکھ بہن! تو میرے یار کی عزت ہے سو میری بہن ہے۔ میرے بارے غلط گمان نہ کرنا۔  خدا نہ کرے، کل تجھ بوڑھی جان کو کچھ ہو گیا ؟ بیٹیوں کے معاملے بہت نازک ہوتے ہیں۔۔۔تو اِس طرح کر کہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دے۔

 بے جی: لو! پیسہ نہ دھیلا، کردی میلہ میلہ۔ بیٹی کا ڈولا اٹھوانا سوکھا ہے بھلا؟ رب سبب بنائے گا، کر دوں گی۔

ماسٹر جی: کملی بہن!۔ اگر میں تجھے کچھ قرضہ دے دوں تو؟

بے جی: پر اتارے گا کون، وِیر!

ماسٹر جی: تیرا بیٹا جو ہے! وہ میرا قرض اتارے گا۔ بڑا لائق بیٹا ہے تیرا، بہن۔ تو بڑے نصیبوں والی ہے۔ میرے دونوں ہیں نا، مسرور اور تیمور، میں خود پڑھاتا ہوں ان کو! مگر سکول میں توقیر اُن کے بھی کان کاٹتا ہے، حالانکہ وہی جو سکول میں پڑھ لیا سو پڑھ لیا۔ اس کی حفاظت کرنا بہنا! یہ تو ہیرا ہے ۔۔۔ بلکہ بہن! اگر تو مذاق نہ سمجھے تو اپنا بیٹا مجھے دے دے۔

بے جی: لے بھاء! تیرے بیلی کا پتر ہے پرایا تھوڑی ہے۔ تیری بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میرا تو یہی سہارا ہے، تجھے دے دوں تو میں کہاں جاؤں گی؟

ماسٹر جی: میری بھولی بہنا! میں ایسے تھوڑی کہہ رہا ہوں۔ میں اس کو اپنا بیٹا بناؤں گا، اپنی مہ نور کے بدلے ۔۔۔ کیا سمجھی؟

بے جی: ہائیں! یہ کیا کہہ رہے ہو بھاء، آپ کھاتے پیتے لوگ ہو، آپ کو کمی ہے رشتوں کی؟  کون اپنی چاند سی، نازوں پلی بیٹی ایک غریبڑے کے پلے باندھے گا؟ جس کا کوئی بھی نہیں، نہ انگ نہ ساک، نہ گھر نہ بوہا۔ ایک ماں ہے جو آج مری کل دُوجا دن۔

ماسٹر جی: دیکھ بہن! کوئی کسی کے رزق کا ذمہ نہیں لے سکتا، یہ میرے رب کا قانون ہے۔ پر میں تو یہ جانتا ہوں کہ توقیر، جس کے ماں اور باپ کی شرافت کی قسم کھائی جا سکتی ہے، کل کا ایک بڑا آدمی ہے۔ 

بے جی: بھائی! ایسے فیصلے یوں تھوڑی ہوتے ہیں؟ بہن فاطمہ کیا کہے گی اور بیٹی جس کا فیصلہ تو کرنے چلا ہے۔۔

ماسٹر جی: یہ بات لِکھ رَکھ، کہ آج سے توقیر میرا بیٹا ہے اور مہ نور تیری بیٹی! بس، اب میں چلا!


۔(۲) ۔

آج سے تین ماہ پہلے: توقیر کا دفتر

توقیر، عنبر

عنبر: ایکسکیوز می پلیز! آپ توقیر دانش ہیں؟

توقیر: جی، جی فرمائیے میں ہی توقیر دانش ہوں۔ تشریف رکھئے۔ ۔۔۔ چائے، یا کافی؟

عنبر: اوہ نو! تھینک یو۔ مجھے آپ سے انٹرویو کرنا ہے۔میرا نام عنبر جمال ہے، میں مقامی اخبار میں کام کرتی ہوں، ادب و ثقافت کا شعبہ میرے پاس ہے۔

توقیر: بہت خوب! ویسے محترمہ، میں شاید اتنا بڑا آدمی تو نہیں جس نے ثقافتی یا ادبی حوالے سے کوئی تیر مارا ہو۔

عنبر: آپ کا ایک نام ہے مسٹر دانش!  شاعر، نقاد اور افسانہ نگار کے طور پر آپ ایک شناخت رکھتے ہیں۔ 

توقیر: بائی دا وے، شاعر لوگ خاصے کھسکے ہوئے سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کو کس احمق نے مجھے انٹرویو کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

عنبر: (ہنستی ہے) ہاہاہاہاہا۔ چیف ایڈیٹر صاحب نے، جو بہت زیرک قسم کے احمق ہیں اور اپنے جیسے احمقوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔

توقیر: واہ، کیا ظرافت پائی ہے خاتون! ترکی بہ ترکی!

عنبر:  آپ مجھے وقت دیں، یا ابھی ۔۔۔۔ میرے پاس ریکارڈر موجود رہتا ہے۔

توقیر: ایک منٹ۔ (چلتے ہوئے قدموں کی آواز، باتیں کرنے کی غیر واضح آوازیں) آئیے مِس جمال، باہر لان میں بیٹھتے ہیں۔ 

۔(۳)۔

آج: توقیر کا فلیٹ

توقیر، عنبر

(فلیٹ کا درواز کھلنے کی آواز، توقیر کے قدموں کی دھمک)

توقیر (خود کلامی): لو میاں توقیر! فلیٹ تک پہنچ گئے پاؤں گھسیٹتے! اے بھائی کولر صاحب، کہاں ہو؟ کوئی پانی وانی ہے کیا؟  ہاں! ہے!(کولر سے گلاس میں پانی انڈیلنے کی آواز؛  توقیر ٹھنڈی سانس لیتا ہے)۔ لگتا ہے کہ اماں بی سے کھل کر بات کرنی پڑے گی۔ یہ کوئی زندگی ہے؟ دفتر سے تھکے ٹوٹے جناب توقیر دانش فلیٹ میں وارد ہوں اور کوئی پانی پوچھنے والی بھی نہ ہو!   واہ توقیر صاحب! وہ اپنی مہ نور کا خط تو پڑھ لیجئے! پڑھتے ہیں صاحب، ذرا چھری تلے دم تو لے لیں۔ اپنی زندگی بھی عجیب ہے! سویرے گھڑی کے الارم پر جاگے، منہ ہاتھ آدھا دھویا، آدھا رہنے دیا کہ بعد میں سہی! کپڑے بدلے، بُندو بھیا کے ریستوران سے ناشتہ ٹھونسا اور چل میاں دفتر! دن بھر سائلوں اور فائلوں سے مغزماری اور (بھاری بھاری سانسوں کی آواز)  اور اس وقت جلتی دوپہر میں یہ ڈربہ بھی ۔پتہ نہیں، اماں بی کا کیا حال ہے(بھاری سانسیں خراٹوں میں بدل جاتی ہیں)۔

(دروازے پر دستک کی ہلکی سی آواز)

 کوئی دروازے پر ہے ، اے! یہاں کون آئے گا؟ اور یہ ! یہ خوشبو کیسی ہے؟ 

( دستک کی زور دار آواز) 

توقیر: یہ تو سچ مچ کوئی ہے۔ (قدرے بلند آواز میں)  دروازہ کھلا ہے، آ جائیے!

عنبر: کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟

توقیر (کھوئے ہوئے لہجے میں): آں، ہاں! ہاں۔ آؤ! آؤ ۔۔۔

عنبر: ہے لو! ہیلو!کہاں کھو ئے ہوئے ہو  توقیر؟ یہ میں ہوں، عنبر ۔ارے، تم جوتوں سمیت بستر سے لٹکے ہوئے ہو، خیریت تو ہے؟

توقیر (لہجہ سنبھالتے ہوئے): ہاں ہاں! تھی خیریت، صحافن بی بی! مگر اب نہیں ہے۔

عنبر: صحافن؟ یہی کہا نا تم نے؟ یہ صحافن ہوتا کیا ہے؟

توقیر: ہوتا نہیں ہوتی ہے! جیسے نائن، دھوبن، موچن ۔۔۔۔

عنبر: بس بس! بکواس نہیں! کم از کم پوچھ تو لیا ہوتا میں کیوں آئی ہوں۔ اور جب کوئی آئے تو چائے پانی بھی پوچھا کرتے ہیں، جنابِ دانش مند!

توقیر: جی! اِرشادِ عالیہ! اپنے تشریف آور ہونے کا مقصد بھی اور یہ بھی کہ آپ چائے نوشِ جاں فرمائیں گی، یا کافی، یا پھر وہی کافی ہے جسے آپ اب سے ایک لمحہ قبل بکواس قرار فرما چکی ہیں۔

عنبر: یو شٹ اپ اینڈ سٹ ڈاؤن!

توقیر: ٹھیک ہے، میں سٹ ڈاؤن ہو جاتا ہوں ۔اب تم چائے بناؤ اور مجھے بھی پیش کرو، کہ یہ خواتین کا شعبہ ہے۔

عنبر: کیا کہا؟ کیا میں تمہاری باورچن ہوں؟

توقیر: ارے نہیں، بابا! باورچن نہیں صرف صحافن!

عنبر: یو، کیری آن دِس نان سینس، میں کچن میں جا رہی ہوں۔

(برتنوں کے کھنکنے کی آوازیں، کاغذ کی تہوں کے کھلنے کی آواز)

(وقفے کی موسیقی)

عنبر: یہ لو چائے۔ کبھی بنائی نہیں، جیسی بھی ہو، زہر مار کر لینا۔ ہاہاہاہا۔

توقیر: اپنا فون دینا ذرا۔

عنبر: تمہارے پاس نہیں ہے کیا؟ کنجوس کہیں کے! کسے فون کرنا ہے؟ لگتا ہے بہت بے چین ہو۔

توقیر:چارجنگ پر لگا ہے۔ مہ نور کو فون کرنا ہے۔ 

عنبر: واہ!!! تو ،  دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی! یہ لیجئے فون جنابِ مجنون!

توقیر: نہیں لگی تو لگا دو گی بی بی، تم! ویسے میں آج کل آتش فشاں بنا ہوا ہوں۔

توقیر: اماں بی کا مسئلہ ہے، بیماری کا، انہیں اب بے ہوشی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ بھابی شاہینہ کی چخ چخ، بھائی کو پروا نہیں اور ۔۔۔۔۔

عنبر:ویسے توقیر!  تم اسے بیاہ کر کیوں نہیں لے آتے یہاں؟

توقیر: یہاں؟ اس فلیٹ میں؟ باؤلی ہوئی ہو کیا؟

عنبر: (نقل اتارے ہوئے):یہاں ۔۔۔توکیا تاج محل بنواؤ گے میرے شہزادے؟ تم اپنی نورجہاں کو چائے میں گھول کر پیو ، اور۔۔۔۔(سسکی کی طرح)  س س سی۔

توقیر: کیا ہوا؟

عنبر: کچھ نہیں، چائے بناتے ہاتھ جل گیا تھا، جلن ہو رہی ہے۔

توقیر: تو، احتیاط کرنی تھی نا!

عنبر: اچھا!   !! ایک: چائے بنا کر دی ۔  دو: ہاتھ جلوایا ۔ تین: تمہاری تقریر بھی سننی ہوگی!

توقیر: آئی ایم سوری عنبر!

عنبر: ڈونٹ بی فارمل توقیر!

توقیر: یہ تم نے کہا تھا، نا۔  ہم دونوں میں کوئی بھی فارمل نہیں ہے اور نہ نارمل ہے۔ (کچھ سوچنے کے انداز میں) ایک سیٹھ کی صاحبزادی اور ایک معمولی دفتر کے اہل کار میں دوستی اور وہ بھی اپنی ہی نوعیت کی! ہے نا عجیب بات؟ سن رہی ہو عنبر؟

عنبر: کہتے رہو۔ 

توقیر: ہم دونوں کھسکے ہوئے ہیں ۔۔۔ ویسے کیا تمہیں یقین ہے کہ تم مجھے چاہتی ہو یا میں تمہیں چاہتا ہوں؟

عنبر: میں؟ میں تمہیں چاہوں گی؟ منہ دھو رکھو اپنا! 

توقیر: دھویا تو تھا آج سویرے ۔کیوں کیا میرے منہ پر گڑ لگا ہے جو تم بھنبھنا رہی ہو؟  اب ذرا چونچ بند رکھو اور میری بات سنو، ہو سکے تو جواب بھی دے دینا۔

عنبر: کہتے رہو۔ ویسے پتہ نہیں کیوں، تم اپنے اپنے سے لگتے ہو۔

توقیر: ہے نا عجیب بات عنبر، کہ ہم محبت کے دیوانے بھی نہیں، اور ہمارے درمیان کوئی ایسی بات بھی نہیں جس کو چھپانا پڑے۔   ایک ادب کا تعلق ہے، لفظ کا رشتہ۔ کیا یہ ایسا ہی مضبوط رشتہ ہے؟ کیا کبھی تم نے غور کیا کہ  وہ جو اندر کا شیطان ہے؛  کیا تم بتا سکتی ہو کہ ہم ایک دوجے کے کیا لگتے ہیں؟ پلیز! برا مت منانا، کیا ہم دونوں الو کے پٹھے ہیں؟

عنبر: ہاں شاید! مگر یہ  الو کون ہے؟

توقیر: ناؤ، آئی ایم سیریئس پلیز۔

عنبر: ارے تم!  تم سیریئس بھی ہو سکتے ہو؟

توقیر: پلیز عنبر، میں پتہ نہیں کیا کہنا چاہ رہا تھا، وہ اماں بی، مہ نور۔۔ ٹھہرو، میں فون کر لوں۔


۔(۴)۔ 

آج :  سرِ راہ

توقیر، عنبر، مہ نور

(رِنگ ٹون)

مہ نور:  ہیلو!

توقیر:  مہ نور! یہ میں ہوں، توقیر۔ کیسی ہو؟

مہ نور: (سسکی لیتے ہوئے):   میں، میں، توقیر۔

توقیر: کیا ہوا مہ نور، تم رو رہی ہو، خیریت تو ہے؟

مہ نور: نہیں نہیں، نہیں تو!  میں رو تو نہیں رہی۔ وہ،  وہ،  امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ میں بہت پریشان ہوں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ آپ فوراً آ جائیں (پھر سسکی لیتی ہے) ۔

توقیر: تیمور کہاں ہے؟

مہ نور  (زہریلے لہجے میں):  وہ؟ جہاں اسے ہونا چاہئے! شاہینہ بیگم کو لے کر کہیں گئے ہوئے ہیں تیمور صاحب، سیر کے لئے! انہیں کیا!!

توقیر: اف خدایا! نور! تم ۔۔۔

مہ نور: آپ فون بند نہ کریں میں ابھی ۔ (دوڑتے قدموں کی اور مہ نور کی دور سے آتی ہوئی آواز) امی! امی! یہ لیں پانی! امی !  توقیر کا فون ہے، میں نے انہیں بلایا ہے۔ (مہ نور کی  اکھڑی ہوئی  آواز) توقیر!  خدا را جلدی آئیے۔

توقیر: ابھی نکلتا ہوں  نور! حوصلہ رکھو اور خود کو سنبھالو۔  (فون بند ہونے کی کلک)

توقیر: عنبر! جلدی کرو مجھے کسی ٹیکسی سٹینڈ تک پہنچا دو، فوراً!

عنبر: لگتا ہے اماں بی کی طبیعت بہت خَراب ہے اور شاید گھر پر کوئی مرد نہیں، ہے نا!

توقیر: ہاں۔

عنبر: اچھا، تم سامنے ٹک شاپ سے پانی وغیرہ لے آؤ، میں ڈیڈی کو فون کر لوں۔

توقیر: ٹو ہیل وِد ٹک شاپ! پلیز عنبر  ،  ہری اپ!

عنبر (حتمی لہجے میں): جاؤ!  ہم کسی  سٹینڈ پر نہیں جا رہے، تمہارے گاؤں جا رہے ہیں۔   ناؤ، گو!

(وقفے کی موسیقی)

عنبر (فون پربات کر رہی ہے):  میں توقیر کے گاؤں جا رہی ہوں۔۔۔ نو،  ڈیڈ! وہ اچھا بچہ ہے ۔۔۔ یس ڈیڈ! آپ خود پر اعتماد ہے نا! ۔۔۔ ہاہا۔ میں آپ کی بیٹی ہوں ڈیڈ۔۔۔ جی! ڈیڈی ۔۔۔میں جلدی آ جاؤں گی، ڈیڈی! گڈ لک ڈیڈ! تھینک یو۔  (توقیر سے) ریڈی بوائے؟ ۔۔۔ گڈ! چلو، بیٹھو گاڑی میں!

(گاڑی کے انجن کی گھر گھر، سڑک پر گاڑیوں کا شور)

(وقفے کی موسیقی)

توقیر: اگلے چوک سے بائیں طرف، تنگ سی سڑک پر ۔۔۔۔ ویسے، کیا ضرورت تھی خود میرے ساتھ چلنے کی؟

عنبر (چنگھاڑتے ہوئے):  وہاٹ! پلیز شٹ اپ اینڈ ٹیک اٹ ایزی، خود کو سنبھالو! 

(گاڑی کی گھر گھر گھوں گھوں)

عنبر:  تو،  تم بہت چاہتے ہو؟ اماں بی کو بھی اور مہ نور میں تو تمہاری جان اٹکی ہے۔

توقیر: ہاں، اور یہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔ 

عنبر:   اسی لئے میں نے تمہارے ساتھ آنے کا فیصلہ کیا تھا، اب تم کچھ بہتر ہو۔  فون پر تم ڈی کمپوز ہو چکے تھے، اور ،جب تم نے بات ختم کی، نا ۔تمہارا چہرہ!  او مائی گاڈ! دیٹ واز اے ڈریڈفل فیس توقیر! میں تمہیں اکیلا چھوڑ دیتی، ایسے میں؟

توقیر: یہ کیا کہہ رہی ہو تم! میں اس سے کیا سمجھوں؟

 عنبر: ڈونٹ بی سِلّی توقیر!  دس از اے سمپل کومٹ منٹ اینڈ  ۔۔  تم اپنا دماغ مت تھکاؤ۔

توقیر: اوکے!

عنبر:  فلیٹ پر جو سوال تم نے کئے تھے، ان کا جواب جاننا چاہو گے؟

توقیر: کیا حرج ہے؟

عنبر: میں بہت چھوٹی تھی جب میری اطلاع کے مطابق ماما مر گئیں۔ مجھے ڈیڈی نے پالا ہے، بہت محبت سے، بڑے لاڈ سے میری شخصیت کی تعمیر کی ہے۔ میں کسی قدر سمجھدار ہوئی تو پتہ چلا ماما مری نہیں، ڈیڈی نے انہیں طلاق دی تھی۔ سنی سنائی باتوں کو جوڑ کر میں نے ایک شارٹ سٹوری ترتیب دی ہے، سنو گے؟

توقیر: ہوں، سن رہا ہوں۔

عنبر: ماما تھوڑی بہت پڑھی لکھی تھیں اور ڈریس ڈیزائن جانتی تھیں۔ ان کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا، وہائٹ کالرڈ کلاس کے لوگ۔ سفید پوشی قائم رکھنے کے لئے جان توڑ محنت کرتے ہیں۔ نام تھا ان کا فاطمہ ۔۔۔  ڈیڈی ان دنوں بزنس ایڈمنسٹریشن کے آخِری سال میں تھے۔ میرے دادا گارمنٹ کا بزنس کرتے تھے۔ کاریگروں میں مرد بھی تھے عورتیں بھی۔ فاطمہ، آئی مین ماما، بھی دادا کے سٹاف میں تھیں۔ ڈیڈی ان پر ریجھ گئے اور کلاس ڈفرنس کے باوجود فاطمہ سے شادی کر لی، مگر۔۔۔

توقیر: مگر کیا؟

عنبر: روپے کے زور پر ایک تتلی پکڑ لی  اور ماما سے دل اچاٹ ہونے لگا۔ تب تک میں پیدا ہو چکی تھی۔ میرا نام عنبر ماما نے رکھا۔ ایک دن ڈیڈی نے کوئی الٹی سیدھی ہانک دی ’تو مزدوری کے لئے آئی تھی، میں نے تجھے ورکشاپ سے اٹھا کر دل میں بسایا‘ وغیرہ وغیرہ، وہی ڈائلاگ جو تم کئی فلموں میں سن چکے ہو گے۔

توقیر: ویری سَیڈ!

عنبر: ماما کو یہ بات کھا گئی اور معاملہ طلاق پر ختم ہوا، مجھے ڈیڈی نے رکھ لیا تھا۔

توقیر:  اور اس تتلی کا کیا ہوا؟

عنبر: اُڑ گئی!یا شاید  اس کے رنگ پھیکے پڑ گئے تو ڈیڈی نے اسے  ریجیکٹ کر دیا۔ 

توقیر: بہت بے رحم تبصرہ ہے تمہارا،  عنبر!

عنبر:   ٹرُتھ اِز دِس، توقیر، یو سی!

توقیر: تم نے ڈیڈی سے ماما کے مسئلے پر کبھی بات کی؟ وہ کہاں گئیں؟

عنبر: نو! مجھے نہیں معلوم۔ اور جو کچھ معلوم ہے وہ کنفرمڈ نہیں ہے ۔۔ خیر چھوڑو ، اپنے والدین کے پاس چلی گئی ہوں گی۔

توقیر: کہاں کے تھے ان کے والدین؟

عنبر: کسی گاؤں کے تھے ۔۔۔فارگیٹ اٹ ناؤ۔

توقیر: مان لو، کہ اس ٹاپک پر بات کرنے کی جرأت نہیں ہے تم میں، ورنہ تم بہت کچھ جانتی ہو۔  نہ بتانا چاہو تو اور بات ہے۔

عنبر: یس، مان لیا،  ایسا ہے!  توقیر! یہ بات مجھے کوئی اور نہیں کہہ سکتا تھا سوائے تمہارے۔ تم صاف آدمی ہو۔ آئی ایڈمٹ اٹ، میں نے مردوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔  سب چھچھورے ہیں۔ جو ہاتھ یا زبان نہیں چلا سکتے ان کی آنکھیں بہت کچھ بتا دیتی ہیں۔ مائینڈ اٹ! میں نے تمہاری آنکھوں کو بھی صاف پایا ہے۔ یو آر این اَن کامن پرسن توقیر! آئی ایم پرؤڈ آف یو۔ مہ نور بہت لکی ہے، یو نو؟

توقیر: تھینک یو، اور تمہیں واقعی نہیں معلوم کہ ماما کا کیا ہوا؟

عنبر: آئی ڈونٹ نو۔  بٹ ، سٹل آئی وانا نو۔

توقیر: اور ڈیڈی نے پھر شادی کی؟

عنبر: کی! مگر وہ عورت ڈیڈی کو چھوڑ گئی؛ ٹِٹ فار ٹَیٹ!مجھے جین پہننا اسی نے سکھایا تھا۔ آج کل ٹی وی ڈراموں میں آ رہی ہے۔

توقیر: کون ۔۔۔ کون ہے وہ؟

عنبر: ٹو ہیل وِد ہر۔ مگر ۔۔۔ میں یہ سب کچھ تمہیں کیوں بتا رہی ہوں؟ حالانکہ ہمارے درمیان کوئی ۔۔۔ سوری، میں بھی تمہارے لہجے میں سوچنے لگی۔ لیو اِٹ، کوئی اور بات کرو۔

توقیر: تم نے شادی کے بارے میں سوچا؟

عنبر: کچھ نہیں دیکھا جائے گا۔ آئی ایم ناٹ سو کریزی۔

توقیر: تو، تم نے مجھے کریزی کہا؟

عنبر: تم تو کریزی بھی نہیں ہو، لٹل بوائے! ابھی میں نے یہی کہا تھا تم ایک مختلف شخصیت ہو، میری طرح۔ ویسے تم اچھے شوہر ثابت ہو گے۔ تمہاری آج کی بوکھلاہٹ سے نوٹ کیا ہے میں نے۔ ہاہاہاہا۔۔۔۔

(اس کی ہنسی گاڑی کی گھر گھر گھر گھر میں کھو جاتی ہے)


۔(۵)۔

آج: ماسٹر جی کے ہاں

توقیر، عنبر، مہ نور، اماں بی

توقیر: لو، ہم پہنچ گئے! گاڑی وہ سامنے کیکر کے نیچے کھڑی کر دو۔ 

(گاڑی بند ہونے کی آواز، دروازے پر دستک، قدموں کی چاپ) 

مہ نور: کون!!!

توقیر: یہ میں ہوں، توقیر۔

(دروازہ کھلنے کی آواز)

مہ نور: السلام علیکم۔ آپ آگئے!!! شکر ہے۔ (عنبر سے) السلام علیکم جی۔

عنبر: و علیکم السلام۔ 

 توقیر: یہ عنبر ہے، اور عنبر! یہ مہ نور ہے،  باقی بعد میں ۔ اماں بی کیسی ہیں؟

مہ نور: سو رہی ہیں اس وقت، کچھ سکون ہے ۔ آئیے بہن، آپ، آئیے نا!

توقیر: چلئے بی بی! اندر چلئے۔ 

اماں بی (دور سے آتی ہوئی کمزور سی آواز): نوری! نوری بیٹا!

مہ نور (بے چین لہجے میں):آئی امی جی! (دوڑتے ہوئے قدموں کی چاپ) امی! توقیر آ گئے!! جب سے آپ نے فون کیا ہے امی سکون میں ہیں۔ آپ لوگ امی سے باتیں کریں میں چائے بناتی ہوں۔ 

اماں بی: آؤ میرے بیٹے آؤ۔ تم تو بڑی جلدی آگئے، اچھا کیا! آؤ میرے پاس بیٹھو!  (عنبر سے) آؤ بیٹی، تم بھی آؤ۔

عنبر  :  سلام! آنٹی۔

اماں بی: جیتی رہو بیٹا۔

عنبر ( مہ نور سے، سرگوشی میں): وہ واش روم کدھر ہے؟

مہ نور: یہ چھوٹا دروازہ۔ (دروازے کی چرچراہٹ، پانی گرنے کی آواز)  

توقیر: اماں بی، آپ کو بٹھا دوں؟ اٹھئے شاباش! ارے آپ تو بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ کی لاڈلی چائے کی یخنی بنا رہی ہو گی، پی کر ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔

اماں بی (زندہ لہجے میں): شریر کہیں کا کہتا ہے میں بالکل ٹھیک ہوں تو پھر ڈاکٹر کے پاس کیا لینے جانا ہے؟

توقیر: بس، آپ کی تسلی کے لئے! آپ نے کچھ کھایا پیا بھی ہے کیا؟

اماں بی: ہاں بیٹا! یہ نوری ذرا رعایت نہیں دیتی، کڑی پابندی کراتی ہے۔

توقیر: اچھا! بہت سختی کرتی ہے؟ اماں بی! میرا کیا بنے گا؟

اماں بی (ہنستے ہوئے): چل ہٹ! بڑ بڑ بولے جا رہا ہے!

(چائے کے برتنوں کی کھنک)

مہ نور: امی، وہ ۔۔۔ عنبر کہاں ہیں۔

توقیر: اماں بی! مسرور کا کوئی فون آیاـ؟

اماں بی: چل شیطان کہیں کا، ندیدہ! میں جانتی ہوں تو کیوں پوچھ رہا ہے۔

مہ نور (شرمائے ہوئے لہجے میں): امی انہیں باز رکھیں آپ، ہاں۔  

اماں بی: یہ ٹیلیفون اسی مسرور کے لئے تو لگوایا ہے ورنہ ہم ماں بیٹی کو اس کی ایسی کیا ضرورت تھی۔ (عنبر کمرے میں داخل ہوتی ہے) تو، میری بچی کا نام عنبر ہے۔ (کھوئے ہوئے لہجے میں) اچھا نام ہے، خوشبو کی طرح قید سے آزاد اور ۔۔ آؤ میری بچی، میرے پاس آؤ نا! ادھر میرے پہلو میں بیٹھو۔ دیکھا تم نے توقیر! کتنی ملتی جلتی ہے نوری سے، جیسے سگی بہن ہو۔ نوری کے ابا کہا کرتے تھے: ’فاطمی! دنیا کی سب سے بڑی دولت خلوص ہے، اور اعتماد ہے اور‘  ۔۔۔

(ساؤنڈ ایفیکٹ: فاطمی ی ی ی ی، فاطمہ ما ما ماما)

عنبر: آپ اجازت دیں تو ایک بار  ۔۔۔۔ ایک بار آپ کو ’’امی‘‘ کہہ لوں؟

اماں بی: نہ بیٹا نہ، ایک بار نہیں دس بار کہنا ہو گا۔ اور وہ بھی میرے گلے لگ کر !(سسکیوں اور ہچکیوں کی آوازیں) ۔۔۔  سیٹھ جمال کی بیٹی ہو؟ 

عنبر : جی، جی، امی!

اماں بی: ہاں، میری بچی! یہی سچ ہے! دودھ اور لہو کی خوشبو بھلا چھپی ہے کہیں؟ توقیر بیٹے، نوری بیٹا! یہ عنبر ہے میری بچی، میرا خون، میرے جگر کا ٹکڑا، تمہاری بڑی بہن۔

 ۔مہ نور (تڑپتی ہوئی آواز میں): آپا! آپا، میری آپا!

 ۔عنبر (تڑپتی ہوئی آواز میں): امی! امی! امی!

   ۔(اماں بی، عنبر اور مہ نور کی سسکیاں) 

توقیر (بھیگی ہوئی آواز میں): یہ آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے!  یہ تو خوشی کا موقع ہے، مہ نور! اماں بی! آپا حضور!  یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ آپ تو بہت ہمت والی ہیں۔۔۔ (سسکیاں گھُٹ جاتی ہیں؛ ذرا سا توقف) ۔۔۔  میں آپ سے مخاطب ہوں، آپا حضور! عنبر آپاااا!

(عنبر کا جان دار قہقہہ)

(اختتامی موسیقی) 

٭٭٭٭٭٭٭



 

بدھ، 19 اگست، 2020

ڈراما ۔ صفحۂ قرطاس سے پردۂ سیمیں تک

کچھ موٹی موٹی باتیں


کوئی بھی کھیل ہو (سٹیج ڈراما، ریڈیو ڈراما، ٹیلی ڈراما، فیچر فلم، وغیرہ وغیرہ)؛ آپ اپنی تہذیب اور ثقافت سے جس قدر جُڑ کر رہیں گے، اپنی معاشرتی نفسیات کے مطابق چلیں گے، اپنی تاریخ کو پیش کریں گے، اپنی اخلاقی اقدار اور ایمانیات کو وزن دیں گے، پروڈکشن کے اجزاء (کہانی، مکالمہ، مناظر، لباس، اوزار، جانور، گھر، میدان، وغیرہ وغیرہ) جتنے فطری، حقیقی اور غیر ملمع شدہ ہوں گے، اتنا ہی آپ کا کھیل مؤثر اور مقبول ہو گا۔ کہانی کے ایک کردار کو برا، یا اچھا، یا بااختیار، یا مجبور دکھانا ہے تو صرف مکالمے کافی نہیں، ہر کردار کا ایک فطری گیٹ اپ بنانا ہو گا۔ پلاٹ اور منظر آفرینی میں توازن بہت ضروری ہے۔ کوئی ڈراما کس حد تک ان عناصر کا پاس کر رہا ہے؛ یہی اس کا معیار ہے۔

ان سب عناصر کے مقابلے میں اگر آپ دوسروں کی نقالی کریں گے، دوسروں کی تہذیب کا پرچار کریں گے، آپ کے کھیل میں سطحیت اور ابتذال کی سطح بھی اتنی ہی ہو گی۔ یہاں تک کہ آپ کا تیار کیا ہوا ڈراما ایک شریف فیملی کے افراد اکٹھے بیٹھ کر دیکھیں تو انہیں شرم آئے گی۔

ڈراما صرف یہ نہیں کرتا کہ اس نے ایک سچائی کو ٹھیک ٹھیک پیش کر دیا، اور بس۔ ڈراما پورے معاشرے کی ذہن سازی کرتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل ڈرامے کے کرداروں جیسا بننا چاہتی ہے۔ ڈرامے کو پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ مثبت اور تعمیری سوچ پر مبنی ہونا چاہئے۔


محمد یعقوب آسی۔ ۳۰۔ اپریل ۲۰۲۰ء

پیر، 13 جولائی، 2020

نہ، نا، نہیں، ناں، کہ

........

کچھ بات معانی کی

سب سے پہلی بات یہ نوٹ کی جائے کہ لفظ ’’ناں‘‘ اردو کا نہیں ہے۔ پنجابی میں اس کے دو معنے ہیں: نہ (نافیہ)، نام، مثلاً: انج ناں کر یار، اپنا ناں دَس دے (یوں نہ کرو یار، اپنا نام بتا دو)۔ تاہم نافیہ کے لئے میری ذاتی ترجیح ’’نہ‘‘ ہے، ’’ناں‘‘ نہیں۔

نہ ( نَ ہ): اردو میں یہ حرف نافیہ ہے یعنی معانی میں نفی پیدا کرتا ہے، مثلاً: نہ کوئی آیا نہ گیا؛ نہ حساب نہ کتاب؛ میں نے نہ تو اسلم کو برا کہا نہ تمہیں؛ نہ کرو یار؛ وہ نہ بھی آیا تو کیا ہے؛ وغیرہ۔

نہیں (نَ ہی ں): اس میں ’’ن‘‘ کے ساتھ فعل ناقص (ہے، تھا، گا، وغیرہ) کا تاثر بھی شامل ہوتا ہے، مثلاً: وہ بہرا نہیں ہے؛ آپ نہیں جانتے؛ کوئی نہیں مانے گا؛ وہاں تو کوئی بھی نہیں گیا؛ وغیرہ۔ پہلا جملہ (وہ بہرا نہیں ہے): اس میں لفظ ’’ہے‘‘ کو نہ لکھنا راجح ہے۔

لفظ نہیں لفظ ہاں کا معنوی متضاد ہے۔ مثلاً: نورالدین کے بارے میں کچھ پتہ چلا؟ اس سوال کے جواب میں ایک لفظ ’’ہاں‘‘ کافی ہے (یعنی پتہ چل گیا ہے)؛ اور ایک لفظ ’’نہیں‘‘ کافی ہے (یعنی پتہ نہیں چلا)۔ یہاں ’’نہ‘‘ کا مقام نہیں ہے۔ 

نا (ن ا): اس کی بہت معروف صورت ہے معانی کو تقویت دینا (تاکید کا عنصر)، مثلاً: اٹھو نا یار، چلیں (اٹھنے کے عمل پر زور دیا جا رہا ہے نہ کہ اس کی نفی کی جا رہی ہے)؛ وہی ہوا نا جو میں نے کہا تھا (ہونا کے معانی میں تقویت پیدا ہوتی ہے)؛ ایسا نہیں ہے نا بھائی (یہ جملہ نفی کا ہے، بوجہ: نہیں؛ اور اس کے نفی ہونے کو تقویت دے رہا ہے: نا)۔ 

یہاں ایک نکتہ خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ حرف نون پر کوئی حرفِ علت (الف، واو، یاے) واقع ہو تو وہاں پیدا ہونے والی غنہ جیسی کیفیت خود اِس نون کی وجہ سے ہوتی ہے،وہاں نون غنہ ہو، یا نہ ہو ( نون غنہ کا وجود یا عدم وجود املاء کے قواعد اور لفظ کی اصولی ساخت کے مطابق ہو گا)۔

نا (بطور سابقہ): جب یہ کسی صفت سے پہلے واقع ہو تو اس کی نفی کرتا ہے، مثلاً: لائق، نالائق؛ دانا، نادان؛ آشفتہ، ناشفتہ؛ معقول، نامعقول؛ دیدہ، نادیدہ؛ سمجھ دار، نا سمجھ؛ شناسا، نا شناس؛ وغیرہ۔ عربی لفظ غیر یہ معانی بھی دیتا ہے، مثلاً: مقبول، غیر مقبول؛ معروف، غیر معروف؛ حاضر، غیر حاضر؛ وغیرہ۔ مقامی زبانوں (پنجابی ہندی وغیرہ) سے ایک سابقہ ’’اَن‘‘ بھی یہی معانی دیتا ہے، مثلاً: اَن پڑھ؛ اَن اَنت؛ اَن دیکھا؛ اَن کہی؛ اَن سنی؛ وغیرہ۔

سابقے ’’لا‘‘ اور ’’بے‘‘: ان میں بھی نفی کے معانی پائے جاتے ہیں تاہم ان کا رُخ خاصا مختلف ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ محض نفی کی بجائے نئے معانی بھی پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً: لا متناہی، لا یعنی، لا شریک، لا فانی، لا علم، لامکاں، لا شخصی، لاشعور؛ بے علم، بے باک، بے تاب، بے کار، بے بس، بے سرا، بے ڈھنگا، بے لباس، بے وقار؛ وغیرہ۔ لاعلم اور بے علم کے معانی میں فرق ہے؛ لایعنی اور بے معنی کے معانی میں فرق ہے؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔

نوٹ: زبان کا ایک عمومی قاعدہ یاد رکھیں کہ ایک ہی املاء کے حامل الفاظ معانی میں مختلف بھی ہو سکتے ہیں، اور مختلف الفاظ ایک ہی معنیٰ بھی دے سکتے ہیں (اس کا انحصار آپ کے اپنے ذخیرہء الفاظ پر ہے)۔یعنی: املاء کو معانی میں اور معانی کو املاء میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔

............

عروض میں ’’نہ‘‘ اور ’’کہ‘‘ کی بندش

اشرافیہ (کلاسیک) میں ان دونوں لفظوں کو یک حرفی باندھنے کی روایت ہے۔ اساتذہ نے بھی جہاں ’’نہ‘‘ دوحرفی باندھنا لازم جانا وہاں لفظ ’’نَے‘‘ لائے ہیں، حالانکہ ’’نا‘‘ ان کے علم میں تھا۔ اگر ’’نا‘‘ (دوحرفی) لانا درست مانتے تو ’’نَے‘‘ کی ضرورت نہ ہوتی۔ ’’کہ‘‘ (بیانیہ) کے معاملے میں البتہ کچھ لچک ملتی ہے کہ کہیں اس کو دوحرفی باندھنے کی گنجائش دے دی جائے۔ تاہم یہ بھی ایک انداز کی رعایت یا نرمی ہو گی، نہ کہ قاعدہ۔

........................................

۔۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
جمعرات 17؍ اگست 2017ء

جمعہ، 15 مئی، 2020

سنت اور فرض کا فرق؟؟


سنت اور فرض کا فرق

مسئلہ (سنت اور فرض کا فرق) شروع کہاں سے ہوا۔ اللہ کریم نے اپنے انبیاء کے وظائف میں کچھ ایسی باتیں رکھ دی ہیں، کہ امتی ان باتوں کے مکلف نہیں۔ جو چیز نبی پر فرض ہے ہو سکتا ہے امت اس چیز سے واقف ہی نہ ہو۔ جو چیز امت کے لئے مستحب ہے وہ نبی کے لئے لازم بھی ہو سکتی ہے۔ کیوں؟ وہ ہمارے پاس اللہ کا نمائندہ اور رسول ہے، اس کی ذمہ داریاں (اللہ کے حوالے سے) امتی سے کہیں زیادہ ہیں۔ ایسے امور بھی ہو سکتے ہیں جن میں نبی کو اختیار دیا گیا ہو اور امتی کو نہ دیا گیا ہو۔ ہم امتی ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ایک امتی ہونے کے ناطے ہمیں کیا کرنا ہے۔ یہاں تک احکام بالکل واضح کر دئے گئے اور ان کا قابلِ عمل ہونا بھی یقینی بنا دیا گیا۔ ان سے آگے؟ اللہ جانے اور اس کا نبی جانے، آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟

عبادات اور مناسک میں مثلاً نماز اور روزے میں توجہ فرمائیے۔ جسے ہم عرفِ عام میں فرض کہتے ہیں، وہ ہے جسے کتاب اللہ نے کُتِبَ علَیکم کہا ہے کہ ان کا کرنا لازم ہے مثلاً نمازِ ظہر کے چار فرض (جمعے کی نماز میں وہی فرض دو رہ گئے)۔ کچھ مناسک وہ ہیں جن کا اللہ کریم نے ویسے حکم نہیں دیا، نبی ان کو کرتا ہے؛ وہ سنت ہیں۔ جیسے ظہر سے پہلے کی (چار، یا دو) اور بعد کی (دو) سنتیں ہیں۔ ان کو سنتِ مؤکدہ کا نام دے دیا گیا۔ کچھ مستحبات ہیں جن کی اپنی اہمیت ہے تاہم حکم ہے کہ کر لو تو اچھا ہے، جیسے ظہر کی نماز کے بعد دو نفل ہیں۔ ظہر کی مثال ہم نے اس لئے لی ہے کہ اس میں وہ مناسک کے تینوں درجے آ گئے۔ عصر کی نماز (چار فرض) سے پہلے دو یا چار رکعت پڑھنا مستحب ہے، اس کو سنتِ غیرمؤکدہ کا نام دے دیا گیا۔

یوں کچھ وضاحتیں خود اپنے اوپر لاد لی گئیں اور وہی کہ فرض کا انکار نہیں ہو سکتا، سنت کا انکار ہو سکتا ہے؛ وغیرہ۔ خدا کے بندو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ ایک عمل سنت ہے اور مؤکدہ ہے تو تم اس کا انکار کیسے کر سکتے ہو جس کی تاکید نبی نے کی؟ کیا مذاق ہے! اور جسے تم غیر مؤکدہ کہتے ہو، وہی تو مستحب ہے کہ بھائی پڑھ لو تو اچھا ہے، نہ پڑھنے سے نماز کو کچھ نہیں ہوتا، ہاں تم ان کی برکات سے محروم رہنا پسند کرو تو تمہاری مرضی۔ بیماری میں سفر میں جہاں قصر ہے وہ فرض نمازوں پر ہے۔ بیٹھ کر، لیٹ کر، اشاروں سے نماز پڑھنا بھی فرض نمازوں پر ہے۔

سفر، جنگ، بیماری میں سنت رکعتوں سے ویسے ہی رخصت مل جاتی ہے (دلوں کا حال اللہ جانتا ہے)۔ جنگ کی حالت میں نماز کیسے پڑھی جائے، اس کا مختصر بیان قرآن شریف میں آ گیا۔ تفصیلات کتابوں میں میسر ہیں۔ جیسے نماز کے اوقات کا بیان قرآن شریف میں آ گیا، کتنی رکعتیں پڑھنی ہیں، وہ کون کون سی ہیں، نماز کے ارکان (قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ، قعدہ) کی تفصیلات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان بھی فرما دیں کر کے بھی دکھا دیں۔

جب قرآن نازل ہو رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ سوالات سے منع کر دیا تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم قومِ موسیٰ کی طرح سوال کرتے جاؤ اور ان کے جواب میں عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے۔ کون جانے! جب حکم ہوا کہ گائے ذبح کرو تو وہ سوال کرنے لگے اور سوال پر سوال کرتے گئے۔ گائے کی ڈیفینیشن ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ ویسی گائے کا ملنا محال ہو گیا۔ حکم ملتے ہی وہ لوگ کوئی سی گائے ذبح کر دیتے، حکم کی تعمیل بہ سہولت ہو جاتی۔ ان کا تو رویہ ہی عجیب تھا کہ: موسیٰ! تم ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ تفصیللات سب جانتے ہیں، اشارہ کافی است۔

اب کیا نئی بات ہو گئی ہے، کیا نماز بدل گئی ہے؟ نہیں نماز تو نہیں بدلی پڑھنے والے نہیں رہے اور جو رہ گئے ہیں ان میں موشگافیاں کرنے والے زیادہ ہیں اور تسلیم کرنے والے کم۔ تلقین کرتے رہئے۔ جو سچ اور درست ہے بیان کرتے رہئے، مفروضات سے گریز کیجئے، اللہ بھلی کرے گا۔ اپنا دل میلا نہ کیا کیجئے!۔


محمد یعقوب آسی ۔۔ جمعہ: ۱۵۔ مئی ۲۰۲۰ء

تھا وہ اک یعقوب آسیؔ ۔ تازہ ترین



تھا وہ اک یعقوب آسیؔ


ایک گھنٹے کا بریک ٹائم؛ میرے دفتر میں کچھ مہربان جمع تھے۔ ایک بزرگ تھے، چوہدری صاحب، فزکس کے پروفیسر؛  عمر اور عہدے دونوں میں میرے سینئر تھے، اور ہم میں خاصی بے تکلفی تھی۔ وہ مجھے ’’اوئے یعقوب!‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے اور میں انہیں ’’تایا جی‘‘ کہا کرتا۔ پانچ بلکہ سات وقت کے پکے نمازی تھے؛ ان کی ٹھوڑی گھُٹنے کی طرح صاف تھی۔ دوسرے ایک مقامی مسجد کے امام تھے، میرے ساتھ دوسرے درجے کے افسر، مختصر سا وجود، مختصر سا چہرہ اور اس پر مختصر سی داڑھی (داڑھی کے بال گھنے نہیں تھے)، تاہم بہت مناسب لگتی تھی۔ تیسرے ایک حافظ صاحب تھےاسلامیات کے پروفیسر، فربہ جسم، بھرا بھرا چہرہ، گھنی مگر چھوٹی چھوٹی داڑھی جسے وہ ایک انچ تک نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک ملک صاحب تھے شعبہ جسمانی تربیت کے اکلوتے افسر؛ داڑھی کبھی رکھ لیتے، کبھی مونڈ دیتے، کبھی سفید رہنے دیتے کبھی بسمہ لگا لیتے؛ اُس دن تازہ مُنڈی ہوئی تھی۔ ایک مہر صاحب تھے۔ ایم دوسری مسجد کے نائب امام، معمر شخص تھے، داڑھی بے ترتیب، جیسے بڑھتی گئی بڑھتی گئی، وہ خط کرنے کے بھی حامی نہیں تھے۔ اور ایک میں تھا، تقریباً ویسا ہی جیسا آپ مجھے میری فیس بک والی تصویروں میں دیکھتے ہیں؛ تب بال اتنے سفید نہیں تھے۔

تایا جی نے ایک دم سوال داغ دیا: ’’اوئے یعقوب! اک گل دس، داڑھی دے بارے توں کیہ کہندا ایں، کس طرح دی ہووے، کنی وَڈّی ہووے؟‘‘  ..... بات وہی ہو گئی کہ
؏: اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے

عرض کیا: ’’آپ اپنے سمیت ہم سب نمونوں کو دیکھ لیجئے! گوڈے والے سب ایک سے ہیں، فرق داڑھی والوں میں ہے‘‘۔ تایا جی نے مجھے گھُورا مگر بولے کچھ نہیں، میں نے جسارت جاری رکھی۔’’داڑھی کا ایک بال بھی نہ مونڈا جائے، نہ کاٹا جائے، خط کر سکتے ہیں، چھوٹی بڑی ہو سکتی ہے، ایک مٹھی کی ہو، اتنی ہو، اتنے لمبے بال چھوڑ کر کترا لیں؛ یہ ہو، وہ نہ ہو؛ یہ ساری باتیں دیکھی جانی چاہئیں اور درست ترین، مستند ترین کو اپنانا چاہئے؛ مگر پہلی بات یہ ہے کہ داڑھی رکھنی ہے!! اس میں کوئی کلام نہیں۔  ..... ہم چاروں میں کم از کم ایک اشتراک تو ہے! دیکھنے والے کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اِس بندے نے داڑھی رکھی ہوئی ہے شیو نہیں بڑھی ہوئی۔ ایک شخص روزانہ سویرے اٹھ کر پہلا کام یہ کرے کہ سنتِ رسول کو چہرے پر سے کھرچ کر دھو کر بہا دے، یا اگر روز نہیں تو کم از کم ہر جمعے کے مبارک دن کا آغاز لازماً سنت کُشی سے کرے، کہ ’اَج مسیتے جانا اے یار‘ ۔۔ تو میں کیا کہہ سکتا ہوں‘‘۔۔۔ پھر؟ کوئی بھی، کچھ بھی تو نہیں بولا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تب بھی کچھ اور نہیں کہنا پڑا، اور اب بھی مجھے کچھ اور نہیں کہنا۔ ماسوائے اس کے کہ اگر آپ کی داڑھی قدرتی طور پر اگتی ہی نہیں یا بالوں کے کسی مرض وجہ سے پھوٹنا بند کر دیتی ہے، جھڑ جاتی ہے؛ تو آپ معذور ہیں۔

محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ جمعہ:  ۱۵۔ مئی ۲۰۲۰ء

شاعری؛ کیا اور کیوں




شاعری؛ کیا اور کیوں

سوال دراصل یہ بن گیا ہے کہ شاعری میں ہو کیا رہا ہے اور ہونا کیا چاہئے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اور ہمارے شعر پر کون سی حدود لاگو ہوتی ہیں۔

دین وہ ہے جو انسان کی نجی اور معاشرتی زندگی کے ہر ہر شعبے میں مکمل راہ نمائی کرے اور جہاں ضروری ہو، حدود و قیود کا تعین بھی کرے۔ یہ کام اللہ کا ہے اور اللہ نے اس کے لئے انبیاء کو مبعوث فرمایا؛ جنہوں نے اس دین کو عملاً نافذ کر کے دکھایا۔ اسی بات کو یوں کہہ لیجئے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہم اپنی زندگی کے جملہ معاملات و مسائل میں قرآن اور حدیث کے پابند ہیں؛ اور آزادیاں یا گنجائشیں بھی وہیں تک لے سکتے ہیں، جہاں تک کی اسلام اجازت دیتا ہے؛ اس سے آگے حدود اللہ ہیں۔ اس امر کو یوں دیکھئے کہ اسلام محض چند مناسک کا مجموعہ نہیں اور نہ یہ کسی خاص لباس، زبان، ثقافت اور علاقے سے مشروط ہے۔ اسلام مکمل دین ہے اور اس کا تقاضا ’’کافّۃ‘‘ ہے۔ یعنی اسلام میں داخل ہونا ہے اور کلی طور پر داخل ہونا ہے۔ اسلام کا کوئی حصہ، کوئی رکن نہیں چھوڑا جا سکتا ہے اور دنیا کا کوئی معاملہ ایسا نہیں جو اسلام سے بالاتر ہو۔

شاعری بھی انسانی زندگی اور معاشرت کا ایک حصہ اور ایک مؤثر ذریعہء اظہار و ابلاغ ہے۔ اس پر اسلامی قدر کا نفاذ بھی ویسا ہوتا ہے، اور ہونا بھی چاہئے جس قدر اس فن کی اثر آفرینی ہے۔ جنابِ نادمؔ کے سوال کے جواب میں شاعری کی علمی حیثیت اور اس پر احکام کے اطلاق کے حوالے سے اتنا کچھ کہہ دیا گیا ہے اور وہ اتنا کافی ہے کہ اس پر مزید کوئی اضافہ کرنا، کم از کم میرے لئے ممکن نہیں۔ میں یہاں صرف ایک بگاڑ کی بات کروں گا جسے میں بنیادی بگاڑ سمجھتا ہوں۔

امتیں صرف دو ہیں: ایک اسلام اور ایمان والے ہیں، دوسرے منکرین ہیں۔ واضح رہے کہ منافقین عام منکرین کی نسبت بدتر ہیں کہ وہ ہیں تو منکرین مگر دعویٰ مسلم ہوتے کا کرتے ہیں، اور اپنی معاشرتی زندگی میں بظاہر مسلمانوں جیسا دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں یہ لوگ ’’اللہ کو اوراہلِ ایمان کو دھوکا دیتے ہیں‘‘۔ اشارہ کر دیا ہے، تفصیلی شناخت اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کے فرمودات میں میسر ہے۔ رہے منکر، وہ تو منکر ہیں؛ انہیں اللہ کے حکم کی تعمیل سے کوئی غرض ہوتی تو انکار ہی نہ کرتے۔

ہوا یہ، کہ منکرین اور ان کے فکری بالکوں نے مختلف امور پر ایک ایک کر کے کچھ ایسی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی اور ہنوز کر رہے ہیں کہ: نماز اسلام میں ہے، اسلام نماز میں نہیں؛ داڑھی اسلام میں ہے، اسلام داڑھی میں نہیں؛ سود سے پیسہ بڑھتا ہے اور زکوٰۃ سے گھٹتا ہے؛ اسلام کو آپ کی زندگی کی سائنس سے غرض ہے فن سے نہیں؛ ناچ، گانا، مصوری، موسیقی، سنگ تراشی، فنِ تعمیر، ادب، شعر اور دیگر فنون مذہب سے بالاتر ہیں یا مذہب کو ان سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ بنیادی کج فکری کا یہ فتنہ آج کا تازہ فتنہ نہیں ہے، اس کو صدیوں سے (پوری دنیا میں عام طور پر اور مسلم معاشروں میں خاص طورپر) پھیلایا جا رہا ہے۔ بہت سارے ذہن تو اس فتنے کا شکار ہو چکے ہیں اور بہت سارے بڑی تیزی سے شکار ہورہے ہیں۔ شعر کی اثرپذیری کو معاشرتی بگاڑ پیدا کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر برتنے کا صیہونی دجالی منصوبہ اپنے خطوط پر عمل پیرا ہے اور’’ نیو ورلڈ آرڈر‘‘ اور ’’نیو روڈ میپ‘‘ کے کارپرداز اِس میں بھی سارے شیطانی حربوں سے کام لے رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے شاعروں سے واقف ہوں جو ’’پورا شاعر‘‘ بننے کے شوق میں شراب اور نشے تک کے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کے لحاظ سے یہ ’’کچھ بڑے شاعروں‘‘ کی سنت ہے۔محبوب کے سِفلی تصور نے کتنے ہی شاعروں کو اس گناہ پر بھی لگا دیا جسے ’’برا راستہ‘‘ فرمایا گیا ہے۔

شاعروں کو معاشرہ ’’باشعور‘‘ لوگوں میں شمار کرتا ہے۔ اور کتنے ہی لوگ ایسےہیں جو اپنے عقائد اور ایمانیات میں بھی شعراء کےکلام کو بنیاد مانتے ہیں۔وعید حقیقت میں انہی لوگوں کےلئے ہے کہ انہوں نے شاعر کی بات مان لی اور اس کے پیچھے چل پڑے؛ اللہ اور رسول کی بات جاننے کی پروا نہیں کی، ماننا تو بعد کی بات ہے۔ شاعر پر قدغن یہ لگتی ہے کہ نامعلوم وادیوں میں نہیں بھٹکنا؛ انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے، جس سے محرومی اپنے لئے بے راہ روی کا اور دوسروں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ مسلمان کے پاس تو ضائع کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ہوتا۔ اس پر تو بہت عظیم ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں اور اسے اللہ کے ہاں وقت کا حساب بھی دینا ہے ۔ بھلائی دینِ اسلام کی روح ہے بلکہ اسلام سراسر بھلائی ہے۔ پروفیسر انور مسعود سےکہا گیا کہ نئے لکھنے والوں کے لئے کوئی نصیحت کریں؛ انہوں نے کہا: محسنات اور منکرات کا کسے نہیں پتہ! بھائی محسنات کو اپنا لو، منکرات کو چھوڑ دو! اور ہاں! یہ بات خوب سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بے مقصد نہیں بنائی۔ سنتِ الٰہی یہی ہے کہ آدمی کوئی بے مقصد کام نہ کرے۔

شعر تو ہر موضوع پر کہا جاتا ہے، کہا جاتا رہے گا۔ مگر یاد رہے کہ ہمیں جو بھی کرنا ہے، ایسے کرنا ہے کہ اس میں بھلائی ہو، برائی نہ ہو۔ شعر بے مقصد نہ ہو، بامقصد ہو؛ اور مقصد بھی نیک ہو۔ نیک وہ ہے جو اللہ اور رسول کی ہدایات کی روشنی میں نیک ہے۔ ظاہر ہے انداز بھی نیک، شستہ اور شائستہ اپنانا پڑے گا۔

وما توفیقی الا باللہ۔

محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ جمعہ ۱۵۔ مئی ۲۰۲۰ء